پشتون معاشرہ ایک قدامت پرست اور روایت پسند معاشرہ ہے یہاں پر خاندانی رسم و راوج اور علاقائی روایات کی سختی سے پابندی کی جاتی ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ یہاں پر رسم و رواج پر شریعت سے زیادہ عمل ہوتا ہے۔ اور عام طور پر اسی کو ترجیح دی جاتی ہے۔کیرو کے خیال میں پٹھان معاشرے میں قانون کو رسم و رواج سے اور رسم و رواج کو قانون سے کس طرح اور کس کس موقع پر کس حد تک برتر سمجھا جائے یہ ہم حل نہیں کر سکے۔ جزوی وجہ اس حقیقت میں یہ مضمر ہے کہ مسلمان پشتون کو بر صغیر کے مسلمانوں سے جلد اپنی قربت داری کا احساس ہوا اور انگریزوں کے پوچھنے پر اصرار کرتے تھے کہ کوئی رواج شیواج نہیں ہے۔ صرف عالمگیراسلام کا ضابطۂ حیات ہے۔شلوار ،قمیص اور دستار پگڑی بنویان کی شان ہیں۔عورتیں گھروں میں لمبے لباس اور شال استعمال کرتی ہیں۔ بنوں میں کوئی ہندوپگڑی یادستارسرپر نہیں باندھ سکتاتھایہ صرف پختونوں کاحق اوراجارہ داری تھی اسی طرح شادی بیاہ کرنے سے پہلے ملک سے اجازت طلب کرنا پڑتا تھا جیساکہ تھاربرن اپنی کتاب Bannu or our Afhan Frontierکے صفحہ نمبر ۳۷ پرلکھتے ہیں کہ:
I was enamped in the surrani tappahs two half-buried human bodies were discovered, whose wounds bore evidence to the violence of their death.I was afraid whey were some of my own men,and instant inquiry was made in xamp; when some Bannuchis came forward to explain that they were,only two Hindus,who had gone out without a guard to collect some debts!, No Hindoo in Bannu was permitted to wear a turban That being too sacred a symbol of Muhammadanism:& a small cotton skul-cap was all that they had to protect their brains from the keen Bannu sun.When they came into our camp,they made a holiday of it,brought a turban in their pockets and put it on with childish delight when they got inside the lines.If any Hindoo wished to celebrate a marriage in his family he went to his Malik(pashtun) for a licence as regularly.
_______________________________________
شادی بیاہ
منگنی،شادی بیاہ اور حق مہر کے سلسلے میں بھی یہاں کے لوگوں کاالگ روایت ہے۔ شادی بیاہ بڑوںکی رضا مندی سے ہوتی ہے۔ لڑکے اور بالخصوص لڑکی کی پسند کو یہاں پر بڑا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ منگنی میں یہاں کے لوگ دلہن کے گھر میں اپنے کچھ لوگوں کے ساتھ بمعہ علاقے کے مولوی جاتے ہیں اور اپنے ساتھ مٹھائی وغیرہ بھی لے جاتے ہیں ۔وہاں پر مولوی صاحب خطبہ دیکر دونوں خاندانوں کے درمیان رشتہ پکاکرلیتے ہیں دولہا کے گھرو الے علاقے کے مولوی ،حجام ،پکوان اور خبر دینے والے (کیٹ وول ) کو کچھ رقم خوشی کے طور پر دیتے ہیں اور وہاں پر موجود سب لوگوں میں مٹھائی تقسیم کی جاتی ہے۔شادی کے موقع پر دولہا کے گھر سے شام کے وقت کاروں اور فلائنگ کوچوں کے ذریعے گاؤں کے لوگ اور دولہا کے عزیز و اقارب اور رشتہ دار سب دلہن کے گھر جاتے ہیں(یادرہے کہ دولہابارات کے ساتھ نہیں جاتا) اور راستے میں جگہ جگہ ہوائی فائرنگ کرتے ہوئے وہاں پہنچ جاتے ہیں وہاں کھانا کھانے کے بعد دلہن کو ایک کار میں دلہا کے گھر کی عورتیں بٹھاتی ہیں اور پھر دلہا کے گھر آجاتے ہیں جب دلہن کو گھر لایا جاتا ہے تو سب لوگ خوشی منانے کیلئے رات گئے تک فائرنگ کرتے رہتے ہیں۔پھر صبح جانوروں کو ذبح کیا جاتا ہے اور مہمانوں ،رشتہ داروں،دوستوں اور سب گاؤں والوں کی خاطر مدارت کی جاتی ہے ۔شام کے وقت تمام نوجوان ڈھول کی تھاپ پر بنوں چوک بازار جاتے ہیں وہاں خوب موج مستی کرتے ہیں بنوں چو ک بازار میں بہت زیادہ رش ہوتا ہے بنوں کے تمام نوجوان علاقائی رقص کرتے ہیں کیونکہ بنوں کے ہر علاقے میں کہیں نہ کہیں تو شادی ہوتی ہے اس لئے سب لوگ یہاں پرا ٓتے ہیں ۔ایک خوشی کا سماں ہوتا ہے اور پھر رات گئے یہ نوجوان اپنے اپنے علاقے کا رخ کرتے ہیں بعد میں گاؤں پہنچ کر دلہے کونوٹوں کے ہار پہناتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچے کی پیدائش
اسلام بتاتا ہے کہ جب کسی کو اللہ تعالیٰ اولاد جیسی نعمت سے نوازے تو نہلانے دھلانے کے بعد بچے کے دائیں کان میں سب سے پہلے اذان دینی چاہیے تا کہ بچے کو اطمینان ہو جائے کہ وہ مسلمان کے گھر میں پیدا ہوا ہے لیکن ہمارے ہاں بچے کی پیدائش کے بعد خوب جشن منایا جاتا ہے ۔بچہ پیدا ہوتے ہی لوگ ہتھیار اٹھالیتے ہیں اور خو ب فائر نگ کرتے ہیں اسی طرح نومولود کے کان میں سب سے پہلے گولیوں کی فائرنگ کی آواز آجاتی ہے ۔یہ عمل آنے والے بچے کیلئے بہادری اور دلیری کا پہلا سبق ہوتا ہے جو اسے دیا جاتا ہے۔اس کے بعد کا ن میں اذان دی جاتی ہے۔بچے کی پیدائش کے بعد لوگ مٹھائی تقسیم کرتے ہیں جب بچہ چالیس دن کا ہو جاتا ہے تو گھر والے چنے اور گندم اکٹھا کر کے پکاتے ہیں اور پھر سارے گاؤں میں تقسیم کرتے ہیں۔علاقے کی عورتیں بچے کو دیکھنے کیلئے آتی ہے لیکن دیکھنے سے پہلے ہر عورت توفیق کے مطابق بچے پر کچھ رقم رکھ دیتی ہے اور بچے کیلئے کپڑے،صابن، اور دوسری چیزیں لا دیتے ہیں۔ایک بات ہے کہ بچے کی پیدائش پر جو فائرنگ کی جاتی ہے وہ ایک غیر اسلامی اور غیر قانونی فعل ہے جن سے کئی بے گناہوں کی جانیں چلی جاتی ہیں۔لہٰذا یہ فعل ترک کرنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھیلیں
ضلع بنوں کا علاقہ کھیلوں کے لحاظ سے نہایت مرد م خیز ہے کھیلوں کے میدان میں یہاں کے سپوتوں نے قوم و ملک کا نام روشن کیا ہے۔قاضی محب اسی سرزمین سے تعلق رکھتے ہیں پاکستان ہاکی ٹیم کے فل بیک احسان اللہ خان اور پاکستان والی بال ٹیم کے سپوت مراد جہان بھی اسی سرزمین کے باسی ہیں۔پاکستان جونیئر ہاکی ٹیم ،ولی بال ٹیم ،فٹبال ٹیم اور کرکٹ میں ضلع بنوں کے بہت سے کھلاڑی ہیں ۔
ماضی میںبنوں کا اہم کھیل اینڈا تھا لیکن اب یہ کھیل تو ختم ہو چکا ہے البتہ کبڈی اب بھی بدستور جاری ہے اور بنوں کے تما م علاقوں میں کبڈی لوگ نہایت شوق سے کھیلتے اوردیکھتے ہیں اگر یہ کہا جائے کہ کبڈی سب سے اہم علاقائی کھیل ہے تو بے جا نہ ہوگا۔منڈان پارک بنوں میں ہر سال کبڈی ٹورنمنٹ ہوتا ہے جس میں وطن عزیز کے پانچوں صوبوں کی ٹیمیں حصہ لیتی ہیں۔بچیاں اسٹاپو کھیلتی ہیں۔
٭٭٭
نیک خو اورنرم دل
مذکورہ تمام باتوں کے باوجود ضلع بنوں کے لوگ انتہائی نیک خو بھی ہیں۔یہاں پر اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنا ایک خوبی سمجھی جاتی ہے یہاں کے لوگ نماز،روزہ،جہاد اور تمام ارکان اسلام سے بہت محبت رکھتے ہیں۔جامعہ معراج العلوم اندرون لکی گیٹ یہاںکی سب سے بڑی دینی درسگا ہ ہے جس سے ہر سال سینکڑوں حفاظ کرام اور علماء کرام فارغ ہو کر دین اسلام کی خدمت کرتے ہیں ۔جب سوویت یونین نے افغانستان پر یلغار کی تو یہاں کے لوگوں نے جہاد افغانستان میں بھر پور حصہ لیا۔علماء کرام اور نیک لوگوں کی یہاں پر بہت زیادہ عزت کی جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔