جب اکرم خان درانی وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا تھے تو پورے بنوں میں بجلی کا مسئلہ پیش آیا تھا کہیں پر بھی بجلی نہیں تھی۔کئی کئی دن تک بجلی غائب رہتی۔لوگ پینے کے پانی کے لیے تر س رہے تھے۔گرمی بھی شدت کی تھی۔لوگوں نے جلسے اور جلوس شروع کئے۔بنوں کے اکثر مشران اور بزرگوں نے واپڈا کے افسران سے بات چیت کی لیکن بے سود !
آخر کچھ دونوں بعد بنوں کے اکثر علاقوں کی بجلی ٹھیک ہوگئی لیکن نورڑ کی بجلی اسی طر ح غائب تھی۔شاید سیاسی مفادات کی وجہ سے نورڑ کو نظر انداز کیا گیا تھا یا کوئی اور وجہ بھی ہوسکتی ہے۔ نورڑ کے تمام اقوام نے کئی جرگے کئے اور واپڈا والوں سے بات چیت کی لیکن بات جوں کی توں رہی۔ تنگ آکر نورڑ کے تمام بنوسئی اقوام نے پورے جوش وخروش سے تقریبا ً۵۰۰ افراد پر مشتمل ایک لشکر مکمل اسلحہ سے لیس بنوں بازارسے ہوتے ہوئے بنوں واپڈا کالونی پر دھاوا بول دیابنوں بازار میں اور لوگ بھی اس لشکر میں شامل ہوگئے کیونکہ سب گرمی کے ستائے ہوئے تھے۔اور واپڈا کالونی کو آگ لگا کر سارے کالونی کو سیل کر دیا ۔اندھا دھند فائرنگ کرتے ہوئے وپڈا کا سارا ریکارڈ جلا کر رکھ کر دیا۔معاملے کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے بھاری نفری پولیس کی آگئی لیکن عوام اتنے مشتعل تھے کہ پولیس کے کنٹرول سے باہر تھے۔فائرنگ اور جھڑپ میں کافی نقصان ہوا ۔کئی لوگ زخمی ہوئے جبکہ واپڈا کالونی کو فائرنگ سے جگہ ،جگہ نشانہ بنایا گیا۔
پولیس کی ناکامی کے بعد بالآخر فوج کو طلب کر لیا گیا لیکن جب تک فوج آتی تب تک تمام لوگ جا چکے تھے۔واقعہ کے بعد بہت سے لوگوں پرسرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے جرم میں ایف۔آئی ۔آر درج کئے گئے۔بعد ازاں بنوں کے مشران اور ضلعی انتظامیہ کی کوششوں سے صلح وصفائی سے یہ مسئلہ حل ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واقعہ بنوں پولیس لائن
9/11کے بعد سے بنوں سب سے زیادہ متاثر رہا۔آئے روز بم دھماکے ہوتے اور بے گناہ لوگ شہید ہوتے رہتے۔ایک دن ایسا ہی ہوا ۔ایک خود کش بمبار نے بنوں پولیس لائن گیٹ نمبر ۲ قصابان گیٹ بنوں میں زبردستی گھسنے کی کوشش کی۔پولیس جوانوں کو اس پر شک ہوا تو اس نے خود کش بمبار پر فائرنگ کی لیکن خود کش بمبار نے پولیس لائن کے گیٹ کو پار کر دیا ۔بنوں پولیس کے بہادر افیسر جناب اقبال مروت صاحب بھی اسی دوران پولیس لائن میں موجود تھے صورتحال کو سنبھالنے کے لئے ایکشن لیا لیکن شدید زخمی ہوئے اور زخمو ں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوگئے۔ اس واقعہ میں بہت سے عام شہری اور پولیس کے بے گناہ جوان بھی شہید ہوئے۔کئی روز تک بنوں میں سوگ کی فضارہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واقعہ تھانہ منڈان
واقعہ بنوں پولیس لائن کے درد ناک واقعہ کے بعد پوری تیاری کے ساتھ دہشت گردوں نے منڈان تھانے کو اڑانے کا منصوبہ بنایا تھا۔صبح سویرے منڈان تھانے کے ساتھ سٹرک پر ایک خود کش بمبار نے بارود سے بھری کار کو منڈان تھانے کے قریب لے جاتے ہی خود کو اور موٹر کارکو اڑا دیا۔کار میں اتنا بارود تھا کہ آس پاس کے گاؤں کی دیواروں میں دھماکے کی وجہ سے دراڑیں پڑ گئیں۔منڈان تھانہ اینٹوں کا ڈھیر بن گیا ۔کئی جوان شہید اور کئی سو زخمی ہوئے ۔اس کے ساتھ ساتھ بہت سے عام شہری بھی شہید اور زخمی ہوئے ۔سٹرک کے ساتھ ایک مسجد بھی دھماکے سے شہید ہوگئی۔آس پاس کے شیشم کے درختوں کے بڑے بڑے چھلکے دھماکے کی تپش سے درختوں سے اڑ گئے ۔دھماکہ اتنا شدید تھا کہ پورے بنوں کے لوگوں میں خوف و حراس پھیل گیا اس سے بڑا اور خوفناک دھماکہ پورے بنوں میں اس سے پہلے نہیں ہوا ۔
پانی کا تنازعہ
80 کی دھائی میں دوسرے اقوام کی شرارت کی وجہ سے عَبید خیل قوم میں پھوٹ پڑ گئی علاقہ نورملی اور جھنڈوخیل کے عبید خیل کے درمیان پانی کا تنازعہ پیش آیا۔جھنڈوخیل اور اس کے آس پاس کے گاؤں کے تمام لوگوں نے فیصلہ کیا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے پانی تو ہم لینگے۔جب نورملی کے مشران اور سرداران کو پتہ چلا تو اس نے بھی نار شیر مست کے کچھ مشران کو اپنے ساتھ ملا کر ایک جرگہ بلایا یہ جرگہ نورملی میں دریائے کرم کے کنارے ملک میر دراز خان کے حجرے میں ہواجس میں متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ پانی کاغذات میں ہمارے نام پر ہے اس لئے کسی کو پانی لے جانے نہیں دیں گے۔ اسی دوران نورملی کے کسی مشر نے غلام اسحقٰ خان (سابق صدر پاکستان ) کو ٹیلی فون کیا اور سارا ماجرا بیا ن کیا۔واضح رہے کہ غلام اسحق خان کی والدہ محترمہ نورملی کے عَبید خیل خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔اسی وجہ سے موصوف کو نورملی کے عبیدخیل خاندان سے بہت محبت تھی۔
دوسرے دن جھنڈوخیل کے تمام لوگ پوری تیاری کے ساتھ بمعہ اسلحہ نورملی کی جانب روانہ ہوئے۔ ایک زبردست لشکر پورے جو ش و خروش سے لڑائی کی غرض راستے کے درمیان میں ہی تھا کہ ادھر نورملی کے مشران کو یہ اطلاع ملی تو اس نے بھی ایک زبردست لشکر ترتیب دیکر دریائے کرم کے کنارے تیار بیٹھ گئے اور اپنے گھروں کے دروازوں میں تالے لگائے تا کہ کوئی عورت اور بچہ گھر سے باہر نہ آسکے۔اسی دوران بنوں چھاؤنی سے فوجی جوان آئے ۔جھنڈوخیل کے لوگوں کو جب اس بات کا علم ہوا تو واپس پلٹ گئے ۔اسی طرح فوج نے درمیان میں آکر ایک ہی قوم کے لوگوں کو آپس میں قتل مقاتلے سے بچایا۔اور ایک خون ریز جنگ کو ختم کر دیا۔بنوں چھاؤنی کو غلام اسحق خان نے ٹیلی فون کیا تھا۔اور اسی کی ہدایات پر فوج نے ایکشن لیا تھا۔اسی طرح ایک اہم مسئلہ بغیر جنگ کے حل ہوا۔
واقعہ ممش خیل و بکا خیل
2011میں بنوں میںبجلی کا بحران تھا۔اسی بحران کی وجہ سے بنوں کے لوگ بہت تنگ آچکے تھے۔بجلی کے بحران کا مسئلہ ممش خیل اور بکا خیل وزیر کے درمیان بھی پیش آیا ۔بکا خیل وزیر زبر دستی ممش خیل کے لائن سے بجلی لگارہے تھے۔جبکہ ممش خیل قوم بجلی نہیں دے رہے تھے۔اسی وجہ سے بات لڑائی تک جا پہنچی۔دونوں اقوام نے لڑائی کیلئے زبردست تیاری کی تھی۔ممش خیل کے تمام اقوام نے دوسٹرک کے چوک میں ایک زبردست جلسہ کیا۔جب ضلعی انتظامیہ کو خطرہ لاحق ہواکہ اس سے بنوسیان اور وزیر کی لڑائی ہو سکتی ہے جس سے پورے بنوں کو نقصان ہوسکتا ہے۔تو ضلعی انتظامیہ نے درمیان میں آکر بہترین ثالثی کا کردار ادا کرکے اس مسئلے کو حل کردیا۔اسی طرح دو اقوام ایک بہت بڑے نقصان سے بچ گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واقعہ میریان تحصیل
2016ء میں حکومت نے میریان اور اس حلقے کے ساتھ دوسرے علاقوں کے لئے تحصیل کی منظوری دیدی۔منظوری کے بعد جگہ کے تعین کا مسئلہ پیش آیا۔بکا خیل کے لوگ چاہتے تھے کہ تحصیل بکا خیل میں ہی بنائی جائے جبکہ میریان کے تمام اقوام کہتے ہیں کہ نہیں ہم تعداد میں زیادہ ہیں اس لئے ہمار ا حق بنتا ہے ۔اس کے علاوہ بکاخیل شہر سے بھی دور ہے اور غیر محفوظ مقام ہے۔اس لئے تحصیل میریان میں ہی بنایا جائے۔اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے ضلعی انتظامیہ اور ہمارے سیاسی قائدین کو چاہیے کہ وہ اس مسئلے کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔اور اکثریت کی بنیاد پر تحصیل کیلئے جگہ کا تعین کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واقعہ میر عالم خان کا اغوا کیس
سخی زمان کے دور میں میر عالم خان کو وزیر طوری خیل وزیر کے قبیلے کے کچھ لوگوں نے اغوا کر لیا۔دوسری صبح جب سخی زمان کو پتہ چلا تووہ بکاخیل کی طرف روانہ ہوئے اور بکاخیل پہنچ کر وزیر بکاخیل کی شاخ نرمی خیل کے نواب خان نے اس کی مہمان نوازی کی۔دوسرے دن بکاخیل اور جانی خیل کے کچھ لوگ بھی پیر سخی زمان کے ساتھ شامل ہوگئے اور طوری خیل وزیر کے پاس گئے لیکن طوری خیل نے صاف انکار کردیا اور میر عالم خان کے بدلے میں رقم کا مطالبہ کیا۔پیرسخی زمان نے طوری خیل کے مشران سے کہا کہ یہ تو سراسر ظلم اور اسلام کے منافی ہے۔لیکن بے سود !
ناکام و نامراد واپس چلے آئے اور نورڑ آتے ہی اسے اطلاع ملی کہ طوری خیل وزیر کے کچھ لوگ جنہوں نے میرعالم خان کو اغوا کیا ہے بنوں بازار آئے ہیں۔ یہ سن کر پیر صاحب نے علاقے کے کچھ لوگ بھیجے اور کہا کہ جتنے بھی طوری خیل ملیں، سب کوپکڑکر میرے پاس لے آؤ۔
نور ڑ کے لوگوں نے تین طوری خیل کے آدمی گرفتار کرکے نور ڑ لے گئے اور پیر صاحب نے انہیں اپنے پاس رکھا دوسری صبح بنوں کے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر عبدالرزاق عباسی نے پیر سخی زمان کو فون کر کے کہا کہ جو تین آدمی طوری خیل کے آپ نے گرفتار کئے ہیں ان کو میرے حوالے کریںلیکن پیر صاحب نے صاف انکار کر دیا۔بالآخر طوری خیل وزیر کے مشران رام ہوگئے اور ثالثی کی پیشکش کی۔ ثالثی میں یہ فیصلہ ہواکہ طوری خیل میر عالم خان کو بنوسیان کے حوالے کرے گا جبکہ بنوسیان طوری خیل کے گرفتار شد ہ آدمیوں کو طوری خیل کے حوالے کریں گے اوراسی طرح ایک بہت بڑا تنازعہ بغیر کسی جھگڑے کے حل ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
واقعہ بنوں بازار کی مسماری
2018ء میں بنوں ضلع میںعلی اصغر نامی ایک ڈپٹی کمشنر کی تعیناتی ہوئی اور آتے ہی اس نے بنوں میں بنوں کی صفائی پر خصوصی توجہ دی اس کے لیے انہوں نے بنوں بازار کا معائنہ کیا اور اس کے بعد اس نے سرکاری فرمان کے مطابق بنوں بازار میں سٹرکوں کی تعمیر کے لیے عملی قدم اٹھایا بازار میں وہ تمام پلازے اور دکانیں گرادیں جس کی وجہ سے ٹریفک کے مسائل تھے اور بنوں بازار کی تمام سٹرکیں کشادہ کیں اس کے علاوہ بنوں بازار سے جو سڑکیں دور دراز گاؤں کو جاتی تھیں ان کو بازار سے گاؤں کی جانب تقریباً ۱۵ کلومیٹر کشادہ کر کے ان کی ازسر نو تعمیر کی جس کی وجہ سے ٹریفک کے مسائل میں کمی ہوئی لیکن جلد ہی ان کا تبادلہ ہوگیا اور یوں یہ کام یہی پر رک گیا بعد ازاں ان کی جگہ نئے ڈپٹی کمشنر زبیرمحمد نیازی نے چارج لیا اور پھر مئی 2021 میں اس نے بنوں بازار میں مسماری شروع کی اور اس مسماری میں بنوں کی بہت سی قدیم عمارتیں گرادیںجس میں حافظ عبدالستارشاہ بخاریؒ کا دینی مدرسہ ،پرانا مال منڈی، مزری منڈی، پرانا سبزی منڈی وغیرہ وغیرہ ، بازار کے ایک سرے سے لیکر دوسرے سرے تک جتنی سرکاری دکانیں اور پلازے تھے سب کے سب گرادیئے اور بنوں کے لوگوں کو اربوں روپے کے نقصانات ہوئے اور بات یہاں تک پہنچی کہ صوبائی اسمبلی میں اس پر بنوں کے اس وقت کے منتخب نمائندوں کے درمیان کافی گرما گرمی ہوئی کچھ لوگو ں کا خیال تھا کہ یہ کام ہونا چاہیے تھا کیونکہ لوگوں نے سرکاری اراضی پر سالوں سے قبضہ کیا تھا جبکہ کچھ لوگوں کا خیا ل تھا کہ نہیں غلط ہوا کیونکہ ان میں کچھ جگہوں پر عدالت کی طرف سے سٹے حکم تھا لیکن اس کے باوجود ان کو مسمار کر دیا گیا ۔بہر حال یہ مسئلہ گھمبیر ہوتا گیا اور لوگوں نے احتجاجی جلوس بھی نکالے بعد میں ضلعی انتظامیہ نے کہا کہ ان جگہوں پر پارک بنائے جائیں گے جبکہ راقم الحروف نے اس وقت انتظامیہ او ر سوشل میڈیا سے التجا کی کہ جن تاجروں کا نقصان ہوا ہے ان کے نقصان کا ازالہ کرکے ان جگہوں پر ڈینٹل ہسپتال،ہارٹ ہسپتال اور ایک وٹرنری ہسپتال بنائیں۔ ٭٭٭