موجودہ وقت میں ضلع بنوں کی بعض سڑکیں ٹیکسلا کے کھنڈرات سے کم نہیں علاقائی سڑکیں تو مکمل طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔میریان روڈ تو بالکل ختم ہو چکی ہے صرف کچہ راستہ ہے جس پر آمدورفت ہوتی ہے بارشوں میں سخت تکلیف کا سامنا کر نا پڑتا ہے۔اس کے علاوہ علاقائی سڑکیں جس کی مرمت انتہائی ضروری ہے ان میں میراخیل کی سڑک، اسمعٰیل خیل کی سڑک،مندیو،بازارا حمد خان کی سڑک، جھنڈوخیل سڑک شامل ہیں۔ ضلع بنوں میں بہت سے بس، کار ،تانگے اور فلائینگ کوچز کے اڈے بھی ہیں جہاں سے مسافر ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہیں ان میں منڈان اڈا، میریان اڈا، میراخیل اڈا، داؤد شاہ اڈا، ممش خیل اڈہ، اسمٰعیل خیل اڈہ، جھنڈوخیل اڈا، سورانی اڈہ،ڈومیل اڈہ، بکاخیل اڈہ اور نورنگ اڈہ کافی مشہور ہیں۔اس کے علاوہ نیوجنرل بس سٹینڈ(نیو اڈہ) جس سے دوسرے صوبوں کو گاڑیا ں جاتی ہیں بھی اہم ہے۔
مشہور تعلیمی ادارے
ضلع بنوں کے لوگ ا ب اللہ کے فضل سے تعلیم کی طرف راغب ہیں۔ ماضی میں تعلیمی اداروں کی بے پناہ کمی تھی لیکن سابق وزیر اعلیٰ اکرم خان درانی اورکچھ دوسری حکومتوں نے اس طرف توجہ دیکر بنوں کے لوگوں کو تعلیم کی طرف متوجہ کیا۔ماضی میں بنوں میں صرف ایک کالج تھا۔ لیکن اب بنوں میں تقریباً ۱۰ کالجز اور درجنوں ہائر سیکنڈری سکولز ہیں ۔ اس کے علاوہ ایک یونیورسٹی بھی قائم ہے جس سے لاکھوں نوجوان فارغ التحصیل ہو کر ملک و قوم کی خدمت کر رہے ہیں۔ایک میڈیکل کالج،ایک اکرم خان درانی سکول اینڈ کالج جو کیڈیٹ کالج طرز کا ایک تعلیمی ادارہ ہے۔ انجینئر نگ یونیورسٹی کا ایک کیمپس بھی بنوں میں موجود ہے۔کامرس کالجز اور ٹیکنیکل کالجز بھی ہیں۔ البتہ بعض علاقوں میں تعلیمی اداروں کی شدید کمی ہے جس کی وجہ سے ان علاقوں کے لوگوں کو آمدورفت میں دقت پیش آتی ہے۔ حکومت وقت کو چاہیے کہ ان علاقوں میں کالجز قائم کریں تاکہ ان علاقوں کے لوگوں کے بچے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکیں۔ ان علاقوں میں نورڑ،سرہ درگہ، جھنڈوخیل،منڈان،میراخیل اور اسمعیٰل خیل کے علاقے شامل ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مشہور لائبریریاں
ماضی میں ضلع بنوں میں صرف ایک لائبریری تھی میونسپل کمیٹی بنوں کی لائبریری لیکن وہاں پر جگہ بہت کم تھی۔اب ایک خوبصورت لائبریری آڈیٹوریم پارک بنوں میں بنائی گئی ہے جس سے لاکھوںلوگ مستفید ہوتے ہیں اس کے علاوہ یونیورسٹی اور کالجز میں بھی لائبریریاں قائم ہیں جس میں بیش قیمت کتب موجو د ہیں۔نیشنل بک فاؤنڈیشن آف پاکستان کی ایک شاخ بھی بنوں پریس کلب کے ساتھ قائم تھی لیکن لوگوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے یہ شاپ یہاں سے منتقل ہوگئی۔
٭٭٭
گیس و بجلی
ضلع بنوں ایک ایسا علاقہ ہے جس کی زمین انتہائی زرخیز ہے۔ سبزیاں اور ترکاریاں اس علاقے میں بہت زیادہ پیدا ہوتی ہیں یہاں پر کرم گڑھی کے مقام پر ایک ڈیم بھی تعمیر کیا گیا ہے جس سے بنوں اور لکی مروت کی کچھ اراضی سیراب ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اس سے کافی بجلی بھی پیدا کی جاتی ہے لیکن افسوس صد افسوس کہ زمیں تو بنوں کی ہے لیکن اس کی زیادہ تر بجلی ڈیرہ اسمعیٰل خان کے لوگ استعمال کرتے ہیں جوسراسر ناانصافی ہے۔حالانکہ بنوں میں بجلی کی جو حالت ہے وہ سب کے سامنے ہے ۔ایک اندازے کے مطابق بنوں ڈیم سے اتنی بجلی پیدا ہوتی ہے جو سارے بنوں کیلئے کافی ہے لیکن اس کا استعمال کوئی اور کر رہا ہے اور ہم چپ بیٹھے ہیں۔اس کے علاوہ علی شوہ بابا ؒکے مقام پر اتنی گیس ہے کہ تمام جنوبی اضلاع کیلئے کافی ہے لیکن ان پر کام کرنے کی بجائے اس ایشو کو دفنایا جاتا ہے اور ٹال مٹول سے کام لیا جاتا ہے ۔
ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ اس طر ف توجہ دے اگر وہ توجہ نہ دیں تو اللہ تعالیٰ یہ مبارک کام کسی اور سے لے گا اور کسی اور کو اِس کام کیلئے پیدا کرے گا۔خدا را! بنوں کے تمام سیاسی قائدین سے میری گزارش ہے کہ بنوں کی ترقی کیلئے اپنا اپنا کردار ادا کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔