پاکستان ایک جمہوری ملک ہے۔یہاں پر ہر وہ شخص جس کے پاس قومی شناختی کارڈ ہو، ووٹ ڈال سکتا ہے۔حکومت کا عرصہ ۵ سالوں پر محیط ہے۔ان پانچ سالوں میں حکومت وقت کے کارندے اپنے اپنے علاقوں کی خدمات کرتے ہیںلیکن بنوں جو سیاسی لحاظ سے ایک اہم ضلع ہے، کے اجتماعی کام سے ہر کوئی منہ موڑ تا رہا سوائے جمعیت علماء اسلام اور عوامی نیشنل پارٹی کے۔ ان دو سیاسی پارٹیوں نے کام کئے ہیں۔مری بات تلخ سہی لیکن یہ حقیقت ہے اور حقیقت سے منہ نہیں موڑا جا سکتا۔غلام اسحاق خان سابق صدر پاکستان بھی ضلع بنوں کا باسی تھا لیکن بنوں کی فلاح و بہبود کے لیے ایک کام بھی نہیں کیا ہے حالانکہ وہ مختلف پوسٹوں پر رہ چکے ہیں حتیٰ کہ اپنے علاقے اسمعیل خیل کے لیے سٹر ک بھی انہوں نے تعمیر نہیں کی ہے۔
جمعیت علماء اسلام، تحریک انصاف،پیپلز پارٹی،قومی وطن پارٹی ،مسلم لیگ (ن) ، عوامی نیشنل پارٹی اور پختونخوا میپ یہاں کی اہم سیاسی پارٹیاں ہیں۔ان پارٹیوں میں چند پارٹیاں ہیں جن میں موروثی اور شخصی سیاست نہیں ہے۔باقی تمام پارٹیوں میں شخصی اور موروثی سیاست ہے اور انہی کی وجہ سے لوگوں کا اعتماد پارٹیوں پر سے اٹھتاجا رہا ہے کیونکہ پارٹی کے لیے قربانی جو دے رہا ہے ان کو ٹکٹ نہیں ملتا ۔مثال کے طور پر عوامی نیشنل پارٹی کے ضلعی صدر عبدالصمد خان جنہوں نے اپنی پارٹی کے لیے بے شمار قربانیاں دی ہیںلیکن ان کو ہر بار نظر انداز کیا جا تا ہے اور صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ اسے نہیں دیا جاتا۔حالانکہ اگر اسے ٹکٹ دیا جائے تو وہ اپنے اخلاق اور پارٹی قربانی کی وجہ سے صوبائی اسمبلی کا سیٹ جیت سکتا ہے اسی طرح کا شخصیاتی کھیل تحریک انصاف میں بھی ہے۔اگر پارٹی ورکرز کی قربانیوںکو مد ِنظر رکھتے ہوئے ٹکٹ تقسیم کئے جائیں تو پارٹی بھی مضبوط ہوگی اور تمام ورکرز بھی دل جمعی کے ساتھ کام کریں گے۔اس کے علاوہ اکثر سیاسی کارندے الیکشن کے بعد بالکل غائب ہو جاتے ہیں اور جب الیکشن قریب آتی ہے تو پھر سے ووٹ مانگنے آکر منت سماجت کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ شاید سیاسی لوگوں کو پتہ نہ ہو لیکن بنوں میں ۳۰ فیصد لوگ ووٹ کا استعمال تک نہیں کرتے کیونکہ ان لوگوں کا سیاسی عمائدین سے مکمل اعتماد ختم ہو چکا ہے۔یہ بتاتا چلو ں کہ سب سیاسی لوگ بھی ایک جیسے نہیں ہوتے کچھ ایسے افراد بھی ہیں جن کو لوگ خود ووٹ دیتے ہیں کیونکہ یہ لوگ اجتماعی کام کر کے لوگوں کے دلوں میں بنا چکے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف نے ۵ سالوں دور ِ حکومت میں بنوں کے اجتماعی کاموں میں،مختلف پل اور سکولز بنائے ،قومی وطن پارٹی کے عدنان وزیر نے اپنے دور میں مختلف پل،سینکڑوں سکولز بنائے یاد رہے کہ سب سے زیادہ سکولز بنوں میں عدنان وزیر نے بنائے ہیں۔عوامی نیشنل پارٹی نے اپنے دور حکومت میں سینکڑو ں سکولز،پل اور ڈسٹرکٹ اینڈ ٹیچنگ ہسپتال میں ایک وارڈ قائم کیا ہے۔اس کے علاوہ اس پارٹی کے صرف ایک شخص عبدالصمد خان ڈسٹرکٹ ممبر ہنجل نے مختلف علاقوں میں صاف پانی کا بندوبست کیا۔سب سے زیادہ اجتماعی اور ترقیاتی کام جمعیت علماء اسلام نے کئے ہیں جو گنتی سے باہر ہیں۔بنوں میں ابھی چار یونین کونسلز کے لیے گیس بھی اکرم خان درانی نے منظور کیا ہے اور اس پر کام جاری ہے۔سب سے بڑا نیا کارنامہ اسلام آباد سے بائی پاس روڈ بنوں تک منظور ہوا ہے جس کا سہرا اکرم خان درانی کے سر ہے اس پر بھی تیزی سے کام جاری ہے اس روڈ سے اسلام آباد سے بنوں کی مسافت تقریبا ًتین گھنٹے رہ جائے گی۔بنوںکے لیے ریل گاڑی کا انتظام بھی کر رہا ہے ۔جمعیت علماء اسلام نے جو کام کئے ہیں ان کا تفصیلی جائزہ بنوں کی اہم شخصیات کے باب میں اکرم خان درانی کی شخصیت میں ملاحظہ فرمائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شوینہ اور پنددونڑہ
پشتو کے رسم و رواج میں ایک رواج پندونڑہ اور شوینہ کا بھی ہے۔چونکہ بنوں کے اکثر علاقوں میں لڑائی جھگڑے ہوتے رہتے ہیں۔قتل و مقاتلہ یا لڑائی جھگڑے کے بعد کچھ خاص لوگ درمیان میں آکر صلح کرنے کی غرض سے دونوں فریقین سے خاص نقدی،سونا یا بندوق اپنے پاس رکھتے ہیں یہ چیزیں اس بات کے لیے رکھی جاتی ہیں کہ اگر اس دوران کسی بھی فریق نے دوسرے فریق کے کسی بندے کو کسی قسم کا نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو یہ نقدی وغیرہ بطورِ جرمانہ دوسرے فریق کو دیا جاتا ہے۔بنوسوالہ پشتو میں اس رقم کو عرف عام میں شوینہ کہتے ہیں۔لیکن اب پشتو کا یہ رواج ختم ہو رہا ہے کیونکہ وہ مشران اب نہیں رہے اب صرف پیسو ں کا کھیل ہے یہی وجہ ہے کہ ان سے اب عوام کا اعتبار اٹھ رہا ہے۔ پہلے مشران یہ کام صرف اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے کرتے جبکہ آج کل یہ ایک کاروبار بن چکا ہے اور دوسری بات پہلے یہ کام ہر کسی کے بس کی بات نہیں تھی علاقے کی اہم شخصیات کرتے تھے جبکہ آجکل وہ لوگ جوپشتو رسم و رواج کے الف ،ب سے بھی واقف نہیں ہے یہی کام کرتے ہیں،بعض اوقات صلح کرنے والے ہی پندونڑہ کی رقم ہضم کرتے ہیں اور فریقین کو ایسا ہی چھوڑ دیتے ہیں۔حکومت ِوقت کو چاہیے کہ ایسے پروفیشنل لوگوں پر سخت پابندی لگائے۔جو خاندانی رسم و راوج کے لوگ ہیں صرف انہیں اجازت دی جائے کیونکہ وہ لوگ کبھی غلط فیصلہ نہیں کرسکتے اور نہ ہی پیسے کھا سکتے ہیں ایک تو وہ خاندانی رئیس ہوتے ہیں دوسرایہ لوگ اپنے اباو آجداد کا نام بدنام کرنے سے ڈرتے ہیں۔اس بات سے بہت ڈرتے ہیں کہ لوگ کہیں گے کہ پشتون بھی ہے اور غلط فیصلے بھی کرتا ہے یا پھر یہ کہیں گے کہ فلاں ملک کا بیٹا ہے اور ایسا فیصلہ کیا لعنت ہو اس پر ۔ اگر چہ کچھ ایسے پشتون بھی ہیںجو پیسے کھا کر غلط فیصلے کرتے ہیں لیکن وہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔پھر بھی اگر کوئی فریق بھی دلیل کے ساتھ کسی پشتون ثالث پر غلط فیصلے کرنے اور پیسے کھانے کا درخواست ضلعی انتظامیہ کو دے تو ضلعی انتظامیہ کو چاہیے کہ ایسے ذلیل لوگوں پر بھی مکمل پابندی عائد کرے جو پشتون روایات کے ساتھ مذاق کرکے پیٹ کی خاطر غلط فیصلے کرتے ہیں۔بلکہ ایسے لوگوں کو سزائیں دینی چاہیے تاکہ مقام عبرت بنے۔
بہت سے ثالث جب بات کسی فریقین کے درمیان بات کرتے توفریقین سے پیسوں کا مطالبہ کرتے ہیں یہ رقم کوئی معمولی رقم نہیں ہوتی عام لوگ اس رقم کو ادا کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ یعنی فریقین کے درمیان صلح کرانے کی وہ فیس لیتے ہیں۔ بنوسوالہ پشتو میں ان کو پنددونڑہ کہتے ہیں ۔ ان پر کئی بار اخبارات میں بھی سرخیاں آئی ہیں میں نے خود بارہا مختلف موقعوں پر اس بات پر زور دیا ہے کہ خدارا اس سے پرہیز کیا جائے لیکن نہ تو صوبائی حکومت اور نہ ہی ضلعی انتظامیہ نے اس طر ف توجہ دی ہے۔حکومت وقت کو چاہیے کہ ان لوگوں کا محاسبہ کرکے انہیں سیدھا جیل بھیجیں۔ ماضی میں بنوں کی ایسی شخصیات گزری ہیں جو صر ف اللہ کی رضااور پشتو رسم ورواج کے مطابق بغیر پیسوں کے صلح کراتے۔ان میں ملک سیلانی خان شہباز عظمت خیل، ملک رسول خان عبید خیل،ملک حمید اللہ خان میرزاعلی خیل، ملک سرفرازخان دراب خیل،ملک بہادر خان بوزیدخیل ،ملک مائینل عبید خیل،ملک خلیفہ خان مظفر خان کفشی خیل، ملک عبدالجبار خان کفشی خیل منڈان، ملک صالح خان مندیو، ملک غازی مرجان اسپرکہ وزیر،ملک سربلند خان،ملک شیر محمد خان بہرام شاہ،ملک میر دراز خان نورملی ،ملک دراز خان جھنڈوخیل ،ملک سردار خان گلک خیل،ملک سوداد خان منڈان، ملک دلباز خان داود شاہ،ملک ممہ جان عبیدخیل،ملک رحمزاد خان میرا خیل،ملک اکبر علی خان سوکڑی،ملک دراز خان سورانی،خلیفہ گل نواز خان سورانی،ملک گل ایوب خان کالا خیل،مولانا فضل ولی صاحب مندیو،ملک آن آف میتا خیل،ملک خان باز خان کوٹ عادل، مولوی ربان شاہ ککی،غلام ابراہیم خان اسمعیل خیل،گابڑکائی خان بہادر وزیر ، ملک آیاز خان مہمند خیل،اے ۔ڈی ربنواز خان ممش خیل وغیرہ شامل تھے۔لیکن غیرت مند بنوسیان کے علاوہ موجودہ وقت میں ۹۰ فیصد لوگ صرف پیسوں کی غرض سے سب کچھ کراتے ہیں۔جو خلافِ قانون اور خلافِ شریعت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر واخت واک وہ تیئی وڑہ واک
بنوں کے پشتونوں کو دوسرے پشتون قبائل اکثر جلد بازاور ضدی یاد کرتے ہیں کہ یہ جلد با ز اور ضدی قوم ہے اور یہ بات درست بھی ہے یہاں کے لوگوں کو زور زبردستی زیر نہیں کیا جاسکتا ۔یہی وجہ ہے کہ یہاںپر اکثر اوقات لڑائی جھگڑے ہوتے رہتے ہیں۔جھگڑوںکے بعد ثالثان فریقین سے کہتے ہیں کہ ہم آپ کے لیے فیصلہ کرتے ہیں آپ ہمیں مکمل اختیار دیدیں لیکن دونوں فریقین کہتے ہیں کہ نہیں ہم اس طرح اختیارنہیں دے سکتے ۔ہم پہ خبر واخت واک(مشروط اختیار) آپ ثالثان کو دیتے ہیں اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی بھی فریق فیصلے سے راضی نہ ہو تو شبہ کرکے کسی اورثالث سے یہ فیصلہ کرے گا۔بنوسوالہ پشتو میں اس کو پہ خبر واخت واک کہتے ہیں۔ اس کے برعکس کچھ ثالثان فریقین سے کہتے ہیں کہ آپ دونوں مکمل اختیار دیں گے کہ ہم نے جیسے بھی فیصلہ کیا آپ لوگ بخوشی اس کو مانیں گے دونوں فریقین اس کو اختیار دیتے ہیں اس کو پہ تیئی وڑہ واک (مکمل اختیار)کہتے ہیں۔اس قسم کے فیصلوں میں اکثر مجبوریوں کی وجہ سے ہوتے ہیں کیونکہ کسی بھی ایک فریق کی کوئی بڑی مجبوری ہوتی ہے تو دوسرا فریق بھی راضی ہو جاتا ہے اس قسم کے فیصلوں میں کسی بھی ایک خاندان کو بہت بڑے نقصان سے گزرنا پڑتا ہے۔
ماضی میں اس طرح کے فیصلے بہت کم ہوتے تھے دونوںفریقین کی مالی اور جانی نقصانات کو دیکھ کر اللہ کی رضا کے لیے اچھے فیصلے ہوتے تھے لیکن اب تو کسی بھی ایک فریق کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر فیصلہ کیا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ماضی میں سارے بنوں میں بہت کم لوگ عدالتوں کارخ کرتے لیکن اب بنوں کے ۷۰ فیصد لوگ عدالتوں کے چکر کاٹتے ہیں ۔ پاکستانی عدالتوں سے بھی خدا بچائے کیونکہ کبھی کبھی انسان پیدائش سے لیکر مرتے دم تک عدالتوں سے انصاف کی توقع رکھتے ہوئے بیٹھتا ہے لیکن بے سود۔ خدا ہمارے حال پر رحم فرمائیں ۔آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔