چی دستار تڑی ہزار دی د دستار سڑی پہ شمار دی
اوپر پشتو کے مشہور شاعر خوشحال خان خٹک کے شعر کا ترجمہ ہے کہ ہزار وں لوگ ہیں جو دستار استعمال کرتے ہیں لیکن دستار رکھنے والے چند لوگ ہیں ۔دستار عزت ،بزرگی اور سربراہی کی علامت ہے ۔مطلب یہ کہ دستار تو پشتون معاشرے میں اکثر لوگ استعمال کرتے ہیں لیکن دستار کے ساتھ کچھ پشتون روایات بھی ہیں جن کو زندگی میں لانا آسان نہیں ہے۔صرف دستار اور پگڑی پہننے سے کوئی بڑا آدمی نہیں بن سکتا ۔
پگڑی اور دستار بنوں کی روایت ہے شان ہے ۔ماضی میں تو بغیر پگڑی اور دستار کے کوئی بھی کہیں نہیں جاتاتھا ایسے لوگوں کو بہت معیوب نظروں سے دیکھا جاتا تھاجو پگڑی یا دستار نہیں پہنتے تھے۔البتہ دستار ہر کوئی پہنتا لیکن پگڑی اکثر علاقے کے بزرگ اور مشران استعمال کرتے تھے ۔ اب بھی بنوں کے تمام بزرگ اورمشران دستار اور پگڑی کا استعمال کرتے ہیں لیکن اکثر لوگ اب بغیر پگڑی اور دستار کے گھومتے پھرتے ہیں۔پشتون معاشرے میں اب بھی ایسے بزرگوں اور مشران کو لوگ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو دستار یا پگڑی کا استعمال کرتے ہیں۔شادی کے موقع پر دلہے کو ضرور دستار یا پگڑی پہناتے ہیںبلکہ یہ ایک قسم کا فرض ہوتا ہے۔اسی طرح جب کوئی فوت ہو جاتا ہے تو جنازے میں اس کے چارپائی کے ساتھ دستار یا پگڑی رکھتے ہیں۔یہ اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ انہوں نے تمام عمراسلامی اقدار پشتو ن روایات کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔