بنوں کے پشتون(پٹھان) اسلام کے تمام اقدار اور پشتو کے رسم و رواج کے مطابق زندگی گزارتے ہیں۔غمی کے موقع پر اہل خانہ کے ساتھ تمام گاؤں کے لوگ شریک ہوتے ہیں جب کوئی فوت ہوتا ہے تو تین دن تک گاؤں کے ہر گھر سے تیار کھانے اور چائے وغیرہ مرحوم کے گھر میں لوگ لے جاتے ہیں ۔اسی طرح خوشی کے موقعوں پر بھی بنوسیان کا ایک منفرد اور مخصوص انداز ہے۔ماضی میں لوگ چھوٹی سی ڈھولکی جسے یہاںکے لوگ تمبل کہتے تھے استعمال کرتے تھے لیکن یہ صرف عورتیں بجاتی جبکہ مرد حضرات نشانہ بازی کرتے لیکن اب موجودہ دور میں مرد حضرات بھی خوشی کے موقع پر ڈھول کے ساتھ ناچتے ہیں جوبنوں کا مقامی ناچ(انتڑ) کہلاتا ہے اس میں میراثی ڈھول بجاتا ہے اور نوجوان اس کے گھول چکر لگا کر مخصوص انداز میں ناچتے ہیں۔
اس کے علاوہ جب علاقے میں کوئی اہم قبائلی مسئلہ پیش آتا ہے تو دور دراز کے علاقوں میں ڈھول بجایا جاتا ہے اور اس کے ساتھ اعلان کیا جا تا ہے کہ فلاں دن کو فلاں مقام پر جرگہ ہے قبیلے کے تمام افراد کو مطلع کیا جا تا ہے کہ مقررہ وقت پر حاضر ہوجائے۔ڈھول بجتے ہی خود لوگوں کو پتہ چلتا ہے کہ پھر کوئی جرگہ ہے۔بنو ں شہر میں یہ چیز نہیں ہے لیکن خود میں نے اپنے علاقے جھنڈوخیل میں یہ دیکھا تھا۔جرگوں کے علاوہ بنوںمیں اکثر کبڈی کے قومی مقابلے ہوتے رہتے ہیں ان موقعوں پر بھی کھیل کے دوران ڈھول بجایا جاتا ہے اور لوگ کھیل اورڈھول دونوںسے لطف اندوز ہوتے۔ ماضی میں اینڈا کھیلنے کے وقت بھی ڈھول بجایا جا تا تھالیکن اینڈا اب ختم ہوچکا ہے۔مشترکہ اجتماعی کام جن کو ٹینگہ کہتے ہیں اس موقع پر بھی ڈھول سے کام لیا جاتا ہے مقررہ وقت سے ایک دن پہلے ڈھول بجایا جاتا ہے کہ فلاں دن فلاں ندی یا نالے کا ٹینگہ ہے تو ہر کسی کو پتہ ہوتا ہے۔ ٹینگہ کے وقت کام کے ساتھ ساتھ بھی ڈھول بجایا جاتا ہے لیکن اب یہ روایت دم توڑتی نظر آتی ہے۔ہم اپنے ورثے اور اسلاف کی نشانیاں خود ختم کر رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔