یہاں پر جب کسی کی منگنی ہوتی ہے تواکثر خاندانی مسائل کی وجہ سے یہاں کے لوگ ایک یا دو سال بعد شادی کراتے ہیں۔منگنی کے بعد سے عید کے موقع پر سسرال والے کپڑے، سینڈل،مہندی اور دوسری چیزیں لیکر دلہن کے گھر جاتے ہیں کبھی کبھی تو یہ رسم مکمل شادی کی طرح ہوتی ہے کیونکہ سسرال والے بے جا تصرف سے کام لیکر سارے گاؤں کے لوگوں کو دلہن کے گھر لے جاتے ہیں جس کی وجہ سے دلہن کے گھر والوں کو بھی تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے اور اسے بھی بہت مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے اب اگر وہ چاہے یا نہ چاہے سسرال والے سینکڑوں لوگ لے کر آتے ہیں ۔جب شادی کا موقع آتا ہے تو سسرال والوں نے دلہن کے لیے جو سوٹس اور چیزیں خریدی ہوتی ہیں وہ ساری چیزیں صندوقوں میں بند کرکے دلہن کے گھر کو سہ پہر ۱۲ بجے ڈھول کے ساتھ کاروں میں جاتے ہیں اور وہاں پر سسرال کی ایک ذمہ دار عورت ایک چارپائی پہ کھڑی ہوکر یہ تمام چیزیں بشمول سونے کے سیٹس وغیرہ اپنے ہاتھوں سے اوپر کرکے گھر میں عورتوں کو دیکھاتی ہے۔جب یہ رسم ختم ہو جائے تو ٹافیوں کے لفافے کھول کر اُٹھااُٹھاکر پھینک دیتے ہیں اور چھوٹے بچے چھیناجھپٹی کرکے انہیں کھاتے ہیں اسی طرح بعض اوقات اس موقع پر بھی اسراف سے کام لیا جاتاہے اور کچھ عورتیں نقدی نوٹ بھی نچھاورکرتے ہیں ۔بنوسوالہ پشتو میں اس کو ختے(کپڑے) کہتے ہیںاسی طرح یہ لوگ دوپہر کو واپس دلہے کے گھر آجاتے ہیں ۔پھر عصر کی نما زکے بعد دوبارہ یہ لوگ کاروں میں جاکر دلہن کے گاؤں جاتے ہیں عورتیں مخصوص علاقائی گیت گا تی ہوئیں دلہن کے گھر میں داخل ہوتی ہیںجب کہ دلہن کے بھائی دلہن کو خودڈولی میں بیٹھاکرکارتک لے آتے ہیں۔دلہن کے ساتھ اپنے گھر کی ایک دو بزرگ عورتیںبھی جاتی ہیں۔دلہن کو لاتے ہی دلہے کا گاؤں میدان جنگ کی طرح فائرنگ سے گونج اٹھتا ہے ۔بے پناہ فائرنگ ہوتی ہے۔صبح سویرے مہمانوں کے لیے کھانے کا بندوبست کیا جاتا ہے۔جانور ذبح کیے جاتے ہیں اوربنوں کا مخصوص اور مشہور کھانا پینڈہ تیارکیا جاتاہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جانشینی
پشتون روایات میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ والد کی وفات کے بعد اس کے بڑے بیٹے کو گھر کا سربراہ بنایا جاتا ہے۔والد کی وفات کے تین دن بعد اس خاندان کے بڑے لوگ جمع ہوکر اس کے بڑے بیٹے کو اپنے والد کی روایتی پگڑی پہنا کر اس کو اپنے والد کا جانشین مقرر کرتے ہیں ۔جانشینی کے بعد گھر کی ذمہ داری اس کے کندھوں پر آجاتی ہے اور گھر کے سارے کام اس کے مشورے سے ہوتے رہتے ہیں ان سے مشورہ کر کے ہی کام پر بسم اللہ کیا جاتا ہے ۔بڑا بھائی بھی اپنے خاندان والوں کو کبھی شکایت کا موقع نہیں دیتا البتہ اپنے والد کے بنائے ہوئے اصولوں پر کبھی کمپرومائز نہیں کرتا چاہے کچھ بھی ہو جائے۔بنوں کے پشتون قبائل میں ابھی تک یہ رواج ہے کہ والد کی دفات کے بعد عورتوں کو سربراہ نہیں بنایا جاتا ۔ہاں عورتوں کو صرف اس کا جائز مقام دلاتے ہیں ۔لیکن سارے مشورے وغیرہ گھر کے مرد حضرات ہی کرتے ہیں البتہ پشتون معاشرے میں ماں اور بہنوں کو جو مقام حاصل ہے شاید کسی دوسرے معاشرے میں حاصل ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ورہ) باری
فصلی لحاظ سے بنوں کی زمین سب سے زیادہ زرخیز ہے البتہ چند ایک علاقوں میں سیم و تھور کی بیماری ہے ۔بنیادی طور پر یہاں کی زمینیں دوفصلی نہری ہیں۔پانی کی سیرابی پر یہاں کافی لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں اس لیے اکثر علاقوں میں پانی کی منصفانہ تقسیم کے لیے گاؤں کے مشران اور بزرگ لوگ جمع ہوکر پانی کی تقسیم کرتے ہیں کہ فلاں دن فلاں زمین سیرا ب کرے گا فلاں دن فلاں سیراب کرے گا بنوسوالہ پشتو زبان میں اس کو ورہ (باری)کہتے ہیں۔اس سے لڑئی جھگڑے نہیں ہوتے اور ہر کوئی اپنی باری آنے پر زمین سیراب کرتا ہے ۔اکثر علاقوں میں سیرابی پانی صرف علاقے کے اہم گھرانوں کا ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پناہ لینااور پناہ دینا
یہ روایت تمام پشتون(پٹھان) قبائل میں موجود ہے۔جو کوئی کبھی کسی سے بھاگ کر کسی کے ہاں پنا ہ لیتا ہے۔تو اس کی حفاظت پناہ دینے والے خود سے زیادہ کرتے ہیں ۔چاہے کچھ بھی ہوجائے لیکن پناہ دینا والا اسے کسی بھی قیمت پر کسی اور کے حوالے نہیں کرسکتا۔کبھی کبھی ان حالات میں نوبت لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی ہے لیکن جب تک پناہ لینے والا ان کے ہاں رہتا ہے اس کی حفاظت ان کے ذمہ ہوتا ہے۔پناہ کے بعد پناہ دینا والا اس کے ساتھ جاتا ہے اور اپنے علاقے کے حدودسے بحفاظت نکلتاہے البتہ اگر کوئی کسی لڑکی کو بھگا کے لے جائے تو انھیں پناہ نہیں دی جاتی بلکہ اس لڑکی کواس کے خاندان کے سپردکردیاجاتاہے ۔جو شخص کسی کو پناہ نہیں دیتا اسے بڑی معیوب نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔
پناہ لینے والا بھی جب رخصت ہوتا ہے تو ہمیشہ پناہ دینے والے کا احسان مند رہتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ کبھی بھی پناہ دینے والا ان سے خفانہ ہو۔ماضی میںکئی بار ایسا بھی ہوا ہے کہ ایک آدمی کی دو دشمنیاں ہوتی کوئی ایک دشمن ان کا پیچھا کرتا اور وہ اپنے دوسرے دشمن کے گھر میں پناہ لینے پر مجبور ہوجاتا تو یہی دشمن اس وقت اسے پناہ دیتا اور اس کی حفاظت اپنے اوپر فرض سمجھتا ۔ اسے کسی قسم کانقصان نہیں پہنچاتا اسے حفاظت سے اپنے گھر پہنچانا ان کی ذمہ داری ہوتی ۔پھر جب کبھی کوئی موقع آتا تو اسے قتل کرتا لیکن اب یہ روایت ختم ہوچکی ہے۔اب موقع پاتے ہی اپنے دشمن کو بے دردی سے قتل کرتے ہیں۔اگر ایک پناہ لینے والا رات کے وقت کسی اور سے اپنے دشمن کے ہاں پناہ لینے پر مجبور ہوتا تو دشمن اس کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اس کے کھانے پینے اور سونے کا اعلیٰ بند وبست کرتا تاکہ کوئی پھر کل اس کو طعنہ نہ دے کہ پشتون ہوتے ہوئے بھی آپ نے ایسا کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔