مروت اور داوڑ قبائل کے لوگ کہتے ہیں کہ بنوسئی ڈیر ظالیمون دی یعنی بنوسیان بہت ظالم ہیں۔یہ اس لیے کہتے ہیں کہ ماضی میں بنوسیان کسی بھی غریب پر کوئی ظلم نہیں کرتے بلکہ ان کی مدد کرتے۔ طاقتور اور اہل لوگوں کونیچا دکھاتے لیکن اب یہ روایت بدل گئی ہے ۔ہر کوئی غریب لوگوں کو اپنے ظلم کا نشانہ بناتاہے۔جن کی جائیداد زیادہ ہوتی ہے اگر ان کی افرادی قوت کمزور ہو تو ان کی جائیداد پر طاقت کے ذریعے لوگ قبضہ کرتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا ہی نہیںہوتا ۔مجبوراً لوگ عدالتوں کا رخ کرتے ہیں یا پھر ثالثان ان کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے رہتے ہیں۔عدالتوں میں بھی اتنے سال گزر جاتے ہیںکہ اپنا حق مانگتے مانگتے آدمی مر جاتا ہے لیکن فیصلہ نہیں آتا ۔کچھ طاقتور لوگ تو ججز صاحبان کے گھروں کا سلام کرکے غلط فیصلے کرانے کے بھی ماہر ہوتے ہیں جن میں کچھ کو کامیابی بھی مل جاتی ہے جبکہ کچھ ذلیل ہوکر وہاں سے رخصت کئے جاتے ہیں۔قبضہ مافیا کا راج ہے کوئی کسی کا مدد گار نہیں۔ضلعی انتظامیہ بھی بے بس ہے کچھ بھی نہیں کرسکتی اس لحاظ سے بنوں میں سرکاری قانون مکمل طور پر مفلوج ہے۔اس بات کو میںمکمل دلیل کے ساتھ ثابت کرسکتا ہوں۔خود میرے ساتھ پچھلے ۲۰ سالوں سے یہی ہوتا رہا ہے ۔مخالف فریق کبھی سیاسی اپروچ کا استعمال کرتا اور کبھی افرادی قوت کے ذریعے ہماری آواز کو دبانے کی کوشش کرتا ہے۔اسی طرح ایک اور کیس میں میرے والدمحترم کو اپنے بھائی نے مردہ لکھ کر جائیداد فروخت کی ہے۔حالانکہ میرے والد محترم ابھی پچھلے سال 2017 میں انتقال کر گئے ہیں۔سول کورٹ میں 2013 سے کیس چل رہا ہے اب زندہ انسان کو مردہ لکھ کر اس کی جائیداد فروخت کی جاتی ہے لیکن عدالت ابھی تک فیصلہ کرنے سے قاصر ہے حیران ہو کہ یہ ملک چلتا کیسے ہے ؟ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون نافذ ہے۔ایسالگتا ہے کہ قبضہ مافیا قانون سے زیادہ طاقت ور اور مضبوط ہے۔ اسی طرح غنڈہ ٹیکس کا رواج بھی آج کل عام ہے۔عموما ًراستوں پر یہ ٹیکس لیا جاتا ہے لیکن حکومت ِ وقت وقتی طور پر غنڈے کو گرفتا ر کرتا ہے پھر اسے چھوڑ کر کھلی چھٹی دیتا ہے کہ کرو بھائی جو جی میں آئے حکومت ویسی بھی سوئی ہوئی ہے۔یہی وجہ کہ یہ لوگ عادی ہوچکے ہیں اسے پتہ ہے کہ صرف ایک دن حوالات میں بندکرنے سے کچھ نہیںہوتا ۔قانون تو یہاں ہے ہی نہیں حکومت ِ وقت کو چاہئے کہ یہ اختیار پاک فوج کو دے دیں کہ ایسے لوگوں کو اپنی تفویض میں لیکر ان کا قبلہ درست کرے اس طرح یہ لوگ ہو سکتا ہے کہ قانون کے شکنجے اورڈر کی وجہ سے ٹھیک ہوجائے۔ورنہ غنڈہ ٹیکس کا یہ سلسلہ چلتا رہے گا اور ملک میں بدامنی چلتی رہے گی۔بہت سے علاقوں میں اس وجہ سے قتل و مقاتلہ بھی ہو چکے ہیں لیکن کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا ۔پولیس مسئلے کو حل کرانے میں مکمل طور پرناکام ہے۔کیونکہ پولیس والے تو پیسوں کی پجاری ہیں اسے کسی کی عزت کا کیا خیال۔اس بارے میں بھی کئی اخبارات اور رسائل میں لوگوں نے حکومت وقت سے فریاد کی ہے لیکن تاحال ہوئی شنوائی نہیں ہوئی۔بنوں میں اکثر پراپرٹی بارگینز کے ملکان بھی اس کھیل میں برابر کے شریک ہیں غریب لوگوں کے جائیداد میں ٹانگ اڑا کر وہی جائیداد کم قیمت پر فروخت کراتے ہیں۔اور اس میں غنڈہ ٹیکس وصول کرکے اپنے بچوں کے پیٹ پالتے ہیں۔ویسے بھی بنوں کی پراپرٹی اسلام آباد سے زیادہ قیمتی ہے۔بنوں شہر میں تو ایک مرلہ اراضی کی قیمت1کروڑ کے لگ بھگ ہے۔شہر کے علاوہ دیہات میںبھی یہ مرض بڑھتا ہی جا رہا ہے اس کا تدارک بھی انتہائی ضروری ہے۔بنوں میں پراپرٹی کاکاروبار بھی عروج پر ہے بہت سے پراپرٹی بارگینز حکومت سے رجسٹرڈ نہیں ہیںبغیر رجسٹرڈ بارگینز کھول کر عوام کو دونوں ہاتھوں سے لٹا جا رہاہے۔گاؤں میں بارگینز نہیں بلکہ وہاںپر برسرعام غنڈہ ٹیکس وصول کیے جاتے ہیں جو پراپرٹی لیتا ہے ان سے بھی گاؤں کے کچھ مخصوص لوگ غنڈہ ٹیکس وصول کرتے ہیں اورجو خریدتا ہے ان سے بھی لیتے ہیں۔اگر اس طرف خصوصی توجہ نہ دی گئی تو یہ مرض بڑھتا ہی جائے گا بعد میں اس کا تدارک کرنا مشکل ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔