میرے اندازے کے مطابق بنوسیان کا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے۔کیونکہ بنوسیان لگے ہوئے ہیں اپنی پراپرٹی فروخت کر رہے ہیں اور وزیر ،خٹک و محسود یہ پراپرٹی خرید کر بنوں میں اپنا مقام بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔اکثر بنوسیان پشاور،اسلام آباد کارخ کرتے ہیں اور وہاں رہائش پذیر ہوتے ہیں۔میری ایک تمنا ہے کہ ا ے بنوسیانو سنوبیشک اسلام آباد اور پشاور میں پراپرٹی خریدو لیکن بنوں کی پراپرٹی فروخت نہ کرو اپنی شناخت خو د اپنے ہاتھوں سے نہ مٹاو ورنہ مٹ جاو ٔگے۔اپنی قومیت کو برقرار رکھنے کے لیے بنوں میں آپ کی اراضیات آپ کی پہچان ہے بنوں آپ کی پہچان ہے اگر بنوں نہ رہے تو آپ کی پہچان بھی نہیں رہے گی۔بچوں کو بہتر مستقبل دینا ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے یہ ایک اچھی بات ہے لیکن بنوں میں پراپرٹی فروخت کرکے کسی دوسرے ضلع میں چلے جانا ٹھیک نہیں ہے۔اس سے ہماری قومیت مٹ جائے گی۔
بنوں کے بازار میں سب سے زیادہ پراپرٹی بنوسیان کی تھی لیکن اب سب سے زیادہ وزیر اور خٹک کی ہے ۔میں کسی کا مخالف نہیں ہو ںسب میرے بھائی ہیں لیکن بنوسیان سے مری گزارش ہے کہ جو ہوا وہ ہوا اور کرنے سے گریز کیا جائے۔کیونکہ ایک تو بنوں ہماری شناخت ہے اور دوسری بات اگر سی ۔پیک کا منصوبہ مکمل ہوا تو ملک کے دوسرے حصوں سے بنوں کی طرف لوگ آئیں گے۔یہ وہ خطہ ہوگا جس میں تجارت ہوگی ایک اہم تجارتی مرکز ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنوں میں دعوت و ِ تبلیغ کا کام
ساری دنیا میں سب سے زیادہ دین ضلع بنوںمیں ہے یہاں کے لوگ دینِ اسلام کے شیدائی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ یہاں پر دین ِ اسلام کی تعلیمات کے مطابق زندگیاں بسر کی جاتی ہیں۔یہ بھی ایک ریکارڈ ہے کہ ساری دنیا میں سب سے زیادہ دعوت و ِ تبلیغ کے دوست احباب ضلع بنوں میں ہیں۔تقریبا ًیہاںکی۷۰ فیصد آبادی تبلیغ کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔بنوں میںاس وقت دو تبلیغی مراکز ہیںایک بلال مرکز جو فاطمہ خیل کلاں کے ساتھ واقع ہے جبکہ دوسرا مرکز (حمزہ مسجد) بکا خیل میں آزاد منڈی کے ساتھ واقع ہے یادرہے کہ یہ پاکستان کا تیسرا سب سے بڑا تبلیغی مرکز ہے۔ روٹین کے مطابق یہاں پر سالانہ تبلیغی اجتماعات ہوتے رہتے ہیں جن سے ہزاروں ،سال، چار چلوں اور چلوں کی جماعتیں تیار ہوتی ہے۔شپَ جمعہ یعنی جمعہ کی رات تو تقریباً ۸۰ فیصد نوجوان تبلیغی مرکز جاتے ہیں وہاں پر عبادات کرنے اور دینی بیانات سننے میں گزارتے ہیں۔ صبح پھر بہت سے لوگ سہ روزہ اور ہفت روزہ کے لیے نکلتے ہیں اور بنوں کے مختلف علاقوں میں ان کی تشکیل کی جاتی ہے۔بنوں کو اگر دعوت ِ تبلیغ کا منبع کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ نماز، روزہ، حج، زکواۃ،جہاداور علم سے بے پناہ محبت کرنے والے بنوں کے لوگ اسلامی اقدار کی مکمل پابندی کرتے ہیں۔تبلیغ کی وجہ سے یہاں پر ایسا پردہ کیا جاتا ہے جن کی مثال مشکل سے نظر آتی ہے۔یہ سب کچھ دعوت تبلیغ کی برکت ہے۔تبلیغی اجتماعات میں اکثر بڑے بڑے علماء اور تبلیغی مبلغین حضرات اپنے دینی بیانات سے لوگوں کے ایمانی قوت کو گرماتے رہتے ہیں۔تبلیغی حضرات کو یہاں کے لوگ بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ان کو اپنے ناموں سے نہیں پکارتے ۔امیر صاحب کہہ کرپکارتے ہیں۔جس علاقے میں تبلیغی حضرات آتے ہیں وہاں کے لوگ ان کااکرام کرتے ہیں ان کے لیے کھانے پینے کا مکمل انتظام کرنا اپنے اوپر فرضِ عین سمجھتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔