صوبہ خیبر پختونخوا کے جنوب میں ضلع بنوں ایک اہم ترین اور خوبصورت علاقہ ہے یہ شمالی وزیرستان کے ساتھ ہی ہے لیکن بندوبستی وادی ہے۔اس شہر کو ہر دور میں ایک اہم مقام حاصل رہا مختلف فاتحین اس راستے سے گزرے ہیں۔ اس کی آب و ہوا اہم مسلم بادشاہوں نے دیکھی ہے۔بر طانوی راج میں اس شہر کو ایک اہم حیثیت حاصل تھی ۔بنوں جغرافیائی، تاریخی اور سیاسی لحاظ سے اہم مقام رکھتا ہے ضلع بنوں ایک طرف افغانستان سے اور دوسری طرف پنجاب کے صوبے سے ملا ہوا ہے۔ اس لئے ماضی میںبیرونی فاتحین کی گزر گاہ رہا۔ یہ ہندوستان تک رسائی کا سب سے مختصر راستہ تھا ۔ بیرونی فاتحین مغربی دروں سے نیچے آکر بنوں سے ہوتے ہوئے صوبہ پنجاب پھر ہندوستان کا رُخ کرتے۔ ان فاتحین کیلئے ضلع بنوں معمول کا راستہ تھا اوراکثر و بیشتر بنوں فاتحین کا نشانہ بنتا ہر فاتح اسے زیر و زبر کرتا اور اسے کافی نقصان پہنچاکر سب کچھ اپنے ساتھ لے جاتے۔ اس کے ثبوت آکرہ کے قدیم کھنڈرات ہیں۔ ضلع بنوں ماضی میں افغانستان کا ایک صوبہ ہوا کرتا تھا یہ افغانستان اور ہندوستان کے درمیان میں واقع ہے اس کا کل رقبہ۱۲۲۷ مربع کلومیڑ ہے یہاں فی مربع کلومیڑ ۶۶۶ افراد آبادی ہیں۔ موجودہ وقت ۲۰۱۶ میں اس کی اپنی کل آبادی تقریباْ ۹ لاکھ کے لگ بھگ ہے ۔جبکہ ۹ لاکھ شمالی وزیرستان کے متاثرین نے بھی یہاں خیمے گاڑھے ہیں۔ اس کا کل رقبہ کاشت تقریباً ۷۵ ہزار ہے۔ ضلع بنوں بہت ہی زرخیز اور خوبصورت، حسین اور دلکش ضلع ہے۔موجودہ دور میںدہشت گردی سے دوچار ہے اور اپریشن ضربِ غضب میں سب سے زیادہ قربانی اس علاقے نے دی ہے کیونکہ جنوبی اضلاع میںشمالی وزیرستان کے متاثرین کو پناہ دینے کے لئے کوئی بھی تیار نہیں تھا۔لیکن بنوں کے غیور اور مہمان نواز پٹھانوں نے ان کو اپنے ہی گھر دیئے اور ان کو اپنے بھائیوں کی طرح اپنے پاس رکھا۔ضلع بنوں کے لوگ واقعی بڑے دل والے، بہادر اور مہمان نواز ہیں ۔کیونکہ ایک طرف ان کے لئے ان متاثرین کی مدد کرنی تھی جبکہ دوسری طرف روزانہ خودکش د ھماکے ہوتے اور بہت سے بے گنا ہ لوگ اس دھماکوں میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔یہ سلسلہ تقریباً۱۰ سالوں سے چلتا رہا اب اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور یہاں کے باہمت لوگوں کے حوصلو ں کی وجہ سے کافی تبدیلی آئی ہے اور کافی حد تک امن و ا مان قائم ہو چکا ہے۔ضلع بنوں کے جنوب کی طرف درہ پیزو ،مغرب کی طرف شمالی وزیرستان ، مشرق کی طر ف ڈومیل اور سپینہ تنگی سے کچھ کلومیٹر کے فاصلے پرشمال مشرق کی جانب ضلع کرک واقع ہے۔ بنوں کا موجودہ جغرافیہ کچھ اس طرح سے ہے:
اس کے مشرق میں دریائے سندھ اور دریائے سندھ سے پار کالا باغ کا علاقہ ہے۔ بنوں کے شمال میں ضلع کرک جو اَب کوہاٹ ریجن کا علاقہ ہے۔اس کے علاوہ شمال مشرق کی جانب خوشحال گڑھ کا علاقہ بھی ہے۔بنوں مستطیل شکل میں ایک طویل بازار بھی رکھتا ہے یہ مشرق کی جانب نصیر آباد یعنی ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر اینڈ ٹیچنگ ہسپتال سے شروع ہوکر مغرب کی طرف ٹپی کلہ میرانشاہ روڈ پر ختم ہوتاہے جبکہ دوسری طرف پر دریائے کرم کوٹ بیلی سے نیظم بازار پر ختم ہوتا ہے تیسری سائیڈ پر گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج علاقہ کوثر فتح خیل سے ہوتا ہوا علاقہ بائیست خیل تک اور مال منڈی سے علاقہ بڈا میر عباس خان ریاض پارک تک یہ بازار پھیلا ہوا ہے۔
بنوں شہر میں مقامی آبادی کے علاوہ باہر سے آئے ہوئے لوگ بھی آباد ہیں اگر چہ بنوں صرف اولادِ شیتک کی ہے لیکن دوسرے قبائل کے لوگ بھی بنوںشہر میں آباد ہیں۔ جنہوں نے بنوں کے مخصوص ثقافتی اورجغرافیائی ماحول کے مطابق ، تہذیب و تمدن اور زبان کو کافی حد تک اپنا یا ہے۔بنوں کی مقامی آبادی کے لوگ قداور، لمبے اور صحت مند ہیں جو کہ سر پر اس علاقے کی مخصوص پوشاک کے مطابق دستار( لُنگی) باندھتے ہیں۔بنوں شہر کی تاریخی اور ثقافتی تعمیر کی علامات رکھنے والے دروازوں کے نام یہ ہیں ۔ لکی گیٹ، منڈان گیٹ، پھوڑی گیٹ،قصابان گیٹ، پریڈی گیٹ،میریان گیٹ، ہنجل گیٹ، ریلوے گیٹ، کچہری گیٹ وغیرہ۔ بنوں اور اس سے ملحقہ علاقوں کے لوگ ہمیشہ سے آزادانہ زندگی گزارنے کے قائل ہیں اس کے علاوہ یہاں کی مقامی آبادی کے لوگ بہادر،جنگجو اور آزاد پسند ہیں دینِ اسلام سے گہرا لگاؤ رکھتے ہیںانہوں نے کبھی بھی بیرونی تسلط کو تسلیم نہیں کیا ۔ سکھوں اور انگریزوں سے بر سر پیکار رہے یہاں پر وارد ہونے والی جن اقوام کی تاریخی حوالوں سے شناخت ہوتی ہے ان میں عرب، منگل، ترک اور کیوی شیتک وغیرہ ۔ آخر ی بار اولاد شیتک نے اس علاقے کو تاراج کرکے یہاں سے منگل وغیرہ کو نکال دیا اور اولاد شیتک نے یہ زمینیں آپسمیں تقسیم کردیں۔
ضلع بنوں کا زیادہ تر علاقہ سرسبز و شاداب ہے۔ ممش خیل، سورانی، لنڈیڈاک، جھنڈوخیل، ککی، غوریوالہ، داود شاہ میں شادابی کچھ زیادہ ہی پائی جاتی ہے۔ مضافات میں شہتوت، کیکر، کھجور اور امرود کے درخت بکثرت پائے جاتے ہیں۔بنوں کی خوبصورتی میں وہ کشش ہے جس نے دیگر قوموں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔آب و ہوا کے اعتبار سے بھی بنوں اہمیت کا حامل علاقہ ہے۔ اس علاقے کی آب وہوا معتدل ہے اس لئے یہاں کے لوگ صحتمند اور جسمانی لحاظ سے خوبصورت ہیں۔جب انگریزوں نے بنوں پر قبضہ کیا تو اس علاقے کی اہمیت کے پیش نظر اس سرزمین کو انہوںنے غیر معمولی اہمیت دی تاکہ یہاں کے سخت مزاج لوگوں کو اپنے تسلط میں لائیں۔ ماہرین ارضیات کے مطابق یہ علاقہ مختلف اقوام کے یہاں پہنچنے سے پہلے ایک جھیل تھا جب انگریز نے ہندوستان پر قبضہ کیا تو وہ اس حسین خطے کی طرف متوجہ ہوئیں انہوں نے یہاں کے بندوبستی علاقوں تک اپنا قبضہ جمانا شروع کردیا۔
نام کی وجہ تسمیہ اور یہاں پر گزرے لوگ
تاریخ لکھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے میرے کچھ محترموں نے بنوں کی تاریخ لکھ کر بہت اچھی کاوش کی ہے لیکن بعض جگہوں پر انہوں نے غلط تصویر کشی کی ہے۔جن محترموں نے ایسا کیا ہے انہیں خود پتہ ہے میں ان کے نام لینا نہیں چاہتا لیکن ایک بات بتاتا چلوں کہ اِنہوں نے ضلع بنوں کے لوگوں، ان کی ثقافت،اور تاریخ کے ساتھ بہت بڑی زیادتی کی ہے۔کچھ لوگوں نے بغیر تحقیق کئے بنوں کے بارے میں اخباری کالم لکھے ہیں جن میں انہوں نے غلط اندازِ تحریر اپنایا ہے اگر چہ میں خود کومؤرخ یا محقق نہیں کہتا لیکن تاریخ کے ساتھ میرا شوق ضرور ہے۔ہمارے بعض مؤرخین نے کمرے میں بیٹھ کر تحقیق کی ہے۔ کچھ کا خیا ل ہے کہ رام چندر،رستم یا پھر بانو بیگم کی وجہ سے اس علاقے کا نام بنوں پڑ گیا ہے جو کہ بالکل غلط ہے۔پہلی بات تو یہ کہ پٹھانوں میں کسی بھی قبیلے میں عورت کا نام کھلے عام لینا معیوب بلکہ پاپ سمجھا جاتا ہے یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ بانو بیگم کی وجہ سے یہ نام مشہور ہو گیا ہو ۔ رہ گئی بات رام چندر اور رستم وغیرہ کی تو یہ بھی ایک قسم کی قیاس آرائیاں ہی ہیں۔ میں خود ایسے Refrences پر یقین کرتا ہوں جس کی Proofمحض قیاس آرائی پر مبنی نہ ہو بلکہ ایک مضبوط دلیل ہو اس کے ساتھ ساتھ جو بات انسا نی دماغ تسلیم کرتا ہے تو اسے تسلیم کرنا ہی چاہیے اور اگر بطن سے بات کی گئی ہو تو کوئی بھی اس بات کو تسلیم نہیں کر سکتا۔ تاریخ کے ساتھ ہر دور میں بے انصافی ہوئی ہے۔ہمیں چاہیے کہ بغیر تحقیق کے پروپیگنڈوں سے پرہیز کریں اور تاریخ کو مسخ کرنے سے گریز کریں۔یہ بات تو ٹھیک ہے کہ بنوں کی اکثریت باسی اولاد ِ شیتک ہیں لیکن یہ بات میں دلیل کے ساتھ غلط ثابت کرونگا کہ بانوبیگم کی وجہ سے اس علاقے کا نام بنوں پڑ گیا ہے۔بنوں کا نام ڈیڑھ ہزار سال قبل بھی موجود تھا ۔اور اس علاقے کا یہی نام بنہ(بنوں)تھا ابھی بھی اکثر لوگ اس کو بنہ کہتے ہیں۔ایک چینی سیاح ہیون سانگ نے اپنے سفرنامہ میں اس کو ــ بانہ (بنوں) ہی لکھا ہے۔اولاد شیتک تو ۱۵۰۰ ء میں بنوں آئے تھے جبکہ بنوں کا نام تو ڈیڑھ ہزار سال پرانا ہے ۔آکرہ کے قدیم کھنڈرات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شہر سکندر اعظم کے دور میں بھی آباد تھا اور اس وقت بھی اسے بنہ کہتے۔ایک اور وجہ بن کا مطلب ہے جنگل ، چونکہ اس علاقے میں کافی جنگلات تھے اور جنگلات کی بہتات کی وجہ سے بھی اس کانام بنوں ہو سکتا ہے یہ بات بھی انسانی عقل تسلیم کر سکتی ہے لیکن بانو بیگم کی بات غلط ہے۔ایک اور ثبوت ۶۰۱ء میں ضلع بنوں صحابیِ رسول ﷺ بھی آ ئے تھے تو اس وقت تو بانو بیگم کا نام و نشان تک نہیں تھا اگر چہ کچھ کتابوں میں اس کو راڈھنڈ کا نام بھی دیا گیا ہے لیکن یہ نام بنوں کو اس لیے دیا گیا تھا کہ یہاں غیر مسلم ہندو بھی آباد تھے اور ہندو تو تقسیم ِ ہند سے پہلے ہر علاقے میں آباد تھے اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ اس وجہ سے یہ نام تھا!رام چندر کی بات بہت ہی من گھڑت ہے یہاں پر پانی کے ڈھنڈ ہوتے اس لئے لوگ اسے راڈھنڈ کہتے۔۶۰۱ء میں صحابی رسول ؐیہاں کیوں آتے تھے اگر یہاںپر آبادی نہ ہوتی تو وہ یہاں کیوں آتے کیونکہ وہ تو دعوت و تبلیغ کیلئے یہاں آئے تھے ۔اس کامطلب ہے کہ بنوںکا علاقہ ۱ ۶۰ء سے بھی پہلے آباد تھا۔
۴۰ ہجری کو جب حضرت علیؓ شہید ہوئے تو حضرت امیر معاویہؓ نے خلافت پر قبضہ کر کے خلافت کو ملوکیت پر ترجیح دی۔قصریٰ کی حکومت مسلمانوں کے قبضے میں تھی قصریٰ میں شامل ریاستیں عراق،افغانستان،سندھ،جنوبی سرحد(موجودہ خیبر پختونخوا) اور بلوچستان وغیرہ تھیں۔ افغانستان کو مسلمانوں نے ۴۰ہجری میں فتح کیا تھا۔امیر معاویہؓ نے تخت سنھبالتے ہی ایک صحابی ِ رسول ﷺ مہلب بن ابی صفرہؒکوحکم دیا کہ خراسان کے راستے سے جا کروہاں جو علاقے ہیں اسے فتح کرو۔ مہلب بن ابی صفراؓ سپین وام کے راستے بنوں آیاتھا۔ بنوںمیں اس وقت ترک آباد تھے۔مہلب بن ابی صفرا ؓ کی قیادت میں مسلمانوں نے جنگ کی پہلے تو ترکوںکو فتح ہوئی لیکن مسلمانوں کی پسپائی دیکھ کرمہلب بن ابی صفرہؒخواجہ عبداللہ شاہ المعروف بابا صاحبؒ کی سرزمین کے ایک پہاڑی پر چڑھ کر مسلمانوں سے مخاطب ہوگئے اور رزمیہ انداز میں مسلمانوں کو غیرت اور جوش دلا کر دشمن پر حملہ کیا اور فتح حاصل کی اس کے بعد بنوں میں جو منگل ہنی اور باقی تر ک آباد تھے ان کو پیغام بھیجا کہ تین شرائط میں سے ایک قبول کریں۔
۱:۔مسلمان ہو جاؤ ۲:۔ جزیہ دو ۳:۔ جنگ کیلئے تیا رہو جاؤ۔
بنوں میں آباد ترک اور منگل اقوام نے پہلی شرط تسلیم کرلی اور دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ اس کے بعد مہلب بن ابی صفرہؒ نے بنوں میں شیوخ(شیخان) کو یہاں کے لوگوں کیلئے دینِ اسلام کی تعلیمات دلانے کیلئے مقرر فرمایا تاکہ یہاں کے لوگ دوبارہ کفر و شرک اور سرکشی میں مبتلا نہ ہو جائیں۔ ان شیوخ کو آج ہم شیخان کے نام سے جانتے ہیں جو آج بھی ضلع بنوں کے علاقہ عیسکی میں شیخان کی بستی سے مشہور ہیں۔لفظ بنہ (بنوں)کا ذکر فتوح البلدان نامی کتاب جس کے مصنف بلازاری ہے نے فتوح السندھ کے باب میں کیا ہے۔یعنی بنوں کا نام ۶۰۱ء سے بھی پرانا ہے۔مہلب بن ابی صفرہؒکے جانے کے بعد ترک ،منگل اور شیخان تقریباً۲۰۰سال تک ایک ساتھ رہے لیکن بعد میں کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا پران کے درمیان بد ظنی پیدا ہوگئی اور شیخان منگل اور ترک سے خفا ہوئے۔اور جب ۱۵۰۰ء میں اولاد شیتک نے بنوں کا رُخ کیا تو خواجہ عبداللہ شاہ المعروف باباصاحبؒ کے نزدیک کرم گڑھی کے مقام پر پڑاؤ ڈالا(یاد رہے کہ بنوں میں جنگ کا میدان بابا صاحب اورآکرہ کی سرزمین تھی ان علاقوں میں جنگ کے میدان سجتے تھے)شیخان کو جب اولادِ شیتک کے آنے کی اطلاع ملی تو ان کے چند مشران (بزرگ) نے خود جاکر اولاد ِ شیتک سے ترک اور منگل کی شکایت کی اورترک و منگل کے خلاف اولاد شیتک کے ساتھ یکجا ہو گئے۔ اولاد ِ شیتک نے شیخان کے ساتھ ملکرتر ک و منگل پر زبردست حملہ کیا اور ان کو یہاں سے زبردستی نکال دیا ترک منگل یہاں سے پاڑا چنار ،کوہاٹ اور پشاور کے آس پاس آباد ہوگئے۔یا د رہے کہ اس وقت بھی بنوں کا نام بانہ (بنوں) ہی تھا ۔
ایڈورڈ بنوں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ میں پورے ہندوستان میں گھوما پھیرا ہوں لیکن سارے ہندوستان کے مقابلے میں بنوں میں کثرت سے بارشیں ہوتی ہیں یہاںبہت زیادہ جنگلات ہیں ۔تو ہو سکتا ہے کہ اس وجہ سے بھی اس علاقے کا نام بنوں پڑگیا ہو۔سردار شیر محمد گنڈاپور اپنی کتاب تاریخ پشتون میں کچھ اس طرح گویا ہے ۔
سلطان شہاب الدین غوری کے دور میں انگل ،منگل قوم کے لوگ پہاڑوں سے نیچے اتر کر اس علاقے میں آئے اور اس کے مالک ہوگئے۔ابھی ڈیڑھ سو سال نہ گزرے تھے کہ ان میں نا اتفاقی پیداہوئی اور خانہ جنگی پیدا ہوگئی وہ جو عشر اپنے پیر شیخ محمد روحانی کو دیا کرتے تھے وہ دینا بند کردیا۔پیر صاحب ان سے ناراض ہو گئے اور نسل شیتک کے کیوی اور سوری کو منانے کیلئے اپنے بیٹے نیک بین کوشوال بھیجا کہ قوم منگل اور انگل سے لڑ کر انہیں اس علاقے سے نکا ل دیں چنانچہ ایسا ہی ہوا اور مؤخر الذکر اس علاقے پر قابض ہوگئے۔قوم انگل ،منگل کچھ تو کوہ سفید کے جنوب میں چلی گئی اور وہاں آباد ہوئی جبکہ کچھ ہندوستان چلی گئی اور اس وقت سے آج تک شیتک کی اولاد اس علاقے پر قابض ہے اور اس وقت سے آج تک تقریباً پانچ سو سال گزر چکے ہیں۔
ان لوگوں (بنویان) نے اپنے پیر کی صلاح مشورے سے بنوں کی تقسیم اس طرح کی کہ کیوی کے بڑے بیٹے مری کی اولاد کو جنوبی حصہ دیا جو مری کہلاتاہے اور ککی کو مشرقی حد کا زیادہ آباد اور زیادہ عمدہ حصہ ملا اور کیوی کے تیسرے بیٹے کو وسطی حصہ دیاگیاسوری کو شمال میں رود کرم سے تھل تک کا حصہ دیا گیا۔سوری کے پوتے خوزک نے ہنجل اور سوکڑ کے نام کی لڑکیوں سے شادی کی اور کورم کے جنوب میںوہ جگہ جو آج داؤد شاہ، آمندی اور ممش خیل ہے اسے جہیز میں ملا۔آج بنوں کے تپہ جات کے نام یہ ہیں ،تپہ عیسکی(بازاراحمدخان تا جھنڈوخیل) تپہ بارکزئی (میریان) تپہ نورڑ ممدخیل ،تپہ ککی ، تپہ منڈان ، تپہ سورانی،تپہ ممش خیل، تپہ داود شاہ، تپہ غوریوالہ۔ (تاریخ پشتون :۔ص،ف :۵۸۳)
الغرض بنوں کا علاقہ ۱۸۲۵ء میں باقاعدہ فرنگی راج میں شامل ہوا لیکن یہاں کے لوگوںنے انگریز قوم کو کبھی بھی سکون سے نہیںرہنے دیا ۔اگر چہ بعض مفاد پرست لوگوں نے میر جعفر اور میر صاد ق کا کردار بھی ادا کیا ہے لیکن مجموعی طور پر یہاں کے لوگ اسلام پسند تھے اس لئے انگریزوں سے سخت نفر ت کرتے تھے۔کچھ لوگوں کو غداری کی بنا پر فرنگیوں نے جائیدادیں بھی عطا کی تھیں لیکن اکثر لوگوں کے پاس خود انگریزوں کے آنے سے پہلے بلکہ سکھ دور سے بھی پہلے اپنے آباواجداد کی جائیدادیں تھیں اور وہ اپنے علاقے کے معزز اور اہم ملک تھے۔ جن کا ذکر بعد میں کیا جائے گا۔۱۸۶۱ ء میں انگریز نے بنوں کو ضلع کا درجہ دیا۔ ضلع بنوں میں دو دریا بہتے ہیں ایک دریائے کرم اور دوسرا دریائے ٹوچی۔ دریائے ٹوچی ایک برساتی نالہ ہے یہ پہاڑوں میں چھ یا سات میل دور جنوب میں اس جگہ نمودار ہوتا ہے جہاں دریائے کُرم کی ابتدا ہوتی ہے جبکہ دریائے کُرم کوہ ِسفید کے جنوبی ڈھلوانوں سے نکلتا ہے۔ توری اور بنگش کے علاقوں میں سے گزرتا ہے چند میل تک کوہاٹ کی مغربی سرحد بناتے ہوئے بنوں میں داخل ہو جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔