رباح نے جن بزرگوں کو گرفتار کر کے قید کر دیا تھا، ۱۴۴ھ کے آخر ایام تک مدینہ میں قید رہے، منصور برابر محمد مہدی اور ان کے بھائی ابراہیم کے تجسس وتلاش میں مصروف رہا، اس عرصہ میں یہ دونوں بھائی حجاز کے قبائل اور غیر معروف مقامات میں روپوش رہے اور جلدجلد اپنی جائے قیام کو تبدیل کرتے رہے، غرض سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ کی اولاد میں کوئی شخص ایسا نہ تھا جو قید نہ ہو گیا ہو یا اپنی جان بچانے کے لیے چھپا چھپا نہ پھرتا ہو۔
۱۴۴ھ کے ماہ ذی الحجہ میں منصور حج کرنے گیا اور محمد بن عمران بن ابراہیم بن طلحہ اور مالک بن انس کو یہ پیغام دے کر اولاد حسن رضی اللہ عنہ کے پاس قید خانہ میں بھیجا کہ محمد وابراہیم دونوں بھائیوں کو ہمارے سپرد کر دو، ان دونوں کے باپ عبداللہ بن حسن مثنیٰ بن حسن نے ان دونوں کے حال سے اپنی لاعلمی بیان کر کے خود منصور کے پاس حاضر ہونے کی اجازت چاہی، منصورنے کہا کہ جب تک اپنے دونوں بیٹوں کو حاضر نہ کرے، میں عبداللہ بن حسن سے ملنا نہیں چاہتا، جب منصور حج سے واپس ہو کر عراق کی جانب آنے لگا تو رباح کو حکم دیا کہ ان قیدیوں کو ہمارے پاس عراق بھیج دو، رباح نے ان سب قیدیوں کو قیدخانہ سے نکال کر طوق، ہتھکڑیاں اور بیڑیاں پہنا کر بغیر کجاوہ کے اونٹوں پر سوار کرایا اور محافظ دستہ کے ساتھ عراق کی جانب روانہ کر دیا۔
راستے میں محمد وابراہیم دونوں بھائی بدووں کے لباس میں اپنے باپ عبداللہ سے آکر ملے اور خروج کی اجازت چاہی، مگر عبداللہ بن حسن نے ان کو صبر کرنے اور عجلت سے کام نہ لینے کی ہدایت و نصیحت کی۔
یہ قیدی جب منصور کے پاس پہنچے تو منصور نے محمد بن عبداللہ بن عمرو بن عثمان رضی اللہ عنہ کو اپنے سامنے بلا کر گالیاں دیں اور ڈیڑھ سو کوڑے لگوائے، محمد بن عبداللہ بن عمرو کا منصور اس لیے دشمن تھا کہ اہل شام ان کے ہوا خواہ تھے اور ملک شام میں ان کا بہت اثر تھا۔
ان قیدیوں کے عراق میں منتقل ہو جانے کے بعد محمد مہدی نے اپنے بھائی ابراہیم کو عراق و خراسان کی طرف روانہ کر دیا کہ تم وہاں جا کر لوگوں کو دعوت دو اور عباسیوں کی مخالفت پر آمادہ کرو، منصور کو اس بات کا یقین تھا کہ محمد مہدی حجاز میں موجود ہیں، اس نے ان کو دھوکہ دینے اور ان کا پتہ لگانے کی غرض سے جو تدابیر اختیار کیں، ان میں ایک یہ تھی کہ وہ مسلسل مختلف شہروں کے لوگوں کی طرف سے محمد مہدی کے نام خطوط لکھوا لکھوا کر ایسے لوگوں کے پاس بھجواتا رہتا تھا جن کی نسبت اس کو شبہ تھا کہ یہ محمد مہدی کے ہمدرد اوران کے حال سے باخبر ہیں، ان خطوط میں لوگوں کی طرف سے اظہار عقیدت اور منصور کی برائیاں درج ہوتی تھیں اور خروج کے لیے ترغیب دی جاتی تھی، مدعا منصور کا یہ تھا کہ اس طرح ممکن ہے کہ محمد مہدی تک بھی کوئی جاسوس پہنچ جائے اور وہ گرفتار ہو سکیں، یہ مدعا تو حاصل نہ ہوا، لیکن یہ ضرور ہوا کہ محمد مہدی کو ایسے خطوط کی اطلاع اپنے دوستوں کے ذریعہ پہنچتی رہی اور ان کو اپنے ہوا خواہوں اور فدائیوں کا اندازہ کرنے میں کسی قدر غلط فہمی ہو گئی، یعنی انہوں نے اپنی جماعت کا اندازہ حقیقت سے زیادہ کر لیا۔
ادھر ان کے بھائی ابراہیم نے بصرہ، کرمان، اصفہان، خراسان، موصل اور شام وغیرہ کا سفر کر کے جابجا اپنے داعی اور ہمدرد پیدا کر لیے اور منصور کے دارالخلافہ میں آکر ایک مرتبہ منصور کے دستر خوان پر کھانا کھا گئے اور منصور کو علم نہ ہوا، دوسری مرتبہ جب کہ منصور بغداد کی تعمیر کے معائنہ کو آیا تھا، وہ منصور کے آدمیوں میں ملے جلے اس کے ساتھ موجود تھے، منصور کو جاسوسوں نے اطلاع دی کہ ابراہیم یہاں موجود ہیں، مگر اس مرتبہ بھی منصور ان کو گرفتار نہ کرا سکا۔
اسی طرح محمد مہدی بھی حجاز میں رباح کی سخت ترین کوشش وتلاش کے باوجود اس کے ہاتھ نہ آئے، آخر ۱۴۵ھ میں ابوعون عامل خراسان نے منصور کے پاس ایک تحریر بھیجی کہ خراسان میں مخفی سازش بڑی تیز رفتاری سے ترقی کر رہی ہے اور تمام اہل خراسان محمد مہدی کے خروج کا انتظار کر رہے ہیں، منصور نے اس تحریر کو پڑھتے ہی محمد بن عبداللہ بن عمرو بن عثمان کو قید خانے سے بلا کر جلاد کے سپرد کیا اور ان کا سر اتروا کر خرسان بھیج دیا، اس سر کے ساتھ چند آدمی ایسے بھیجے گئے، جنہوں نے جا کر قسم کھا کر شہادت دی کہ یہ سر محمد بن عبداللہ کا ہے اور ان کی دادی کا نام فاطمہ بنت رسول اللہ تھا، اس طرح اہل خراسان کو دھوکہ دیا گیا کہ محمد مہدی قتل ہو گئے اور یہ انہیں کا سر ہے۔
پھر منصور نے محمد بن ابراہیم بن حسن رضی اللہ عنہ کو زندہ ایک ستون میں چنوا دیا، اس کے بعد عبداللہ بن حسن بن حسن بن علی رضی اللہ عنھما اور علی بن حسن بن حسن بن علی رضی اللہ عنھما کو قتل کیا گیا، پھر ابراہیم بن حسن بن حسن بن علی رضی اللہ عنھما اور عباس بن حسن بن حسن بن علی رضی اللہ عنھما وغیرہ کو سخت اذیتوں کے ساتھ قتل کیا گیا۔
منصور کی یہ سنگدلی اور قساوت قلبی نہایت ح
یرت انگیز ہے، بنوامیہ علویوں کے مخالف اور دشمن تھے اور عباسی تو اب تک علویوں کے ساتھ شیروشکر چلے آتے تھے، بنوامیہ کی علویوں سے کوئی قریبی رشتہ داری نہ تھی، لیکن عباسیوں اور علویوں کا تو بہت ہی قریبی رشتہ تھا، علویوں نے بنو امیہ کی سخت مخالفت کی تھی اور بارہا بنوامیہ کے خلاف تیروتلوار کا استعمال کر چکے تھے، لیکن بنوعباس کے خلاف ابھی تک انہوں نے کوئی جنگی مظاہرہ بھی نہیں کیا تھا، ان تمام باتوں کو ذہن میں رکھو اور سوچو کہ بنو امیہ نے کسی علوی کو اس طرح محض شبہ میں گرفتار کر کے قتل نہیں کیا، بلکہ ان کے ہاتھ سے وہی علوی قتل ہوئے جو میدان جنگ میں لڑتے ہوئے مارے گئے، مگر منصور نے بالکل بے گناہ اولاد حسن رضی اللہ عنہ کے کتنے افراد کس قساوت قلبی اور بیدردی کے ساتھ قتل کئے ہیں، منصور کا یہ قتل سادات جرم و گناہ کے اعتبار سے یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کے قتل حسین سے بہت بڑھ چڑھ کر نظر آتا ہے، شاید اسی کا نام دنیا ہے، جس کی ہوس میں انسان اندھا ہو کر ہر ایک ناشدنی کام کر گزرتا ہے۔
==================