ضلع بنوں صوبہ خیبر پختونخوا کا وہ پسماندہ اور بد نصیب ضلع ہے جس کے بنیادی مسائل جوں کے توں پڑے ہیں اگر چہ بعض مسائل اللہ کے فضل و کرم سے سابق وزیر اعلیٰ اکرم خان درانی اور کچھ دوسرے سیاسی رہنماؤں نے حل کئے ہیں لیکن زیادہ تر مسائل ابھی تک اٹکے ہوئے ہیں۔ اور کسی مسیحا کے منتظر ہیں۔
9/11 کے حادثے کے بعد سب سے زیادہ ضلع بنوں متاثر رہا کیونکہ یہ علاقہ افغانستان کا سب سے قریبی علاقہ ہے۔ امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیاتو ضلع بنوں کے لوگوں نے متاثرین کو پنا ہ دی۔امریکہ نے اپنی دوغلی پالیسی اور ظالمانہ کاروائیاںکرتے ہوئے افغانستان کے ساتھ ساتھ آس پاس کے علاقوں کو بھی شدیدمتاثر کیا۔ ہماری فوج، ہمارے مساجد،ہماری عبادت گاہیں، ہماری درسگاہیں،ہمارے ہسپتال ا ور ہمارے بچوں کو نشانہ بنایا گیاہے ڈرون حملوں نے لاکھوں بے گناہوں کو شہید اور لاکھوں بچوں کو یتیم کردیا ہے۔2003 سے 2015 تک سب سے زیادہ خود کش حملے پشاور اور بنوں میں ہو چکے ہیں جن میں قیمتی اور بے گناہ جانیں ضائع ہو چکی ہیں ایک وقت تو اتنا خوف تھا کہ ہر چوتھے اور تیسرے روز بعد دھماکے ہوتے تھے۔لوگ بازاروں میں چیزیں خریدتے تو پاگلوں کی طرح ادھر ادھر دیکھتے کہ کہیں دھماکہ نہ ہو جائے موجودہ دور میں اگر اپریشن ضرب غضب کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کو شدید مصائب کا سامنا کر نا پڑا تو دوسری طرف علاقے میں امن و امان بھی قائم ہو چکا ہے۔شمالی وزیرستا ن کے تمام مکینوں کو بنوں کے لوگوں نے رہائش دی ان کو گھر دیئے کھانے پینے کی چیزیں دیں۔ان کو اپنے بھائیوں کی طرح رکھا۔اب مستقبل یہ بتائے گا کہ خدا نخواستہ اگر بنویان(بنوسیان) پر ایسا برا وقت آیا تو شمالی وزیر ستان کے لوگ بھی اپنی پشتون روایات کی پاسداری کریںگے یا ۔۔۔؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔