بنوں کے اکثر علاقوںمیں تفریخی مقامات اور شکار گاہیںموجود ہیں لیکن ان کی اچھی طرح دیکھ بھال نہیں ہوتی۔جس وجہ سے شکار گاہیں اور تفریح گاہیں ختم ہوتی جارہی۔ غازی عبداللہ شاہ بابا کی پہاڑیوں،ڈومیل میں لکے جینئی،ککی میں آکرہ ،جھنڈوخیل میں کُرمہ اورکوٹکہ بہرام شاہ ، سورانی میں علاقہ تھل،علاقہ ممش خیل،داؤد شاہ اور میریان کے کچھ علاقوں میں چھوٹی چھوٹی شکار گاہیں موجود ہیں ۔علی شو باباؒ کی پہاڑیوں میں خرگوش اور تیتر کا بہت شکار ہے۔اس کے علاوہ بنوں کُرمہ میں تتیراور کونجوں کا شکار ہوتا ہے۔حکومت وقت کو چاہیے کہ اس طرف خصوصی توجہ دے اور ہر قسم شکار پر پابندی لگائیں تا کہ جنگلی حیات میں اضافہ ہو جائے اس طرح ہمار ا ماحول بھی خوبصورت اور صاف ہوگا۔اس کے علاوہ مچھلیوں کا شکار بھی بنوں میںباران ڈیم،دریائے لوڑہ،کچکوٹ نہر،دریائے کرم میں کیا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنوں میں ریل کی ضرورت
ماضی میں بنوں شہر سے نورنگ اور عیسیٰ خیل تک ریلوے لائن بچھی ہوئی تھی لیکن یہ ریل کچھوے کی چال چلتی تھی۔اکثر لوگ سیر و تفریخ کی غرض سے اس میں سفر کرتے تھے۔اس کے اکثر ڈبے خالی ہوتے تھے۔یہ ایک تاریخی ریلوے اسٹیشن تھا ۔کوئلے سے چلنے والی بنوں کی ریل ایک بہت ہی پرانی ریل تھی۔بعد ازاں اس ریل کو ختم کردیا گیا اور اس کی پٹڑیاں اونے پونے داموں بیچ دی گئیں اور کئی سیاسی لوگوں نے اس میں کافی خورد برد کی۔حکومت وقت کو چاہیے کہ اب دوبارہ بنوں میں ریلوے کا انتظام و انصرام کرے۔مجھے یقین ہے کہ اس سے حکومت وقت کو بہت منافع ہوگا۔عوام کو سہولیات،تفریخ، روزگار اور بہتر مواقع میسر ہوں گے۔اب تو سی۔پیک منصوبہ بھی مکمل ہونے والا ہے ۔یقینااس کے لیے بھی ریل کی ضرورت ہوگی۔
بنوں میں بے روزگاری
صوبہ خیبر پختونخوا کا یہ ضلع نہایت پسماندہ ہے اسے ہر دورمیں نظر انداز کیا گیا ہے حالانکہ اس نے ہر میدان میں ایسے ایسے سپوت پیدا کئے ہیں جن کی مثال مشکل سے ملتی ہے۔کھیل کا میدان ہو یاسیاست کا ،ادب کا میدان ہو یا ثقافت کا ،ہر میدان میں اس ضلع کے سپوتوں نے اپنے ملک و قوم کا نام روشن کیا ہے۔ پاکستان بننے سے پہلے تو بنوں کی ہاکی ٹیم ایک چمپئن ٹیم تھی اس کی فٹ بال ٹیم برصغیرپاک و ہند کی بہترین ٹیموں میں شمار ہوتی تھی۔ادب میں بھی اس نے بہت نام کمایا۔کیونکہ اردو کی جنم بھومی اصل میں یہاں سے ہوئی ہے۔اس کے علاوہ تحریک پاکستان کی درست ابتدا ء بھی ضلع بنوں سے ہوئی تھی کیونکہ سب سے پہلے بیرسٹر محمد جان گڑھی شیر احمد کے رہنے والے آزادی کے متوالے نے بنوں سے کی تھی۔ جس کی دلیل مولانا محمدعلی جوہر کے وہ قصیدے ہیں جو انہوں نے بیرسٹر محمد جان کے بارے میںلکھے ہیں۔
ان تمام باتوں کے باوجود اس خطے کو نظر انداز کیا گیا۔ یہاں کے اکثر لوگ بے روزگار ہیں یہی وجہ ہے کہ بہت سے نوجوان سعودی عرب، دوبئی اور دوسرے ممالک روزگار کیلئے جاتے ہیںاور ملک کی بہترین افرادی قوت سے باہر کے لوگ مستفید ہو رہے ہیں۔تعلیم اور ٹیلنٹ کی کمی نہیں ۔لیکن پھر بھی ملازمت اور انٹرویو میں ضلع سے باہر کے لوگوں کو ترجیح دی جاتی ہے اور بنوں کے لوگوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔میری بات تلخ سہی لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہاں کے لوگوں کے ساتھ باہر کے لوگوں کا رویہ مناسب نہیں ہے۔اربا ب اختیارسے میری گزارش ہے کہ تمام سرکاری ملازمتوں میں اس کو مناسب کوٹہ دیا جائے یا پھرزون بنوں ،ڈیرہ اسمعیل خان،کرک،لکی مروت ، نورنگ،ڈومیل کو ملا کر ایک نیا صوبہ بنایا جائے۔اس طرح تما م مسائل حل ہوجائیں گے اور بے روزگاری میں بھی کمی آجائے گی۔ ٭٭٭