جنوری ۱۹۶۸ ء کو وزیروں نے بنوں شوگر مل ممش خیل پر بے خبری میں چڑھائی کی جس کے نتیجے میں امیر نواز خان مروت،غنی الرحمن اور محمد صدیق خان مروت کلرک شوگر مل اور صدیق کو شدت کا نشانہ بنایا امیر نواز مروت تو موقع پر ہی شہید ہوگئے جبکہ غنی الرحمن اور محمد صدیق مروت کو اغوا کیا۔ اس واقعہ نے ایک بار پھر بنویان کو یکجا کرنے پرمجبور کر دیا۔ اور ۲۱ جنوری ۱۹۶۸ء کو ایک عظیم الشان جلسے کا انعقاد کیا۔ جس میں ضلع بنوں کے ہر قبیلے کی اہم شخصیات نے پورے جوش و خروش سے شرکت کی اس تاریخی جلسے میں بنویان ملکان نے یہ فیصلہ کیا کہ جو مروت ہمارے بنوں میں روزگار کے سلسلے میں آئے تھے وہ ہمارے مہمان تھے اس لئے ان حفاظت کی ذمہ داری بحیثیت پشتون ہم بنویان پر فرض ہے اور ہم بحیثیت پشتون اس کا بدلہ ضرور لیں گے۔ یہ جلسہ ہلدی منڈی دو سڑک ممش خیل کے قریب منعقد ہوا تھا۔ اس جلسے میں ملک خانزادہ خان آف سورانی، سالار محمد یعقوب خان،پیر سخی زمان(میریان)، عمر جان ،دلاباز خان، مولوی عبدالطیف بنوں سٹی، نعمت اللہ مروت، نواب شیر افضل خان مروت، مولوی نصف جان، حق داد خان منڈان، ملک دراز خان آف عبیدخیل(جھنڈوخیل) ملک حمیداللہ خان منڈان، امیر خان آف مغل خیل، محمد اسلم خان، ملک اکبر علی خان ، عمر جان ککی، محمد خان ککی، ولی خان بارکزائی، رحم داد خان میرا خیل، دلاباز خان داؤد شاہ، اے ۔ڈی ربنواز خان ممش خیل،ملک بہادر خان بوزید خیل،ملک رضا خان ممہ خیل،امیرداد خان عیسکی،منور خان ایڈووکیٹ، عبدالرحمن شاہ نار شیر مست وغیرہ وغیرہ نے حصہ لیا بنوں کے اس عظیم جلسے میں فیصلہ کیا گیا کہ وزیرقوم کے افراد کو پکڑ کر نظر بند کیا جائے سب نے اس بات پر اتفاق کیا اور بنویان نے وزیروں کے تقریباً ۵۰ آدمیوں کو نظر بند کیا بات لڑائی تک جا پہنچی اور بالآخر بنویان اور وزیروں کے درمیان ایک خونریز جنگ ہوئی۔ جس میں دونوں اطراف سے زبر دست جانی و مالی نقصان ہوا۔ اس جنگ کی مصلحت میں محسود قبائل نے بہت اہم کردار ادا کیاتھا۔اس جنگ میںبنویان کے تمام قبائل نے زبردست اتحادواتفاق کامظاہرہ کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔