ابوالعباس عبداللہ سفاح بن محمد بن علی بن عبداللہ بن عباس بن عبدالمطلب بن ہاشم سنہ ۱۰۴ھ میں بمقام حمیمہ علاقہ بلقاء میں پیدا ہوا، وہیں پرورش پائی، اپنے بھائی ابراہیم امام کا جانشین ہوا، اپنے بھائی منصور سے عمر میں چھوٹا تھا، عبداللہ سفاح خون ریزی، سخاوت، حاضر جوابی، تیز فہمی میں ممتاز تھا، سفاح کے عمال بھی خون ریزی میں مشّاق تھے، سفاح نے اپنے چچا داؤد کو پہلے کوفہ کی حکومت پر مامور کیا، پھر اس کو حجاز، یمن اور یمامہ کی امارت پر مامور کیا اور کوفہ پر اپنے بھتیجے عیسیٰ بن موسیٰ بن محمد کو مقرر کیا۔
جب سنہ ۱۳۳ھ میں داؤد کا انتقال ہو گیا تو سفاح نے اپنے ماموں یزید بن عبیداللہ بن عبدالمدان حارثی کو حجاز و یمامہ کی اور محمد بن یزید بن عبداللہ بن عبدالمدان کو یمن کی گورنری پر مامور کیا، سنہ ۱۳۲ھ میں سفیان بن عیینہ بلبی کو بصرہ کا عامل بنایا گیا تھا۔ سنہ ۱۳۳ھ میں اس کو معزول کر کے اس کی جگہ اپنے چچا سلیمان بن علی کو سند حکومت عطا کی اور بحرین وعمان بھی اسی کی حکومت میں شامل کر دیے۔
سنہ ۱۳۲ھ میں سفاح کا چچا اسماعیل بن علی اہواز کا، دوسرا چچا عبداللہ بن علی شام کا، ابو عون عبدالملک بن یزید مصر کا، ابو مسلم خراسانی خراسان اور جبال کا گورنر اور خالد بن برمک دیوان الخراج یعنی محکمہ مال گزاری کا افسر تھا۔
سنہ ۱۳۳ھ میں ابو مسلم نے اپنی طرف سے محمد بن اشعث کو فارس کا گورنر مقرر کر کے روانہ کیا، اسی زمانہ میں سفاح نے اپنے چچا عیسیٰ بن علی کو فارس کی سند گورنری دے کر بھیجا، محمد بن اشعث پہلے پہنچ چکا تھا، جب عیسیٰ بن علی پہنچا تو محمد بن اشعث نے اول اس کو فارس کی حکومت سپرد کرنے سے انکار کیا، پھر یہ اقرار لے کر کہ کبھی منبر پر خطبہ نہ دے گا اور جہاد کے سوا کبھی تلوار نہ اٹھائے گا، اس کو فارس کی حکومت سپرد کر دی، مگر حقیقتاً خود ہی حاکم رہا۔
جب محمد بن اشعث فوت ہو گیا تو سفاح نے اپنے چچا اسماعیل بن علی کو فارس کی حکومت پر بھیجا اور محمد بن صول کو موصل کی حکومت پر بھیجا، اہل موصل نے محمد بن صول کو نکال دیا، یہ لوگ بنو عباس سے منحرف تھے، سفاح نے ناراض ہو کر اپنے بھائی یحییٰ بن محمد بن علی کو بارہ ہزار کی جمعیت کے ساتھ روانہ کیا، یحییٰ بن محمد نے موصل پہنچ کر قصر امارت میں قیام کیا اور اہل موصل کے بارہ سربرآوردہ آدمیوں کو دھوکے سے بلا کر قتل کر دیا، اہل موصل میں اس سے سخت اشتعال پیدا ہوا اور وہ جنگ کرنے پر تیار ہو گئے، یحییٰ نے یہ حالت دیکھ کر منادی کرا دی کہ جو شخص جامع مسجد میں چلا آئے گا، اس کو امان دی جائے گی، یہ سن کر لوگ جامع مسجد کی طرف دوڑ پڑے۔
جامع مسجد کے دروازوں پر یحییٰ نے اپنے آدمیوں کو کھڑا کر رکھا تھا، جو جامع مسجد کے اندر جاتا تھا، قتل کر دیا جاتا تھا، اس طرح گیارہ ہزار آدمی قتل کیے گئے، پھر شہر میں قتل عام کیا گیا، رات ہوئی تو یحییٰ کے کان میں ان عورتوں کے رونے کی آواز آئی جن کے شوہر، باپ، بھائی اور بیٹے ظلماً قتل کر دیے گئے تھے، صبح ہوتے ہی یحییٰ نے حکم دیا کہ عورتوں اور بچوں کو بھی قتل کر دیا جائے، تین روز تک فوج کو اہل شہر کا خون مباح کر دیا گیا، اس حکم کو سنتے ہی شہر میں بڑی شدت سے قتل عام جاری ہو گیا۔
یحییٰ کے لشکر میں چار ہزار زنگی بھی تھے، زنگیوں نے عورتوں کی عصمت دری میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا، ہزارہا عورتوں کو پکڑ پکڑ کر لے گئے، چوتھے روز یحییٰ گھوڑے پر سوار ہو کر شہر کی سیر کے لیے نکلا، ایک عورت نے ہمت کر کے یحییٰ کے گھوڑے کی باگ پکڑلی اور کہا کہ کیا تم بنو ہاشم نہیں ہو؟ کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے چچا کے لڑکے نہیں ہو؟ کیا تم کو یہ خبر نہیں کہ مومنات ومسلمات سے زنگیوں نے جبراً نکاح کر لیا ہے؟
یحییٰ نے اس کا کچھ جواب نہ دیا اور چلا گیا، اگلے دن زنگیوں کو تنخواہ تقسیم کرنے کے بہانے سے بلایا، جب تمام زنگی جمع ہو گئے تو سب کو قتل کرنے کا حکم دے دیا،
سفاح کو جب ان حالات کی اطلاع ہوئی تو اس نے اسماعیل بن علی کو موصل بھیج دیا اور یحییٰ کو فارس کی حکومت پر تبدیل کر دیا۔
==================