تاریخی روایات کے مطابق سب سے پہلے فرد کا نام آدمؑ اور لقب ابو البشر تھا آدمؑ کی تخلیق کے بعد ان کاہم جنس نہ ہونے کی وجہ سے تنہائی نے آلیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے بائیں پہلو سے حواؑ کوپیدا کیا اور ان کو آسائش اور ہمدردی سے مسرور و شادمان فرمایا اور اپنی عنایت سے دونوں کو بہشت بریں پہنچایا اور وہ اس جہاں کے نصف دن تک جو اس جہان کے پانچ سو سال کے برابر ہوتاہے بہشت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے رہے اس کے بعد ابلیس نے ان کو ورغلایا اور اس خطا کی وجہ سے انھیں جنت سے نکال دیا گیا۔اس گناہ کی پاداش میں سانپ کواصفہان میں گرایا مور کو ہندوستان میں گرایا حضرت آدم ؑکو سری لنکا ،شیطان کو ملتان اور بی بی حوا ؑکو زمین کے مغربی حصہ میں اتارا۔زمین پر اتارنے کے بعد جب آدم ؑکی دعا قبول کی گئی تو آدم کی تسلی کے لیے اللہ تعالیٰ نے بیت المعمور جو سرخ یاقوت سے بنا ہوا ہے آسمان سے زمین پر بھیج دیا اور جس مقام پر خانہ کعبہ ہے اسے قائم کر دیا اور آدم ؑکو اس کے طواف پر مامور کرایا۔حضرت آدم ؑمکہ میں جبریل امین کے اشارے سے کوہ عرفات کی ایک طرف چلے اور وہاں پر بی بی حوا ؑسے مل گئے اسی سبب اس کو عرفات کی پہاڑی کہتے ہیں اس کے بعد رب تعالیٰ کے حکم کے مطابق بی بی حوا ؑاورآدم ؑسراندیپ چلے گئے اور جبریل امین نے دونوں کو عقد نکاح میں منسلک کیا اس کے بعد نسل انسانی کی افزائش شروع ہوئی ۔اسی طرح انسان بڑھتے رہے اور قوموں و قبیلو ں میں بٹتے رہے انسانوں نے غاروں سے نکلنا شروع کردیااور میدانی علاقوں کا رخ کیامختلف علاقوں کو آباد کیااور رفتہ رفتہ انسان تہذیب یافتہ ہوتے رہے اسی طرح انسانوں میں قومیں اور قبیلے بنتے رہے زبانیں بھی بدلتی رہیں رسم و رواج،تہذیب و تمدن سب کچھ بدلتا رہا ۔دنیا میں مختلف ممالک میں لوگ آباد ہوتے رہے ان لوگوں اور قبائل میں پشتون بھی ہے جو ایک تاریخی حیثیت کی حامل قوم ہے ان میں بھی دنیا کے دوسرے قوموں کی طرح مختلف قبائل ہیں جوں جوں ان کی آبادی بڑھتی گئی یہ لوگ خوراک کی تلاش میں ادھر ادھر پھرتے رہے اور پھر وہاں کے ہوکر رہ گئے دنیا میں کہیں ان کو پشتون کہیں خان صاحب کہیں پٹھان تو کہیں خان بہادر کہیں ملک کے نام سے جانے جاتے ہیں۔لیکن بحیثیت مجموعی یہ ایک ہی قوم ہے۔پشتونوں کے زیادہ تر قبائل افغانستان،پاکستان ہندوستان اورکچھ وسطی ایشیائی ممالک میں آباد ہیں۔اب سب سے پہلے پر بات کرتے ہیں کہ پشتون ہے کون؟ کس کی اولاد ہے ؟کیونکہ ہمارے بہت سے ایسے مفکرین،محققین اور مؤرخین ہیں جنہوں نے من گھڑت قصوں کا سہارا لیکر ہماری تاریخ کو گمراہ کیا اور پشتون کی جو تاریخی ،ثقافتی اور تہذیبی و مذہبی حقیقت ہے ان کو داغ دار کیا ہے تو آئیے درست سمت چلتے ہیں۔
دورحاضر کے بہت سے مفکرین گزشتہ پچاس سالوں سے لفظ آریہ سے اتنے متاثر ہیں کہ لوگ حیران رہ جاتے ہیں حتیٰ کہ انہوں نے تمام پشتونوں کو آرین بنادیا ہے لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے مجھے حیرانی اس بات سے ہے کہ پشتون کو آرین پیش کرنے میں کونسا مذہبی،ملی،سماجی و معاشرتی جذبہ کار فرما ہے؟ اگر ہمارے مفکرین و محققین جس نے پشتون کو آرین ثابت کرنے کے لیے دن رات ایک کئے ہیں علوم و فنون کے میدانوں میں یورپ کے آرین لوگوں کا مقابلہ کریں نہ کہ لغوو گمراہ کن کہانیوں سے خود کو آرین ثابت کریں۔تاریخ گواہ ہے کہ اسلام اور پشتون کے رسم و رواج میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے ہمارے محققین حضرات اس طرف بھی توجہ نہیں دیتے ۔ پشتونو ں کے بارے میں سید جما ل الدین افغانی لکھتے ہیں کہ بخت نصر نے اس قوم(پشتون) کو علاقہ بدر کیا تھا انہوں نے پہاڑیوں میں پناہ لی ۔کوئی کہتا ہے کہ یہ ضحاک کی اولاد ہیں تو کوئی کچھ اور!لیکن پشتونوں کے عادات و اطور ،رسم رواج اور رنگ و قد سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ ملک طالوت کی اولاد سے ہیں۔ جو ایک بہت ہی طاقتور شخص گزرا ہے طالوت حضرت داؤدؑ کے زمانے میں ان کے ہمعصر رہے پہلے پہل ملک طالوت کو حضرت داؤدؑسے بے پناہ بغض تھا اور ایک وقت ایسا بھی تھا کہ حضرت داؤدؑ کو شہید کرنا چاہا ۔کہتے ہیں ملک طالوت بہت ہی ظالم شخص تھا ایک دن بنی اسرائیل کے تیس ہزار اہل ایمان علماء و فضلاء کو شہید کردیا تھا ایک دن ایک عورت جو اپنے خاوند کے قبر پر رو رہی تھی اس کی حالت دیکھ کر ملک طالوت پر رحمت کے دروازے کھلے اور انہوں نے توبہ کرلی۔اس کے بعد اپنے بچوں کے ساتھ جہاد کے لیے چلے گئے اور شہید ہوگئے۔بعض روایات میں ہے کہ ایک دن حضرت شموئیل اللہ کے حکم سے قبر سے نکلے اور ملک طالوت سے فرمایا کہ تو گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا ہے تو توبہ کر اور تیری توبہ تب قبول ہوگی جب تو سلطنت حضرت داؤدؑ کے حوالے کر کے خود جہاد پر جا کر شہید ہو جائے ملک طالوت کو اس پر اثر ہوا اور ان سے کہا کہ اے خدا کے نیک بندے میں بخوشی اس کے لیے تیار ہوںچنانچہ ایسا ہی کیا اپنے دس لڑکوں کے ساتھ جہاد پر گیا اور سلطنت کی بھاگ ڈور حضرت داؤدؑکے حوالے کی۔جہاد پر جانے سے پہلے ملک طالوت کی دو بیویاں حاملہ تھیں ملک طالوت نے اپنی دونوں بیویاں حضرت داؤدؑ کے پاس چھوڑ دیں۔ملک طالوت اور ان کے بیٹے جہاد میں شہید ہوگئے اس کے بعد حضرت داؤدؑ بنی اسرائیل کے مستقل بادشاہ بن گئے اور اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤدؑ کو بادشاہت اور نبوت دونوں سے سرفراز فرمایا۔ادھر ملک طالوت کی جو دو بیویاں حاملہ تھیں ان دونوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے ایک ایک فرزند سے نوازا۔حضرت داؤدؑنے اللہ کا شکریہ ادا کیا اور ایک نام برخیا جبکہ دوسرے کا نام آرمیا رکھا۔حضرت داؤدؑنے بہت ہی بہترین انداز میں دونوں کی پرورش کی جب دونوں جوان ہوئے تو اپنی قابلیت کے بل بوتے پر حضرت داؤدؑنے برخیا کو ملکی معاملات میںاہم عہدہ دیا جبکہ آرمیا کو افواج کا سردار اعلیٰ مقرر فرمایا اس کے بعد برخیا اور آرمیا کی اولاد اتنی زیادہ ہوگئی کہ ہر طرف پھیل گئی برخیا کے فرزند کا نام آصف اور آرمیا کے بیٹے کا نام افغنہ رکھا گیا۔ لہٰذاآرمیا کے اس بیٹے افغنہ سے تمام پشتون(افغان) قبائل بڑھے۔
افغنہ کے اسرائیلی ہونے کا دوسرا ثبوت یہ ہے کہ باوجود یہ کہ گروہ سینکڑوں،ہزاروں خاندانوں پر مشتمل تھا وہ آج بھی خود کو بارہ تمنوں کے فرد کہلاتے ہیں اور بارہ تمنوں کے معنی ہے بارہ قبیلے۔ اس کے علاوہ آج بھی آپ کسی بھی پشتون کو دیکھیں ان میں لیڈر شپ کی خوبیاں ، بہادری،ظلم یا پھر رحم کے کچھ نہ کچھ آثار دیکھے جاسکتے ہیں۔ اسی طرح مذہب کے ساتھ محبت بھی پشتونوں کی رگ رگ میں رچی بسی ہوئی ہے ۔پشتونوں کے نسل کے بارے میں حسین ابن صابر ابن خضر اپنی تالیف اسرار الافاغنہ جو 1580ء میں لکھی گئی ہے لکھتے ہیں کہ افغان اپنی روایات کے مطابق ملک طالوت (بادشاہ ساول) کی باقیات میں سے ہیں جو بعض کی روایات کے مطابق یہودہ ابن یعقوبؑ کی نسل سے تھا اور بعض دیگر کی روایات کے مطابق یوسف کے بھائی بنیامین کی نسل سے تھا۔ اسی طرح مؤرخ نعمت اللہ ہروی تاریخ خان جہانی مخزن افغانی میں پشتونوں کو بنی اسرائیل لکھا ہے خوشحال خان خٹک نے اپنی کتاب دستار نامہ جو قید میں لکھی گئی تھی لکھتے ہیں کہ تمام پشتون ابراہیم ؑکے بھائی کی اولاد سے ہیںپشتونوں کو پٹھان کا خطاب سب سے پہلے سبکتگین جو غزنی کا بادشاہ تھا نے دیا تھا۔عبد اللہ خان ھراتی نے پشتونوں کو طالوت کی اولاد لکھا ہے تاریخ مرصع کے خالق افضل خان خٹک نے پشتونوں کو بنی اسرائیل لکھا ہے۔صولت افغانی میں زرداد خان ناغد نے پشتونوں کو بنی اسرائیل لکھا ہے سید عبدالجبار شاہ اپنی کتاب بنی اسرائیل یا ملت افغانہ میں پشتونوں کو بنی اسرائیل لکھتے ہیں۔ مؤلف قاضی عطااللہ پشتونوں تاریخ میں پشتونوں کو بنی اسرائیل لکھا ہے پروفیسر افضل رضا پشتو کے عالم و فاضل مولنا عبدالقادر کی کتاب پشتون کون میں یوں رقمطراز ہے پشتون شکل وصورت اور رسم وراج میں بنی اسرائیل سے زیادہ مشابہت رکھتے ہیں۔نجم الغنی رامپوری اپنی تصنیف اخبار الصنادید میں پشتونوں کے جد امجد قیس بن اسرائیل کے نام سے لکھتے ہیں۔الفسٹن ایک محقق ہیں،کہتے ہیں کہ یہ آرمیا اور برخیا کی اولاد میں سے ہیں اور افغنہ کی اولاد ہے۔ پروفیسر اقبال نسیم خٹک کہتے ہیں کہ پشتون ہمیشہ سے مذہب سے لگاو ٔرکھتے ہیں اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ بنی اسرائیل قبائل سے تعلق رکھتے ہیں۔
یہ کہ پشتون بنی اسرائیل کے متعلق کچھ اور حقائق بنی اسرائیل کے جو قبائل ہجرت کرکے گم ہوچکے ہیں ان کے بارے میں قوی دلائل ہیں کہ وہ پشتون قبائل ہیں اس کے بارے میں غلام حبیب مروت اپنی کتاب پشتون اصل نسل میں صفحہ نمبر ۲۷ تا ۲۸ پر لکھتے ہیں کہ ان مہاجرین بنی اسرائیل میں بنی پخت یعنی پشت (پشتون)قبیلے کے لوگ بھی تھے اور حضرت موسیٰ ؑکی زیارت مبارک بھی اسی علاقے میں ہے اس کی تائید میں تورات مقدس میں لحمیاء کے باب۷ آیت (۸-۱۲)اور کتاب عذرا باب۲ آیت ۶_۳۴ میں بھی ہے اس میں لکھا ہے کہ بابل(عراق) اسیررہائی کے بعد پروشلم کی طرف جانے والے قبائل میں بنی پشت کے لوگ بھی شامل تھے اور یہ یشوع اور یواب کے نسل سے تھے ان کی تعداد دو ہزار آٹھ سو سترہ تھی۔اس کے علاوہ بنی بنوی کی تعداد چھ سو اڑتالیس تھی اور یہ بھی بنی پشت سے تعلق رکھتے تھے۔اسی طرح کتاب عذرا باب ۸ آیت۴ تا ۵ کے مطابق ھخامنشی بادشاہ ارتخنشتا کے زمانے میں عذرا نبی کے ساتھ بنی اسرائیل جو پروشلم(بیت المقدس) کی دوبارہ تعمیر کے لیے گئے تھے ان میں بھی بنی پشت کے لوگ موجود تھے۔ اسی کتاب کے باب ۱۰ آیت نمبر ۱۰ تا ۱۲ میں لکھا ہے کہ عذرا نے بنی اسرائیل سے فرمایا کہ جن بنی اسرائیلیوں نے کسی غیر قوم کی عورتوں سے شادیا ں کی ہیں وہ ان کو چھوڑ دے اس باب کی آیت ۳۰ کے مطابق اس پر جن بنی اسرائیل نے عمل کیا اس میں بنی پشت مواب بنی اسرائیل عدنا، ھدل ، نبلیاء،مصیاہ،بضلی ایل،بنوی او منستی شامل تھے ۔ایک اور جگہ تورات مقدس کی لحمیاء باب ۳ آیت۷-۱۱-۲۲ میں لکھا ہے کہ جن اسرائیلوں نے یروشلم نے دوبارہ تعمیر میں حصہ لیا ان میں ملکیاہ بن حارم اور حسوب بنی پخت(پشت)مواب نے یروشلم کی دوسرے حصے تک مرمت کر ڈالی۔ان میں بنی پشت کے کچھ لوگوں نے خراسان ہجرت کی اور وہاں پر آباد ہوئے اور بعد میں یہ لوگ پخت یعنی پشت کے یہی لوگ جو اس علاقے میں آباد ہوئے پختیا ،پشتیا(پکتیا،پارتیا) یا پشتیا کے نام سے مشہور ہوئے جوبعد میں پشتیا سے پشتون ہوئے اور پشتون کے نام سے مشہور ہوئے ۔
اب اگر ہمارے محققین حضرات نام نہاد گمراہ کن کتابوں کا حوالہ دیکر پشتونوں کو آریائی یا زرتشت سے ملاتے ہیں تو یہ ان کی سنگین غلطی ہے کیونکہ تورات مقدس ایک آسمانی کتاب ہے جن میں بہت تفصیل سے یہ بنی پشت کے قبیلے کے بارے میں معلومات موجود ہیں وید اور اوستا جو ہندو مذہب کی کتب ہیں ان کے حوالے تو دیتے ہیں لیکن تورات کے حوالے نہیں دیتے ۔چونکہ وقت کی کمی ہے اورپھر موضوع بھی دوسری طرف چلاجارہاہے اس لیے مزید دلائل کی میرے خیال میں ضرورت نہیں ہے پشتونوں کو بنی اسرائیل ثابت کرنے کے لیے یہی دلائل کا فی ہیں۔
پشتونوں کی اصل نسل کے بارے میں مختلف نظریات
پشتونوں کے نسل و اصل کے بارے میں مختلف نظریات ہیں ! پشتونوں کی اصل نسل کے بارے میں ایک مشہور نظریہ یہ ہے کہ پشتون ان آریائی قبائل کی ایک شاخ ہے جوہندویورپین کے نام سے مشہور ہے۔ یہ نظریہ لفظ پشتون اور پشتو زبان کی تاریخی اور لغوی تحقیق پر مبنی ہے۔ اس نظریے کے مطابق ۱۴۰۰ ق م قیاسا یا اس سے آگے پیچھے کے زمانے میں ارغنداب کی وادی میں کو ہ سفید کے ارد گرد وادی کرم،وادی گومل،وادی کابل، وادی کونڑ، گندھارا، وادی سوات، وادی تالاش اور اباسین کے مغربی ساحل تک جو لوگ رہتے تھے و ہ نسل کے لحاظ سے آرین تھے۔ یہ لوگ مختلف قبیلوں میں تقسیم تھے جو رگ وید کی شہادتوں کے مطابق پانچ قبیلے تھے یعنی پکھیتا، سیوا، ویشانن، بھالان،الینا ! ان پانچ قبیلوں میں اہم قبیلہ پکھیتا تھا یہ قبیلے جو زبان بولتے تھے وہ بعد میں پکھیتا قبیلے کی مناسبت سے پکھتو(پشتو) کے نام سے مشہور ہوا اور ان کے رہنے کا سارا علاقہ پکتیکا (پختینا، پختونخوا) کے نام سے یاد ہوا۔ ان لوگوں کو بعد کے یونانی مؤرخوں نے اپنے لہجے کے مطابق پکتویس،پکتوان،پکتین اور پرستائے وغیرہ کے ناموں سے یاد کیا ہے اور اب ان تمام الفاظ سے مراد پشتون، پختون ہے۔
پشتونوں کے بارے میںدوسرا نظریہ یہ ہے کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ حضرت ابراہیمؑ کی نسل سے بی بی قتورہ کی اولاد ہیں اس نظریے کے مطابق پشتون نسلا بی بی قتورہ کی اولاد ہیں۔ اس نظریے کے حامی کہتے ہیں کہ بی بی سارہ کی وفات کے بعد بی بی قتورہ حضرت ابراہیمؑ کی زوجیت میں آگئیں او ر ان سے چھ بیٹے پیدا ہوئے جن کے نام یہ ہیں زمران،یستان، مدان، مدیان، اسباق،سوخ ! بی بی قتورہ کی ان چھ بیٹوں میں تورات میں صرف دو بیٹوں یستان اور مدیان کی اولاد کا تذکرہ ہے اور باقی چار بیٹوں کے صرف ناموں کا ذکر ہے۔ مدیان کی اولاد مدیانی اور یستان کی اولاد یستانی کے نام سے مشہور ہوئی۔یستان کی اولاد میںحضرت شعیب ؑ پیدا ہوئے او ر اس کے بعد یہ قوم قینی کے نام سے مشہور ہوئی۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ لوگ پشت کے علاقے میں رہائش پذیر ہوئے اس نظریے کے حامی بتاتے ہیں کہ پشت سبزوار کے خطے میں اس علاقے کا نام تھا جو بعد میں اسلامی دور میں طبرستان کے نام سے مشہور ہوا۔ اس نظریے کے مطابق اس علاقے(پشت یا پشتیا) کے رہائشی وقت گزرنے کے ساتھ پہلے پاشتین اور بعد میں پشتون، پختون کے نام سے مشہور ہوئے۔
پشتونوں کے بارے میں تیسرے نظریے کے حامی کہتے ہیں۔کہ پشتون یونانی النسل ہیں اس نظرئے کے سرگرم حامی عبدالغنی خان مرحوم ہیںجنہوں نے اپنی کتاب پٹھان میں اس نظریے کی تفصیلات بیان کی ہیں۔ان کے خیال میں پشتونوں کے نام ان کے دیہاتوں اور علاقوں کے نام ، ان کے رسم و رواج ان کے نوجوانوں اور بزرگوں کے خدوخال یونانیوں سے زیادہ مشابہت رکھتی ہے۔ اس بنا پر وہ پشتونوں کو یونانی النسل خیال کرتے ہیں (تفصیل کے لیے ان کی کتاب پٹھان دیکھی جا سکتی ہے)
پشتونوں کے بارے میں جدید نظریہ سعداللہ جان برق ؔ صاحب کا ہے اس نے سائنسی تحقیق کی بنیاد پر پشتونوں کے بارے میں بحث کی ہے۔ تفصیل کیلئے اس کی اردو کتاب پشتون اور نسلیات ہندو کش کا مطالعہ کیاجائے۔ وہ لکھتے ہیں کہ خالص خون، خالص نسل یا ایک ہی جد کی اولاد کا تصور قطعی غلط ہے کیونکہ انسان ہوں یا حیوان ہوں یا منجمد ذی حیات یعنی نباتات ہوں آپس میں خلط ملط ہوئے بغیر باقی رہ ہی نہیں سکتے اسی طرح انسان یا حیوانات کبھی کسی ایک جد کی اولاد نہیں رہے ۔آگے لکھتے ہیں پشتون بھی انسانی نسل کا حصہ ہے اور ان کو بھی ایک نسل یا صرف ایک ہی جد کی اولاد نہیں مانا جا سکتا۔ جب اس پہاڑی ہندو کش سے مختلف انسانی جتھے نکل رہے تھے تو ان سب کی کچھ نہ کچھ باقیات یہاں رہ جاتی تھیں ان کا مجموعی نام پشتون ہے جیسے ہم نسل نہیں بلکہ قوم کہیں گے۔ قوم کے لیے ضروری نہیں کہ ایک ہی جد اولاد ہو جیسے انگریز قوم، جرمن قوم، عرب، یہودی،امریکی وغیرہ۔ مطلب یہ کہ قوم کے دائرے میں مختلف عناصر کسی ایک رشتے میں منسلک ہو جاتے ہیں یہ رشتہ جغرافیائی بھی ہو سکتا ہے اور نظریاتی یا مذہبی بھی ہو سکتا ہے۔
پشتونوں کے بارے میں سب سے پہلے معروف و مشہور نظریہ بنی اسرائیلی نظریہ ہے۔ نعمت اللہ ہروی کی کتاب میں یہ نظریہ یوں بیان کیا گیا ہے۔ ملک طالوت اسرائیل کا بادشاہ تھا لیکن اپنی موت سے پہلے اس نے حکومت حضرت داود ؑکے سپرد کردی۔ ملک طالوت کی دو بیویاں حاملہ تھیں اس کی موت کے بعد دونوں کی اولادیں ہوئیں داؤدؑ نے ایک کا نام برخیا اور دوسرے کا نام ارمیا رکھا۔ برخیا کا ایک بیٹا آصف کے نام سے معروف ہوا اور ارمیا کے بیٹے کا نام افغنہ رکھا گیا داود کے بعد حضرت سلیمان ؑ کے دور حکومت میں آصف اور افغنہ سارے امور مملکت کے نگران بنائے گئے پھر افغنہ کی اولاد اتنی بڑھ گئی کہ گنتی سے نکل گئی اور افغان اس افغنہ کی اولاد ہیں۔ ملک قیس عبدا لرشید جو پشتونوں کا جد امجد ما نا جاتا ہے اسی افغان کی اولاد میں سے ہیں۔
(تاریخ خورشید جہاں)