ضلع بنوں میں بہت سی ایسی شخصیات گزری ہیں جنہوںنے بہت نام کمایا۔ ان میں سے کچھ شخصیات اب اس دنیا میں نہیں جبکہ کچھ ابھی بھی بقید حیات ہیںاور علاقے کی خدمت کر رہے ہیں۔ان میں سے کچھ شخصیات کے نام مندر جہ ذیل ہیں۔ان میں سے کچھ شخصیات کے بارے میں اپنے بزرگوں سے سنا ہے جبکہ کچھ شخصیات کو راقم الحروف نے خود پرکھا اور دیکھا ہے۔
_______________
ملک سربلند خان
ملک شیر مست خان آف عَبیدخیل یا عَبیت خیل نے کافی نام کمایا تھا سکھ دور سے بھی پہلے آپ اپنے علاقے کے ملک اور مشر(سربراہ )تھے بنوں میں تور گوند کے سربراہ اور مشر تھے۔ اس خیل میںان گنت نامی گرامی شخصیات گزری ہیں۔ان شخصیات میں ایک نام ملک سربلند خان کا بھی ہے جن کی مہمان نوازی افغانستان اور ہندوستان تک مشہور تھی۔ماضی میں ایک فی البدیہہ شاعر باجوڑی استاد نے ملک سربلند خان کی سرداری،مہمان نوازی،شجاعت اور پشتون روایات کو ایک چاربیتہ میں کچھ اس طر ح بیان کیا ہے۔
سردارہ سربلندہ پہ ٹول بنوں سرگندہ
داھمئی دربوندے ڑنگ شہء ھر سڑائی دے کڑی ارمان
ژاڑیگی فرنگیان
سردار وے سخی زوون وے ،غمائی دے سرہء پیزوون وے
کابل و کلکتے پورے د ستا د نور شغلہ وہ
سرگندہ دے شملہ وہ
ترجمہ:۔ان اشعار میں شاعر سربلند خان سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ اے سردار سربلند خان! سارے بنوں میںآپ ہی کاچرچا ہے۔علاقہ آدھمی آپ کے فوت ہوجانے کے بعد کھنڈر ہو گیا ہے ہر ایک آپ کی تمنا کرتا ہے حتیٰ کہ فرنگی بھی آپ کی موت پر حفا ہے۔آپ نوجوان سردار تھے ۔ آپ کی مہمان نوازی اور پشتون روایات کابل سے کلکتہ یعنی ہندوستان تک مشہور تھیں اس لیے آپ کی پگڑی بھی ہمیشہ اونچی رہی۔
دراصل فرنگی اس لئے آپ کے موت پر خفا تھے کہ موصوف ایک مہمان نواز اور بہادر انسان تھے۔کبھی انگریز کے سامنے نہیں جھکے۔ایک بار ملک دمساز خان شاہ بزرگ خیل نے ایک بہت ہی خوبصورت عمارت تعمیر کرائی اور ایکانگریز افیسر کو دعوت دی جب انگریزافیسر نے عمارت کو دیکھا تو طنزیہ انداز میں ہنسے ملک دمساز نے استفسار کیا تو آفیسر نے کہا کہ ملک صاحب آپ کی اس عمارت سے علاقہ جھنڈوخیل آدھمی میں ملک سربلند خان کی جھونپڑی زیادہ دلکش ہے۔اس پر ملک دمساز حیران رہ گئے اور پوچھا کہ وہ کیسے؟ انگریز آفیسر نے کہا کہ اس جھونپڑی میں ملک سربلند خان صبح سویرے جو کی کچھ روٹیاں،لسی،دیسی گھی پیاز اور پانی کا تازہ گھڑا رکھ دیتا ہے جو بھی مسافر دن کے وقت وہاں سے گزرتا ہے وہ اس جھونپڑی میں کھانا کھا کر باقی چیزیں اسی جگہ واپس رکھ دیتا ہے اور چل دیتا ہے اسی طرح عصر کی نماز کے بعد ملک صاحب گندم کی روٹیاں اور اصلی گھی و دہی رکھ دیتا ہے اور رات کے مسافر اسی طرح اسی جھونپڑی میں کھانا کھا کر اپنا سفر جاری رکھتا ہے یا پھر رات اسی جھونپڑی میں گزار کر صبح پھر اسی جھونپڑی میں ناشتہ کرکے رخصت ہوتا ہے اب آپ کی یہ عا لی شان عمارت خوبصورت ہوگئی کہ ملک سربلند خان کی جھونپڑی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حاجی فضل ولی صاحبؒ نقشبندی
آپؒ شیخ احمدسرہندی (مجدد الف ثانیؒ) کی اولاد میں سے تھے۔ سلسلہ مجددیہ نقشبندیہ سے اس کے گھرانے کا تعلق ہے۔ علاقہ میری میں مندیو میں حاجی فضل ولی صاحبؒ نقشبندیہ کا خاندان موجود ہے۔ ایک نہایت ہی متقی،پرہیز گار اور اللہ تعالیٰ کے بر گزیدہ بندے تھے۔ آپ صاحبزادہ عبدالحلیم صاحب کے گھر میں1950ء میں پیدا ہوئے۔بچپن ہی سے آپ خاموش طبع تھے جوان ہوتے ہی آپ کی کرامات نظرآنی شروع ہو گئیں۔1992ء میں موصوف نے نورڑ میں المرکز السلامیہ مجددیہ روضتہ العلوم کی بنیاد رکھی ۔آپؒکے آباو اجدادہندوستان سرہند سے آکر سب سے پہلے سورانی اخوندان میں مقیم ہوگئے جناب صاحبزادہ رضوان اور ربانی صاحب اب بھی علاقہ سورانی میں آبادہیں جبکہ آپؒکے والد بزرگوار مندیو آئے اور یہاں کے لوگوں نے بطورِ عقیدت آپ کے والد محترم کو کافی زمین نذرانے میں دیدی۔آپ کا شجرہ ٔنسب تقریباً سنتا لیسویں پشت میں امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقؓ سے ملتا ہے۔
حضرت فضل ولی صاحب ایک امن پسند انسان تھے۔بہت سے لوگوں کے درمیان اللہ کی رضا کیلئے صلح و صفائی کے کام کئے ہیں۔علاقے کے سارے لوگ آپ کی بہت عزت کرتے تھے۔کوئی آپ کی بات کو نہیں ٹالتا تھا۔ 2 جون2102 کو دو فریقین کے درمیان ایک لڑائی میں صلح کرنے کی کوشش میں دوران لڑائی شدید زخمی ہوئے اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوگئے۔ا ٓپ کی وفات پربنوں کی ہر آنکھ اشک بار تھی آپ کے ہزاروں عقیدت مند آپ کے جنازے میں شرکت کیلئے ملک اور بیرون ملکوں سے فورا آئے اور لاکھوں لوگوں نے آپ کے جنازے میںشرکت کرکے آپ کو دفن کیا۔ اللہ مرحوم کی قبر کو نور ِ رحمت سے بھر دے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملک دلباز خان آف داؤد شاہ
نا چیز نے اپنے والد محترم سے اس شخصیت کے بارے میں بہت سنا ہے۔1930ء میں علاقہ مشر داؤد شاہ میں پیدا ہونے والے بنوں کے اس بہادرسپوت نے تحریک آزادی میں بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔موصوف کے والد محترم کا نام حاجی عبدالرحمن تھا۔جو اپنے علاقے کا سردار تھا۔ملک دلباز خان نے کئی سرکاری نوکریوں سے استعفے دیئے اور سیاست کو عباد ت سمجھ کر تحریک آزادی کی سیاسی جنگ میں شامل ہوگئے۔
جب1964ء کو مادر ملت بنوں آئی تو آپ کو اس سے ملنے کاشرف حاصل ہوا۔ سیاست میں کئی بار جیل گئے لیکن کبھی بھی اپنی پشتون روایات کو پس پشت ڈال کر سر نہیں جھکایا ۔ مشہور ہے کہ سماجی اور سیاسی لحاظ کی وجہ سے بے وجہ آپ کو شہید کر دیا گیا۔موصوف پشتو ادب کے ایک بہترین شاعر بھی تھے۔ڑنگہ خونہ کے نام سے آپ کا پشتو شعری مجموعہ منظر عام پر آچکا ہے۔ موصوف پشتو رسم و رواج کے حامل انسان تھے۔
________________
خلیفہ گل نواز
خلیفہ گل نوازمرحوم علاقہ سورانی میں یار خان درانی کے گھر میں پیدا ہوئے۔آپ محمد اکبر خان میر خلافت کمیٹی علاقہ سورانی کے بھانجے تھے۔ جنرل حبیب اللہ خٹک،یوسف خٹک، کلثوم خٹک خلیفہ گل نواز کی پھوپھی زاد بھائی اور بہن ہیں۔خلیفہ صاحب نے تحریک آزادی میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ آپ کی بہادری کے قصے اکثر کتابوں کی زینت ہیں۔حاجی صاحب میرزاعلی خان المعروف ایپی فقیر کے دستِ بازوتھے۔ فقیر ایپی کو آپ پر بے انتہا اعتماد تھا۔یہی وجہ تھی کہ ایپی فقیر نے آپ کو اپنا حلیفہ نامز دکیا اور اکثر اوقات آپ کو لشکر کا کمان دے کر گوریلا جنگوں اور حملوں کیلئے بھیجا تھا۔ اور آپ نے اعتماد سے بڑھ کر ایپی فقیر کو Response دیا۔
اکرم خان درانی اور مئیر بنوںعرفان درانی آپ ہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیںاور ملک و قوم کی خدمات کر رہے ہیں۔1958 ء میں فقیر ایپی حاجی میرزاعلی خان کا یہ جانباز غازی اس دنیا سے رخصت ہوکر علاقہ سورانی میں دفن ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سینیٹر فرید اللہ خان وزیر
جھنڈوخیل کے ساتھ علاقہ اسپرکہ سدروان میں احمد زئی وزیر کا ایک قبیلہ آباد ہے جن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ملک فرید اللہ خان جسے قابل انسان کو جنم دیا۔ بچپن سے آپ میں لیڈرشپ کی خوبیاں تھیں ۔1972 ء میں پشاور یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری لیکر1976ء کو واپس آئے اور علمی سیاست میں حصہ لینا شروع کردیا۔آپ کے دادا جان محترم جناب غازی مرجان خان کی وفات کے بعد آپ کے والد محترم نصر اللہ خان وزیر اپنے علاقے کے مشر اور سردار بنے ۔ نصر اللہ جان کی وفا ت کے بعد موصوف فرید اللہ تما م وزیری قبائل کے متفقہ طور پر مشر اور سردار بنے فرید اللہ خان میں پشتون روایات کی بہت سی خوبیاں ہیں۔وزیر قبائل کے لیے آپ کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔ موصوف پاکستان سینیٹ کے ممبر بھی رہ چکے ہیں۔ماضی میں کئی بڑے بڑے سیاستدان آپ کے آستانے پر آئے ہیں۔ غریبوں پر ترس کھانے والے خود دار انسان تھے۔ جنوبی وزیرستان علاقہ شگئی میں ایک مزائل حملے میں شہید ہوگئے۔ آپ کے بیٹے تیمور فریدمیں بھی آپ جیسی خوبیاں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا حضرت علی عثمانی صاحب ؒ
موصوف جب بقید حیات تھے تو نا چیز کو خود ان سے ملنے کا شرف حاصل ہوا تھا۔ ایک نہایت متقی،پرہیز گار اور نیک انسان تھے۔ بہت ہی دھیمی آواز میں گفتگو فرماتے کوئی بھی جب ایک بار آپ سے ملتا تو دوبارہ ملنے کی تمنا کرتا۔
مولاناصاحب قیام پاکستان سے پہلے1921ء میں کوٹکہ عبدالعلی خان شکر اللہ حسین منڈان میں جناب مولاناعبد العلی صاحب دیوبندی کے گھر میں پیدا ہوئے ۔موصوف مفتی بھی تھے موصوف جب دیوبند سے فارغ ہوئے تو 1963ء میں ڈسٹرکٹ خطیب بنائے گئے اور یہ اعزاز اُن کو حاصل رہا کہ سب سے زیادہ عرصہ بنوں کے خطیب رہے۔2006ء میں آپ اس عہدہ سے سبکدوش ہوگئے۔موصوف حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے مرید خا ص تھے جو سلسلہ چشتیہ سے منسلک تھے ۔1983ء میں آپ نے مدرسہ جامعہ علوم شریعہ رجسٹرڈ کی بنیاد رکھی ۔اور اس مدرسے کے پہلے مہتمم رہے۔موصوف مدرسہ میں درس بھی دیتے تھے۔جہاد افغانستان کے امیر ملا عمر صاحب تقریباً 80 دہائی میں آپ کے شاگرد ِخاص رہے۔آپ کے محبوب اساتذہ کرام میں شیخ الہند مولانا محمود الحسن صاحب، شیخ العرب سید حسین احمد مدنی صاحب، شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق صاحب(اکوڑہ) اور جناب شمس الحق افغانی صاحب شامل تھے۔موصوف16 اکتوبر 2011 ء کو فوت ہوئے اور علاقہ ٹپی کلہ میں کبیر بابا کی قبرستان میں دفن ہوئے۔آپ کے فرزندوں میں محمد انور شاہ عثمانی آپ کے جانشین مقرر ہوئے۔
ملک دلنواز خان بارکزئی
ٍ 3 اپریل 1965ء کو علاقہ بارکزئی میں ملک ممتاز خان کے گھر میں پیدا ہونے والے ملک دلنواز خان کے دادا کا نام ملک اکبر زمان خان تھا جو سارے میری اقوام کا مشر اور سردار تھا ۔ ملک دلنواز خان ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان ہیں۔قوم میر ی کے جتنے بھی خیل ہیں موجودہ وقت میں موصوف ان کے مشر اور سردار ہیں۔ قوم میری کی سرداری کی پگڑی آپ کے خاندان کی میراث ہے۔آ پ کے والد محترم جب2000ء میں فوت ہوئے تو اپنی قوم اور تما م ’’میری اقوام ‘‘کی سرداری کی پگڑی آپ کو پہنائی گئی۔ اپنے والد کے نقش قدم پرقدم رکھ کرموصوف نے کافی نام کمایا۔نہایت سادہ زندگی گزارنے والا ملک دلنوازخان بنوسئی پشتون کے روایاتی لباس میں ملبوس ایک نہایت ہی باکردارانسان ہیں ۔و سوال پشتون روایات اور دین اسلام کے مبلغین اور دعوت تبلیغ سے حد درجہ عقیدت رکھتے ہیں۔بنوں کے مذہبی راہنما حاجی فضل ولی مرحوم آپ کے دست ِ بازو تھے۔ جب ہم موصوف سے ملے تو آ پ اپنے دوست فضل ولی مرحوم کو بہت یاد کرتے رہے۔ موصوف کے ایک بھائی ملک اقبال خان ہے جو آپ کی غیر حاضری میں قوم میری کی سربراہی کرتا ہے۔اپنے علاقے کے علاوہ بنوں کے دیگر علاقوں کے لوگوں کے ساتھ بھی موصوف کا اثر و رسوخ ہے۔ اللہ کی رضا کیلئے دو مسلمان بھائیوں کے درمیان صلح و صفائی کا کام کرنا آپ کا شیوہ ہے۔ جب تک صلح نہیں ہوتا آپ چین سے نہیں بیٹھتے۔ ملک دلنواز خان موجودہ دور میں اپنے علاقے کی سرداری کے ساتھ ساتھ بارکزئی کا ڈسٹرکٹ ممبر بھی ہیں۔آپ نے سیاست میں بنوں کی تعمیر و ترقی کیلئے حصہ لیا۔سیاست کو عباد ت سمجھ کر اپنے علاقے کے لوگوں کی خدمات کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ بنوں کو اس طرح نیک،خدا ترس،پشتون روایات کے حامل اور بہادر سپوت عطا فرماتے رہیں۔بنوں کے دیگر اقوام کے ثالثان کو موصوف کی زندگی اپنانی چاہیے۔
غلام اسحاق خان مرحوم(سابق صدر پاکستان)
بنوں نے جہاں پشتو رسم و رواج،اسلامی تعلیمات کے شیدائی اور محب وطن سپوت پیدا کئے ہیں وہاں سیاست کے میدان اور بیوروکریٹس کی فہرست میں بھی بہترین لوگ شامل ہیں جنہوں نے بین الا قوامی سطح پر بنوں کا نام روشن کیا ۔ ایسے ہی لوگوں میں ایک نام سابق صدر پاکستان غلام اسحاق خان کا بھی ہے۔ضلع بنوں کے موضع اسماعیل خیل میں پیدا ہونے والے غلام اسحاق خان کی پرورش ان کے ننھیال میں ان کے دادا خان صاحب عطا محمد خان نے کی تھی۔ موصوف بچپن ہی سے قابل تھے اسی وجہ سے مختلف بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہوتے رہے سب سے پہلے تحصیلدار بھرتی ہوئے تھے۔اس کے بعدسیکر ٹری وزیراعلیٰ صوبہ خیبر پختونخوا، ہوم سیکرٹری ،سیکرٹری اطلاعات مغربی پاکستان،1961ء میں واپڈا کے چیف مقرر کئے گئے،1966ء میں سیکرٹری خزانہ مقرر ہوئے ، 1975ء میں سیکرٹری دفاع مقرر ہوئے۔1985ء میں ہلال پاکستان کا اعزاز حاصل کیا۔ موصوف سینیٹ آف اسلامی جمہوریہ پاکستان کے چیئرمین رہے۔کئی بار قائمقام صدر پاکستان رہے۔ ضلع بنوں کی واحد شخصیت تھی جن کو اتنے عہدوں پر فائز ہونے کا اعزاز حاصل رہا۔ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے میں آپ کا کردار قابل ستائش ہے۔ جس کا ذکر خود ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بھی کیا ہے۔ چند سال پہلے آپ کا انتقال ہوا ۔اتنے بڑوں عہدوں کے باوجود بنوں کے لیے کچھ بھی نہیں کیا ہے۔جو افسوس ناک امر ہے۔
____________________
ملک آدھمی رسول خان عَبید خیل
ضلع بنوں کی زمین کبھی بھی مہمان نواز اور اعلیٰ پشتون روایات سے خالی نہیں ہوئی ۔ موضع جھنڈو خیل کے علاقہ آدھمی میں قبیلہ عَبید خیل بنوسیان میں ملک ایوب خان آدھمی،ملک دراز خان جھنڈوخیل،ملک شیر دل خان،ملک مائینل خان،ملک ممہ جان خان،ملک میر دراز خان، ملک سربلندخان جیسے مشران پیدا کئے ہیں۔ان ہی میں سے ایک کا نام ملک آدھمی رسول خان کا بھی ہے۔آپ کی پیدائش 23اگست1898ء کو ہوئی ۔بچپن ہی سے آپ میں بہادری اور مہمان نوازی کے اوصاف موجود تھے۔جوان ہوتے ہی پورے بنوں میں آپ نے ایک نام کمایا اور جلد ہی اپنے قبیلے عَبید خیل کے سردار اور مشر بن گئے۔آپ ایک بہادر اورلیڈرشپ کے حا مل انسان تھے۔
ایک وقت تھا کہ آپ نے اپنے علاقوں میں پگڑی لازمی کی ہوئی تھی اور باقاعدہ اعلان کیا تھا کہ اگر علاقہ میں کسی کو بھی بغیر پگڑی کے دیکھا گیاتو اس کی خیر نہیں ہوگی۔اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ موصوف پشتون روایات کے کتنے دلدادہ تھے۔ملک رسول خان آف آدھمی جیسے ہمارے قبیلے میں رسول خان بابا کے نام سے پکارا جاتا تھا ایک مہمان نواز انسان تھے۔آپ نے اپنی زندگی کے آخری آیام علاقہ نار شیر مست میں اپنے بیٹوں کے ساتھ گزارا۔1970ء کو اس دار فانی سے رخصت ہوگئے۔موصوف راقم الحروف کے والد محترم کے کزن تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملک بہاد رخان ( بوزید خیل سورانی)
موصوف اپنے علاقے سورانی کے بوزید خیل کے مشر اور سردار رہے۔موصوف اسم با مسمیٰ تھے کیونکہ نہایت بہادر اور دلیر انسان تھے۔ جرأت، ذہانت اور تفکر آپ کو وراثت میں ملی تھی آپ صوبائی اسمبلی کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔ اپنے دور میں آپ نے صوبائی اسمبلی کے فلور پر بنوں کے اکثر مسائل اجاگر کئے تھے۔ خصوصا ًدریائے کرم کے بارے میں، جس کی طغیانیوں نے بنوں کا کافی زرخیز علاقہ تباہ کیا ہے۔علاقہ سورانی،کوٹ عادل،کوٹ براڑہ تا جھنڈوخیل ایک سال دریائے کرم نے ان تمام علاقوں کے فصلوں کو نیست و نابو د کیا تھا۔ارباب اختیار سے اب بھی اس طرف توجہ کی ضرورت ہے۔اگر دریائے کرم کے درمیان میں ایک بڑی نہر کھودی جائے یا ڈیم بنایا جائے تو کافی زمین قابل کاشت کی جاسکتی ہے۔ملک بہادر خان کے دل میں بنوسیان کے تما م اقوام کا درد تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملک دمساز خان آف بازار احمد خان
1899ء کو بازار احمد خان میں پیداہوئے۔ پاکستان مسلم لیگ کے ضلعی صدر اور سرگرم رکن تھے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی خان نے آپ کی دعوت پر بنوں کا دورہ کیا۔ تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ،1948ء میں آزادی ٔکشمیر میں بھی حصہ لیا اور غیر معمولی کارنامے سر انجام دیئے۔1965ء میں بنوں سے قومی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہوئے۔پشتون روایات کے حامل ملک دمسازخان میں بنوسوال پشتون کے اوصاف موجود تھے۔موصوف کی وفات کے بعد سابقہ ڈسٹرکٹ ناظم بنوں ملک اقبال خان آپ کے جانشین مقرر ہوئے۔ موجودہ دور میں ان کی وفات کے بعد اس خاندان کی اہم شخصیت ملک مصطفی خان ہیں جو ایک اعلیٰ اخلاق کے حامل انسان ہیں۔
__________________
سخی جان وزیر
وزیر کے شاخ اتما زئی کی یہ شخصیت علاقہ جانی خیل میں پیدا ہوئے۔1951ء میں پاکستان مسلم لیگ کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے ممبر منتحب ہوئے۔وزیر کے اکثر قبائل آپ پر بہت اعتماد کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ نے بھی حتی الواسع وزیر قبائل کی ہر قسم کی مدد کی ۔موصوف میں پشتون روایات کے تمام اوصاف موجود تھے۔سادہ ،خوش اخلاق اور نیک انسان تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قاری حضرت گل
ایک نہایت خود دار اور متقی انسان مولانا مہر گل صاحب جو فارغ التحصیل دیوبند تھے، ان کے گھر میں 1949ء کو بازار احمد خان میں پیدا ہوئے۔خان ضمیر خان سے آپ کی تعریف بوساطت احسان اللہ خٹک سن کر بہت متاثر ہوا۔قیام پاکستان کے بعد موصوف نے سب سے پہلے صحیح معنوں میں ضلع بنوں میں صحافت کی ابتدا کی ۔ترجمان حق کا ہفت روزہ آپ کی مرہون منت تھا۔طاہر کلاچوی صاحب کا پشتو شعری مجموعہ کلام د مینی غیگ کا دوسرا ایڈیشن اس وقت آپ نے شائع کرکے ادب دوست ہونے کا ثبوت دیا۔
آپؒدین اسلام سے محبت کرنے والے انسان تھے۔اپنی مسجد میں درس و تدریس بھی دیتے تھے۔اس کے ساتھ ساتھ موصوف ایک قابل اور سینئرترین صحافی بھی تھے۔بنوں پریس کلب بنوں کی جو عمار ت آج کھڑی ہے اس میں آپ کاکردار کسی سے چھپا نہیں ہے۔
______________________
گلستانِ ادب (طاہر کلاچوی)
پہ زیاتوب د چا کیلی مہ کڑہ طاہرہ میوہ دار شجر پہ کانڑو یشتہ کیگی
ترجمہ: اے طاہر! کسی کی زیادتیوں سے دلبرداشتہ نہ کیونکہ پھل دار درخت کوعموماً پتھرمارے جاتے ہیں۔
طاہر کلاچوی ڈیرہ اسمعیٰل خان کے علاقے کلاچوی میںفقیرمحمد خان سرور قادری کے گھر میں 1918ء میں پیدا ہوئے۔آپ کا شجرۂ نسب مشہور بزرگ حضرت گیسو دراز سے ملتا ہے۔ علاقہ بنوں روزگار کے سلسلے میں آئے اوریہاں کے ہو کر ہو گئے۔2 مئی1956ء کو ضلع بنوں میں پہلی پشتو ادبی تنظیم بنائی۔اگر چہ بنوں کے کچھ احسان فراموش ادبی دوشمنوںنے آپ کا جینا حرام کر دیا تھا لیکن آپ نے اپنا کام جاری رکھا اور ان انا پرستوں پر کوئی توجہ نہیں دی۔واضح رہے کہ یہ موصوف کے وہی دوست تھے جن کو ادب کی الف ،ب معلوم تک نہیں تھی موصوف نے انہیں سب کچھ سکھایا اور پھر یہی لوگ آپ کے جانی دشمن بن گئے۔
آپ نے کئی کتابیں شائع کر کے بنوں پر بہت بڑا احسان کیا۔پشتو کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی آپ کافی مہارت رکھتے تھے۔اردو کے بہترین شاعر مقبول حسین شاہ عامر موصوف کے شاگرد خاص رہے۔د مینی غیگ،مضراب،دَحسن لمن آپ کے پشتو شعری مجموعے ہیں جبکہ خندائے گل آپ کا اردو شعری مجموعہ ہے۔پشتو کے بابا ئے غزل امیر حمزہ کے آپ کے ساتھ دیرینہ تعلقات تھے۔کئی مرتبہ آپ سے ملنے بنوں آئے تھے بنوں میں پشتو ادب کے حوالے سے جو لوگ دعویٰ کر رہے ہیں وہ سب کے سب غلط اور من گھڑت باتیں کر رہے ہیں بنوں ادب کے شاہ سوار اور بانی صرف اور صرف طاہر کلاچوی صاحب تھے۔موصوف کی وفات کی بعد آپ کو اپنے آبائی قبرستان علاقہ کلاچوی میں دفن کیا گیا آپ کا سارا کلام اردو اور پشتو کلیات کی شکل میں کلیات طاہر کے نام سے عمر دراز مروت نے شائع کیا ہے۔
منشی احمدجان (مرحوم)
منشی احمدجان کاتعلق ضلع بنوں کے زرخیرومردم خیزعلاقے فاطمہ خیل سے تھا۔منشی احمدجان کے والدقاضی عبدالرحمن غزنی افغانستان کے قلاں نامی گاؤں میں رہتے تھے۔ قاضی عبدالرحمن کے والدکانام غلام قادرتھا۔ غلام قادرکے چاربیٹوں میں قاضی عبدالرحمن سب سے بڑے تھے۔ قاضی عبدلرحمن اپنے چھوٹے بھائی خدائے نظر کے ساتھ علم کے حصول کیلئے ہندوستان چلے گئے۔ ہندوستان سے واپسی پرجب بنوں پہنچے تو قاضی عبدالرحمن وہاں ٹھہرے اورایک سکول میں عربی اورفارسی کے اُستادمقررہوئے جبکہ خدائے نظرواپس غزنی چلے گئے۔قاضی عبدالرحمن نے یہاں شادی بھی کی اور1899ھ میں یہاں وفات پاگئے"۔منشی احمدجان مذکورہ قاضی عبدالرحمن کے گھرستمبر1882ء میں فاطمہ خیل میں پیدا ہوئے ان کوعلم واَدب اپنے والدسے وراثت میں ملی کیونکہ اُن کے والدقاضی عبدالرحمن نے مسیحی مشن کیلئے بنوں میں بہت خدمات انجام دی تھیںجان بنیان کی کتاب Pilgrim Progressکاسیرالسالکین کے نام سے پشتومیں ترجمہ کیاتھا۔اس کے علاوہ عبرانی زبان کی مذہبی کتاب عہدنامہ قدیم پشتومیں ترجمہ کی۔ ڈاکٹر جاویدخلیل اپنے پی ایچ ڈی مقالے "پشتواورمستشرقین''میں لکھتے ہیں’’منشی احمدجان نے لڑئی جھگڑوں کاوہ دوراپنی آنکھوں سے دیکھاجس میں انگریزاس کوشش میں تھے کہ اس سرحدی علاقے کواِن طاقتوں سے آزاد کروائیں جویہاں کے اردگردپھیلے ہوئے ہیںاس کوشش کو کامیاب بنانے کیلئے انگریزوں نے یہاں کی مقامی لوگوں سے مددلینے کی تدبیرسوجھی۔وہ اِن لوگوں کی زبان تہذیب وتمدن اور ثقافت سے واقفیت چاہتے تھے دوسرے مقامی لوگوں کی طرح منشی احمدجان نے بھی اپنی خدمات پیش کردیں۔ بہت ہی کم عمرمیں وہ مترجم کے طورپرلئے گئے بعدمیں اُستادکے طورپرشہرت پائی۔اِس وقت انگریزفوجی افسروں کوپشتوزبان کاامتحان پاس کرنا لازمی تھا۔ایک انگریزافسرایم سی ھنیکراپنی کتاب میں منشی احمدجان کی تعریف اِن الفاظ سے کرتے ہیں’’میں نے اپنے دوستوں سے مشورہ کیاکی کونسا اُستادمیرے لئے بہتر ہوگا سب نے بالاتفاق منشی احمدجان کانام لیاوہ ہرطرح سے ایک قابل وکامل اُستادتھے۔ اُن کے درس وتدریس کاطریقہ بہت نرالا تھا‘‘۔ منشی احمدجان کواپنی محنت اورقابلیت کی بناء ربرطانوی حکومت نے خان بہادر اور ممبر آف برٹش کے خطابات سے نوازا۔اِن خطابات کے ساتھ ساتھ ساتھ نقدانعام اورزمینیں بھی عطاکی جاتی تھیںلیکن اُنھوں نے وہ قبول نہ کیں۔منشی صاحب نے کنٹونمنٹ بورڈ پشاورمیں ملازمت کے ساتھ ساتھ درس وتدریس کامشغلہ بھی جاری رکھا۔منشی احمدجان نے جدیدپشتو نثرمیں شہرۂ آفاق کتب ’’دَقیصہ خوانئی(ƒ شپ‘‘ (قیصہ خوانی میں گپ شپ) اور’’ھغہ دغہ‘‘ (اِدھراُدھرکی باتیں) تحریرکرکے پشتواَدب کوسادہ،سلیس اورعمدہ نثرکاتحفہ دیا۔مذکورہ بالاکتب میں ’’دَقیصہ خوانئی(ƒ شپ‘‘ پشاوریونیورسٹی کے ایم اے پشتوکے نصاب میں بھی شامل ہے۔ اِس کے علاوہ’’ تاریخ افغانستان‘‘کابھی انگریزی زبان سے پشتومیں ترجمہ کیا۔اِس کے علاوہ انگریزی پشتوگرائمر، اُردو پشتو گرائمر اورپشتوضرب الامثال بھی تحریرکی ہیں ہمیش خلیل کے مطابق بہت زیادہ تمباکونوشی کی وجہ سے منشی احمد جان گلے کے سرطان میں مبتلاہوئے اور 19 اکتوبر1951ء کو وفات پاکرنوتھیہ پشاور کے قبرستان میں دفن کئے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملک نقیب اللہ خان میرزاعلی خیل
ملک حبیب خان کے بیٹے،ملک حمید اللہ خان کے بھتیجے اور ملک صالح خان منڈان کے نواسے تھے۔ صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ رہ چکے ہیں۔ موصوف انتہائی ملنسار اور مہمان نواز انسان تھے۔آپ کی مہمان نوازی سارے بنوں میں مشہور تھی۔ ایک وقت میں منڈان کے تما م خیلوں کے مشر او ر سردار بھی تھے۔بنوں کے بااثر لوگوں میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔موصوف غرور و تکبر سے کوسوں دوررہیں۔مجھے خود موصوف کی مہمان نوازی نے بہت ہی متا ثر کیا ۔غریبوں کے ساتھ غریب اور امیروں کے ساتھ امیر ،بچوں کے ساتھ بچے اور بڑوںکے ساتھ بڑے تھے۔موصوف چیف آف بنوں تھے کچھ سال پہلے دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔
ملک مائینل خان
راقم الحروف کے قبیلہ عَبید خیل یا عَبیت خیل میں ملک مائینل خان ایک اہم شخص گزر ا ہے۔ملک رسول خان آدھمی کے انتقال کے بعد موصوف عَبیدخیل قبیلے کے متفقہ طور پر مشر اور سردار بنا ئے گئے۔پشتون روایات کے حامل اس کی شخصیت انتہائی متا ثر کن تھی۔نا چیز کے والد محترم کے کزن (تربور) تھے۔سر پر خاکی پگڑی اور کھلی بنوں وال چپلیاں استعمال کرتے تھے۔سارے بنوں میں موصوف کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ جس جھگڑے میں آپ ثالث بن جاتے تو وہ صلح ضرو ر بہ ضرور ہوتا اور کسی کی جرات نہیں ہوتی کہ اس صلح کو توڑے۔ بنوں کے علاوہ وزیرستان کے اکثر لوگ بھی آپ سے ہی صلحے کرواتے ۔ راقم الحروف خود موصوف سے ملاتھا اور ان کی شخصیت سے بہت متاثر ہوا ۔عمر کے آخری حصے میں جھنڈوخیل سے گئے اور اپنے بیٹے ملک باکمال خان کے ساتھ نار شیر مست میں مقیم رہے چند سال پہلے موصوف انتقال کر گئے۔موصوف کے بعد آج کل عبیدخیل قبیلے کے مشر ماسٹر شیر دراز خان بنائے گئے ہیں۔جو ابھی تک بقید حیات ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملک سیلانی خان شہباز عظمت خیل
ملک سیلانی خان سکندرخیل شاخ سے تعلق رکھتے ہیں۔آپ کے والد کانام ملک احمد خان تھا اور دادا کانام ملک فیض طلب تھا جو علاقہ منڈان سے شہباز عظمت خیل گیا اور وہاں پر مقیم ہوا۔25 مارچ 1919ء کو ملک سیلانی علاقہ شہباز عظمت خیل میں پیدا ہوئے۔ ایک با وقار شخصیت کے مالک ملک سیلانی خان نہایت سادہ زندگی گزارتے تھے۔پشتون رسم و رواج کے شیدائی اس شخص کی مہمان نوازی بھی ضرب المثل تھی۔اپنے علاقے کے مشر اور سردار رہے ۔ 1987ء کے عام صوبائی انتخابات میں حصہ لیا لیکن بعد ازاں سیاست کو ہمیشہ کے لئے خیر باد کہا۔ موصوف کو پرندوں سے کافی شغف تھا۔2007ء میں اس دار فانی سے رخصت ہوگئے۔
جسٹس(ر) دوست محمد خان
جسٹس دوست محمد خان جو ضلع بنوں کے پشتون قبیلہ گلک خیل سے تعلق رکھتے ہیں علاقہ منڈان کے ایک گاوں غونڈیان میں پیدا ہوئے ۔20 مارچ1953ء کو پیدا ہونے والے جسٹس دوست محمد خان تعلیم حاصل کرنے کے بعد وکیل بن گئے۔آپ کے استاد آپ کے چچا حاجی دلاور خان ایڈووکیٹ تھے جو ایک قابل وکیل تھے۔ان کے نقش قدم پر چل کر جلد ایک نام پیدا کیا۔اپنی قابلیت کے بل بوتے پر ہائی کورٹ کے جج مقرر ہوئے۔31جنوری2011ء سے 17 نومبر 2014ء تک پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مقرر کئے گئے۔اس سے پہلے آپ کئی بار پشاور ہائی کورٹ کے قائمقام چیف جسٹس بھی بنائے گئے تھے۔بعد ازاں سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج مقرر ہوئے اور آج کل بھی اسی پوسٹ پر ملک و قوم کی خدمت کر رہے ہیں ۔ سپریم کورٹ کے سینئرججوں میں شمار ہوتے ہیں۔
آپ مہمان نواز ،علم دوست اور پشتو ن روایات کے حامل انسان ہیں۔موصوف اپنے آبائی گاؤں بنوں میں بہت کم آتے ہیں ۔اپنی وکالت کے دوران بھی آپ انتہائی محتاط اور ملنسار انسان تھے۔سپریم کورٹ کے جج بننے کے بعد بھی آپ کی وہی عادات و اطوار ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملک اکبر علی خان سوکڑی (چیف آف پختونستان )
ملک اکبر علی خان کے پر دادا کا نام سوکڑ تھا جو اپنے دور میں اپنے علاقے کا مشر اور سردار تھا۔ملک اکبر علی خان پہلے سرخ پوش تحریک پھر خدائی خدمت گار اور پھر کانگرس سے منسلک رہے۔تحریک آزادی میں آپ کا کردار انتہائی جاندار رہا۔کانگر س کے اجلاس آپ کے علاقے میں ہوتے تھے جس کا سارا خرچہ موصوف برداشت کرتا تھا۔مہمان نواز،باکردار اور دلیر انسان تھے۔ قرارداد پختونستان آپ کے حجرے میں ہی منظور ہوئی تھی ۔جس میں پختونوں کے تمام اکابرین سے شرکت کی تھی۔باچا خان بابانے بھی اس میں شرکت کی تھی۔ آج کل آپ کے بیٹے عرفان اللہ خان اپنے علاقے کے مشر ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد خدا بخش (پہلے مسلمان جج)
منصف کے نام سے مشہور محمد خدا بخش گڑھی شیر احمد میں پیدا ہوئے۔قیام پاکستان سے پہلے کسی مسلمان کا اتنے بڑے عہدے پر براجمان ہونا کوئی آسان کام نہیں تھا ۔علی گڑھ سے ایم۔اے ،ایل ایل بی کر چکے تھے۔سماجی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے بنوں میں کئی سکولوں کیلئے آپ نے مفت اراضی دی تھی۔آپ بنوں میں عربی کے پہلے شاعر تھے۔ صدر ایوب خان کے دور میں آپ کی عربی شاعری کا مسودہ عراقی سفیر متعینہ پاکستان نے ان کے خاندان سے لیکر بغداد ریسرچ سنٹر میں داخل کیا۔چیف آف بوزید خیل سورانی کی پوتی سے آپ کی شادی ہوئی۔بیرسٹر محمد جان،حاجی شیر احمد خان ایڈوکیٹ اور فیض اللہ عباسی آپ کے فرزند ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیرسٹر محمد جان گڑھی شیر احمد
علاقہ گڑھی شیر احمد خان میں خاندان عباسیہ سے تعلق رکھنے والے بیرسٹر محمد جان محمد خدا بخش کے بیٹے تھے۔اصل میں تحریک پاکستا ن کی ابتداء پورے برصضیر میں آپ ہی نے کی تھی یہ دوسرے لوگ تو بعد میں تحریک آزادی کے میدان میں کود پڑے۔آپ کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ مولنٰا محمد علی جوہر خود کئی بار آپ سے ملنے آئے تھے۔وہ کہتے ہیں کہ میں نے انگریزی بیرسٹر محمد جان سے سیکھی ہے۔موصو ف کو یہ اعزاز بھی حاصل رہا کہ کہ اکسفورڈ یونیورسٹی سے آپ نے مختلف مضامین میں ۷ ڈگریاں حاصل کیں تھیں۔1930ء میں موصوف ایم۔این۔اے رہے۔تحریک خلافت کے سرگرم رکن تھے۔کئی بار جیل گئے۔ایک بار کسٹم نامی ایک انگریز افسر نے موصوف کی قابلیت دیکھ کر جیل سے رہا کر دیا۔گسٹم کے نام پر اب بھی بنوں میں ایک پارک ہے۔جسے کسٹم پارک کہتے ہیں۔ مصطفی کمال اتا ترک سے آپ کے نہایت قریبی تعلقات تھے۔قیام پاکستان کے بعد آپ کی قابلیت کی تعریف کرتے ہوئے آپ کو ایک خط لکھا اور اس میں ترکی آنے کی دعوت دیکر ایک بڑے عہدے کی پیش کش کی لیکن آپ نے ٹھکرادیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمداکرم خان درانی
2 مارچ1960ء کو غلام قادر خان درانی کے گھر میں پیدا ہوئے۔کالج کے زمانے سے سیاست سے دلچسپی رکھتے تھے۔ ایل ایل بی کرنے کے بعد عملی سیاست میں حصہ لیا۔کئی بار ایم پی اے رہے جبکہ خیبر پختونخوا کے وزیرا علیٰ کے عہدے پر بھی رہ چکے ہیں۔اپنے دور حکومت میں بنوں میں انتہائی تیز رفتاری سے ترقی یافتہ کام کئے اور بنوں کی ایک پہچان بنائی ۔ جمعیت علما ء اسلام کے مرکزی رہنماؤں میں سے ہیں۔خلیفہ گل نواز کے اس پوتے نے بنوسیان کی ایک الگ پہچان بنائی۔بنوں یونیورسٹی،بنوں میڈیکل کالج،وومن یونیورسٹی بنوں، خلیفہ گل نواز ہسپتال، پاسپورٹ آفس، اکرم خان درانی کالج،بنوں ریڈیو اسٹیشن، دریائے کرم پر کئی پل، سینکڑوں ہائی و ہائیر سیکنڈری سکولز،کئی کالجز،بنوں ہیڈ اور باران ڈیم کی آپ گریڈیشن،لنک روڈ بنوں، کئی نئے گریڈ اسٹیشنز،ایف ۔سی میں بنوسیان پلاٹون کی منظوری،پشاور ہائی کورٹ بنوں بینچ کا قیام اور منظوری ، بنوں پریس کلب بنوں،فضل قادر شہیدؒ پارک،ٹاؤن چڑیا گھر، اڈیٹوریم پارک بنوں، بنوں پبلک لائبریری، بنوں میوزیم وغیرہ آپ کے اپنے دور حکومت کے کارنامے ہیں۔ اب سی۔پیک منصوبہ،انڈسٹری آف سی۔پیک اور بنوں کیڈٹ کالج کے قیام کیلئے سرگرم ہیں۔
بنوں کو جدید بنوں بنانے میں آپ کا کردار ایک روشن ستارے کی طرح ہے۔ موصوف کوخدا اور بھی توفیق دے کہ اسی طرح اپنے علاقے کی ترقی کیلئے کام کرتے رہیںآج کل خیبرپختون خوا اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر ہیں۔موصوف بنوسیان کیلئے اپنی جان تک قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔
انورالحق ایڈووکیٹ
بنوںکی سر زمین نے ہر میدان میں بے شمار سپوت پیدا کئے ہیں جن کی شخصیت اور قابلیت پر ہم فخر کر سکتے ہیں۔ان میں ایک نام انورالحق ایڈووکیٹ کا بھی ہے جنہوں نے بہت کم عر صہ میں وکالت میں بے شمار کارنامے سر انجا م دئیے۔ موصوف10 اکتوبر 1980ء کو علاقہ اسمٰعیل خیل بنوں میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے سکول سے حاصل کی۔ ایف ایس سی اسمعٰیل خیل ہائی سکول سے حاصل کی ۔بی اے کرنے کے بعد اسلامیہ لا ء کالج پشاور یونیورسٹی سے اعلیٰ پوزیشن سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔خوش گفتار اور ملنسار انسان ہے۔دوستوں کے دوست اور یاروں کے یار ہے۔نہایت خدا ترس انسان ہے۔
ایل ایل بی کرنے کے بعدبنوں کچہری میں پریکٹس شروع کرنے کے بعد25 جولائی 2004ء کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کا لائسنس حاصل کیا۔اپنی خداداد قابلیت کی بنا پر 9اگست 2006ء کو پشاور ہائی کورٹ کا لائسنس حاصل کیا۔پاکستان سپریم کورٹ کے لائسنس کے حصول کیلئے۱۰۰ فیصلہ شدہ کیسز اور ۵ رپورٹیڈ کیسز کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ ۱۰ سال پریکٹس بھی ضروری ہوتی ہے۔موصوف کے صرف ۷ سال میں 1700 فیصلہ شدہ کیسزاور82 رپورٹیڈ کیسز تھے۔ جو سارے پاکستان میں ایک ریکارڈ ہے پاکستان سپریم کورٹ نے آپ کی یہ قابلیت دیکھ کر آپ کو ۷ سال پریکٹس پر سپریم کورٹ آف پاکستان کا لائسنس جاری کیا ۔آپ پاکستان کے نامی گرامی وکلاء میں سے ایک ہیں۔کریمنل ، سروسز،سول،رٹ پٹیشنز، لیبرز،الیکشن پٹیشنز اور رپورٹیڈ کیسز کے بے انتہا مہارت رکھتے ہیں۔ جسٹس دوست محمد صاحب جب وکالت کر رہے تھے تو اس وقت موصوف پشاور ہائی کورٹ بار کے جائنٹ سیکرٹری رہ چکے ہیں۔
حاجی عبدالصمد خان (عوامی نیشنل پارٹی)
عبد الصمد خان کے نام سے یہ جانی پہچانی سیاسی شخصیت2مارچ1963ء کو جناب حاجی قمر زمان کے گھر میں علاقہ ہنجل میں پیدا ہوئے۔ایم۔اے پولٹیکل سائنس اور ایل ایل بی کر چکے ہیں۔سیاست میں 1984ء میں عوامی نیشنل پارٹی میں حصہ لیا اور ابھی تک اسی پارٹی سے وابسطہ ہیں۔کئی بار اپنے علاقے کے ڈسٹرکٹ ممبر رہے موجودہ دور میں بھی ڈسٹرکٹ ممبر ہے۔ دوران طالب علمی سے لیکر ابھی تک پارٹی کے لیے بہت سی قربانیاں دی ہیں کئی بار جیل جا چکے ہیںلیکن آپ کی استقلال میں کوئی لغزش نہیں آئی۔موصوف میں لیڈر شپ کے تمام گُر موجود ہیں۔نہایت ادب اور احترام سے لوگوں سے ملتے ہیں اور مسکرا کر بات کرتے ہیںیہی وجہ ہے کہ علاقے کے لوگ بھی آپ پر مر مٹتے ہیں۔
آپ بنوں میں سیاست کے ایک منجھے ہوئے کھلاڑی ہے لیکن ساتھ ساتھ ایک ادب دوست شخص بھی ہے۔انقلابی شعر و شاعری سے بھی خاصی دلچسپی رکھتے ہیں۔آپ ایک اعلی تعلیم یافتہ انسان ہے عوامی نیشنل پارٹی کے مشران کو چاہیے کہ اس ہیرے کو تراشے اور توجہ دے کیونکہ اپنی اخلاقی بل بوتے پر آپ میں ہر شخص کو اپنی سحر میں گرفتار کرنے کا ہنر بدرجہ اتم موجود ہے۔موصوف کے اخلاق ،مہمان نوازی، پشتون روایات،اسلامی اقدار اور ادب دوستی کی وجہ سے راقم الحروف کافی متاثر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزنی خان
اس شخصیت کا تعلق ضلع بنوں کے کالا خیل مستی خان سے تھا نسل سے ترک تھے اور محمود غزنوی کے اولاد میں سے تھے۔خاندانی لحاظ سے آپ انگریزوں کے سخت مخالف تھے۔آپ کے والد محترم الحاج میر صاحب دین خان کا سلسلہ نقشبدیہ سے بیعت تھے اور حضرت مجدد الف ثانیؒ کے مرشد خاص تھے۔آپ نے حضرت مولانا مفتی محمود ؒاورغلام غوث ہزارویؒ کے جمعیت علما ء اسلام پاکستان سے ملکر قومی بیداری میں اہم کردار ادا کیا1970ء کے انتخابات میں آپ کی بدولت جنوبی اضلاع میں جمعیت علماء اسلام نے کامیابی حاصل کی اور مفتی محمود صاحبؒ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ بنے۔کچھ مدت بعد آپ نے جمعیت علما ء اسلام پاکستان نے علیحدگی اختیار کی اور سماجی کاموں میں مصروف ہوگئے۔ادب سے لگاؤکی وجہ سے آپ انجمن ترقی پسند مصنفین گروہ کا بھی حصہ رہے۔زیادہ حساس طبیعت کے حامل انسان تھے اسی لیے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی اور کئی سالوں تک کالج میں طلباء کو پڑھاتے رہے۔محکمہ اطلاعات اسلام آباد میں ڈائریکٹر کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے ہیں۔
ّّّّّ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولوی گلاب دین المعروف وزیرے ملا صاحب
آپ اصل میں احمدزئی وزیر کے قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔دینی علوم سے بہرہ ور یہ شخصیت سوات بابا جی سے قادریہ نقشبندیہ طریقے میں بیعت کی۔آپ عالم، مجاہد اور پیر طریقت اور کامل ولی اللہ تھے۔ گل ایوب سیفی اپنی کتاب تاریخ بنو ں وزیرستان میں صفحہ نمبر 216 پر لکھتے ہیں کہ انگریز افسرنے مسواک اور نماز کا مذا ق اڑایا تو آپ نے اپنے مریدوں جس میں ملا پیوند المعروف محسود ملا بھی شامل تھا کو حکم دیا کہ اس انگریز افیسر کو قتل کیا جائے۔آپ کے شاگردوں نے ایسا ہی کیا اور بنوں چھاؤنی کے اندر اسے قتل کردیا اس کے بعد آپ وزیرستان چلے گئے اور وہاں پر دین اسلام کی سربلندی کے لیے کمر کس لی آپ کے حلقہ اورصحبت سے بہت سے علماء و عام لوگ فیض یاب ہوئے ۔دین اسلام کا یہ عظیم سپاہی اور انگریز وں کا جانی دشمن بالآخر شمالی وزیرستان حیدر خیل میں فوت ہوئے اور وہاں ان کو دفن کیا گیا لیکن کچھ عرصہ بعد بنوسیوں نے انہیں وہاں سے نکال کر بنوں لے آئے اور اپنے علاقے مہمند خیل بنوں میں دفن کیا ۔
ملک زنگی خان وزیر
چیف آف مداخیل وزیر اور اتمان زئی وزیر قبیلے کے مشہور ملک اور طاقت ور شخصیت گزرے ہیں۔انگریز وں سے انہیں سخت نفرت تھی اور فرنگی بھی جانتے تھے لیکن ان کی قبائلی طاقت کی وجہ سے انگریز ان کے خلاف قدم اٹھانے سے کتراتے تھے۔زنگی خان ایک مدبر او ر حالات کا رخ جاننے والا ملک تھا ان کی اسی وصف نے انہیں اپنے قبیلے میں نمایاں مقام عطا کیا تھا ۔ہر کوئی
ا ن کی عزت کرتا تھا اور ان پر اپنا سر قربان کرنے کے لیے تیار رہتا وزیرستان کے اکثر قبائل ملک کی بہت عزت کرتے تھے وہ صرف وزیروں کا نہیں بلکہ بنوسی،داوڑ،محسود،گربز اور دوسرے پشتون قبائل میں یکساں مشہور تھے ان کی مہمان نوازی بھی کافی مشہور تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولوی عبدالجلیل
آپ دیوبند سے فارغ التحصیل تھے ۔تحریک خلافت کے سرگرم رکن تھے کانگریس میں کافی اثر ورسوخ کے مالک تھے واقع سپینہ تنگی کے ہیرو فضل قادر شہید کے ماموں تھے۔انگریزوں سے نفرت کی وجہ سے واقع سپینہ تنگی کے بعد آپ ملک زنگی خان وزیر کے پاس چلے گئے اور وہاں ان کے مہمان بنے کئی عرصہ وہاں رہے اور زنگی خان وزیر نے ان کا ہر قسم کا خیال رکھا اور پشتون روایات کو کبھی پامال نہ ہونے دیا انگریزوں پر کئی حملے کئے بنوں چھاؤنی سے باہر انگریزی فوج جب بھی جاتی تو مولوی صاحب ان پر حملے کا منصوبہ بناتے۔انگریز وںنے مولوی صاحب کے خلاف گوریلا کاروائی کرنے کا منصوبہ بنایا ادھر مولوی صاحب کو پتہ چلا تو چونکہ وہ اکیلا تھا ان کے شاگرد اتنے نہ تھے کہ انگریز کا کھلم کھلا مقابلہ کرسکے اور نہ ان کے پاس گولہ بارود تھا تو مجبورا زنگی خان وزیر کے کہنے پر وہ افغانستان چلے گئے اور موقع کے تلاش میں رہے لیکن قدرت کو کچھ اور منظور تھا اور ان کا وہی انتقال ہوا اور وہاں پر انہیں غزنی کے قبرستان میں دفن کر دیا گیا ۔
ڈاکٹر نصر اللہ جان منڈان
علامہ اقبا ل کے کہنے پر لاہور پنجاب میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد موصوف کا سب سے بڑا کارنامہ تھا ان دنوں موصوف وہاں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔جس وقت مسلم لیگ بنی اس وقت ڈاکٹر صاحب طالب علم تھے۔ڈاکٹر صاحب کو یہ فوقیت حاصل ہے کہ وہ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے پہلے سینئر وائس پریزیڈنٹ منتخب ہوئے اور یہ بنوں کے لیے کسی اعزاز سے کم نہ تھا اور اسی حیثیت سے 1940 کو مسلم لیگ کے تاریخی جلسے میں شرکت فرمائی تھی۔آپ انجمن حقوق ضلع بنوں اور پاکستان میڈیکل ایسویسی ایشن بنوں اورٹی بی ایسویسی ایشن کے صدر بھی رہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نواب زادہ رحمدل خان
ایک قابل وکیل ہونے کے ساتھ سیاست میں بھی دلچسپی رکھتے تھے گورنمنٹ کالج لاہور سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی اور بنوں میں وکالت شروع کی ۔بار ایسویسی ایشن کے بنوں کے تین بار صدر منتخب ہوئے۔ڈسٹرکٹ ممبر بھی رہے اس کے علاوہ مسلم لیگ کے ٹکٹ پر مغربی پاکستان اسمبلی کے 1965ء میں بلا مقابلہ ممبرمنتخب ہوئے تھے موصوف ایک شعلہ بیان مقرر بھی تھے۔وکالت میں قابلیت کے ساتھ ساتھ ایک نیک اور خدا ترس انسان بھی تھے کئی مقدمات غریب عوام کے لیے بلامعاوضہ لڑے تھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر پینل
آپ کااصل نام ڈاکٹر تھیوڈورلائٹین پینل تھا جو اصل میں برطانیہ کے رہنے والا تھا یہ وہی پینل تھا جس کے نام پر آج بھی بنوں میں ایک سکول قائم ہے آپ ایک قابل سرجن ڈاکٹر تھے بنوں مشن سکول کا اجراء 1868ء میں ہوا تو اس کے پہلے منتظم تھے ان کے ساتھ پادری ٹی جے مئیر پہلے پرنسپل تھے1898 تک یہ سکول صرف مڈل تک رہا مگر اس کے بعد ڈاکٹر پینل نے اسے نویں اور دسویں جماعتوں تک بڑھایا دیا اسی طرح ڈاکٹر پینل کی خدمات کو دیکھ کر 1912ء میںبنوں چرچ کے مشنری نے ڈاکٹر پینل کی والدہ ماجدہ کی یاد میں ایک ہسپتال کی منظوری دیدی جو آج بھی بنوں میں مشن ہسپتال کے نام سے قائم ہے ۔ڈاکٹر پینل ایک غیر مسلم عیسائی تھے لیکن خدمت خلق کو اپنا شعار بنایا تھا وہ نہایت ملنسار اور انسان سے محبت کرنے والے ڈاکٹر تھے21مارچ1912 ء کو ڈاکٹر پینل کا انتقال ہوا ۔ان کے بنائے گئے پینل سکول اور مشن ہسپتال سے آج بھی لاکھوں لوگ مستفید ہو رہے ہیں۔
___________________
ملک محمد جان المعروف ممہ جان ملک
موصوف راقم الحروف کے دادا جان تھے اپنے علاقے کے مشرتھے۔بقول ملک میردراز کے، آپ نہایت شریف النفس اور مہمان نواز انسان تھے اپنے مہمانوں کے لیے گھر میں علیحدہ گائے اوربھینسیں پالتے تھے گاؤں میں جب بھی کوئی مسافر آتا تو آپ کے چوک (حجرے ) کا رخ کرتے اور آپ ان کی مہمان نوازی کرتے اگر آپ نہ ہوتے تو آپ کے حجرے میں آپ کے ہمسایہ ہوتے جو صرف یہ کام کرتے کہ باہر کے مسافروں اور مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے اور حجرے کی صفائی وغیرہ کرتے۔تپہ عبیدخیل کے مشر اور ملک دوست محمد خان کے فوت ہوجانے کے بعد ملک ممہ جان اس تپہ کے ملک اور مشر بنے۔آپ میں لیڈر شپ کی خوبیاں موجود تھی یہی وجہ تھی کہ آپ کے اپنے ہی آپ کے دشمن بن گئے ۔1928ء میں آپ نے زمینوں کی سیرابی کے لیے اپنے قبیلے کے قریبی دوست ملک ایوب خان دھمی اور لوڑے میلے کے وزیر قبیلے کے دوست ملک جان وزیر کو بغیر معاوضہ کے پانی دیا جس پر ان کے اپنے چچازاد بھائی ان سے ناراض ہوئے اور ان کے خلاف ہوگئے اور یوں اپنے ہی کے ہاتھوںدوران نماز انہیں شہید کر دیا گیا۔آپ کی شہادت کے بعد آپ کے بھائیوں نے آپ کا قصاص کچھ سال بعد لے لیا اوریوں دشمنی کا یہ سلسلہ جو اپنو ں کے درمیان تھا شروع ہوا۔نوے کی دہائی میں کافی قتل و مقاتلے کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اپنے ہی قبیلے کے مشران اور بنوں کے بڑے بڑے ملکوں خاص کر میلاگان کے مشران سے یہ سلسلہ ختم ہوا اور صلح ہوگئی اسی طرح دو دشمن پھر سے بھائی بھائی ہوگئے۔ملک ممہ جان کی قبر مبارک علاقہ بہرام شاہ جھنڈو خیل میں ہے ان کے بیٹوں میں ملک عنایت اللہ خان اور ملک زائن اللہ خان المعرون زئینل ملک اور ایک بیٹی تھی جو اب حیات نہیں ہیں۔ملک زئینل راقم الحروف کے والد محترم تھے جبکہ ملک عنایت اللہ ان کے سگا چچا تھے۔آپ فرنگیوں سے سخت نفرت کرتے تھے مولانارسول زمان مرحوم فرماتے تھے کہ میرے والد محترم سادہ خیل وزیر میں مسجد کے امام تھے ان دنوں انگریزوں نے مانی اسپرکہ کے لیے پن چکی منظور کی تو ملک ممہ جان نے پورے علاقے جھنڈوخیل میں اعلان کیا کہ انگریزوں کی پن چکی سے آٹا نہ پیسے یہ اعلان مولنا رسول زمان کے والد محترم نے بھی سادہ خیل وزیر میں کیا یہ بات مانی اسپرکی کو پہنچی تو اس نے مولانا کے پیچھے بندے لگائیں مولانا ڈر کی وجہ سے اپنے علاقے نارملی آگئے چونکہ ملک ممہ جان کی یہ عادت تھی کہ وہ صبح اشراق کے نوافل ادا کرکے اپنے حجرے میں کچھ دیر بیٹھے پھر گھر جاتے صبح جب اس نے اشراق ادا کی تو دیکھا کہ کچھ لوگ مسلح افرادمولانارسول زمان کے والد محترم سے کچھ باتیں کر رہے تھے ملک صاحب کو اندازہ ہوگیا تو وہ ان کے پاس گئے اوہ ماجرا پوچھا تو مولانا نے سار ا ماجراسنایا ملک کو شدید غصہ آیا اور ان بندوں سے کہا کہ آپ شاید بھول گئے ہیں کہ آپ لوگ ایک پشتون کے گاؤں میںا ٓئے ہیں جاؤ اور اپنے ملک مانی سے کہو کہ کل اس وقت صبح اشراق تک اگر انہوں نے خود آکر مولانا کو نہ منایا تو پھر پشتون روایات کے مطابق میں ان سے اس کا پوچھوں گا کہتے ہیں کہ اسی رات مانی اسپرکہ بمعہ تمام قبائل کے مشران ملک ممہ کے حجرے پر آئے اور مولانا کو راضی کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حکیم عبدالرحیم
گھڑی شیر احمد عیسکی سے تعلق رکھنے والے حکیم صاحب طیب کالج دہلی سے فارغ التحصیل تھے ۔حکیم اجمل کے شاگروں میں سے تھے۔اپنے استاد محترم حکیم اجمل کے ساتھ انگریزوں کے خلاف کھڑے تھے۔حکیم صاحب خلافت کمیٹی کے جنرل سیکرٹری بھی تھے مارچ 1920ء میں تحریک خلافت کے سلسلے میں گرفتار بھی ہوئے تھے۔جس جیل کے بارک میں آپ قید تھے اس میں بیرسٹر محمد جان،مولانا ظفر علی خان، دیوداس گاندھی اور خان عبد الغفار خان بھی تھے ان سے قربت کے بعد جب جیل سے رہا ہوئے تو اور بھی سرگرم ہوگئے وہ مسلم لیگ کے سرگرم ارکان میں سے تھے لیکن جب پاکستان بنا تو ریڈیو پاکستان پر آپ نے خان عبد القیوم خان اور لیاقت علی خان کے خلاف آواز بلند کی اور ان پر شدید تنقید کی جس کے نتیجے میں انہیں پابند سلاسل کیا گیا ۔حکیم صاحب سیاست کو جس نظر سے دیکھتے تھے قیام پاکستان کے بعد وہ پوری نہیں ہوئی جس کی وجہ سے انہوں نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی اور اپنا ذاتی مطب کھولا غالبا 1965 میں فوت ہوئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایف۔ایم صابر ایڈووکیٹ
اصل نام فیض محمد خان صابر ایڈوکیٹ تھا۔ بنوں کے علاوہ نورڑ کے رہنے والے تھے ایک قابل وکیل تھے نورڑ کے ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتے تھے ۔ایم۔اے اور ایل ایل بی کی ڈگریاں پشاور یونیورسٹی سے حاصل کیں۔ایل ایل بی کرنے کے بعد موصوف نے بنوں میں 1968 ء میں غالباً وکالت شروع کی ۔اپنے خاندانی روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے کبھی کسی سے زیادتی نہیں کی اپنے علاقے کے علاوہ بنوں کے دوسرے علاقے کے لوگ بھی ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔سیاست سے بھی دلچسپی رکھتے تھے ۔آپ کے خاندان کے اکثر لوگ شریف النفس اور تعلیم یافتہ ہیں۔آپ کے فوت ہونے کے بعد طاہر خان آپ کے جانشین مقرر ہوئے جو آج کل پشاور میں مقیم ہے موصوف بھی ایک شریف النفس اور مہمان نواز انسان ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حاجی عبدالرحمن خان داؤدشاہ
ملک دلباز خان داود شاہ کے والد محترم حاجی عبدا لرحمن خان کانگریس کے سرگرم رکن تھے خلافت کمیٹی کے ممبر تھے انگریزوں سے سخت نفرت کرتے تھے سیاست میں ایک سرگرم کھلاڑی کی حیثیت سے نمودار ہوئے تحریک آزادی کے سلسلے میںکئی بار جیل گئے لیکن انگریزوں کے خلاف ڈٹے رہے مولانابھاشانی کے نیشنل عوامی پارٹی کے ضلعی صدر اور آل پاکستان ورکنگ کمیٹی کے ممبر بھی رہے واقعہ سپینہ تنگی کے بعد انگریز سرکار نے دفعہ ۱۴۴ نافذ کیا اور پورے بنوں شہر کو سیل کر دیا ہر قسم کے جلسے و جلسوں پرمکمل پابندی عائد کردی گئی تو موصوف ہی تھے جس نے کھلم کھلا ایک مسجد میں جلسہ کیا ور انگریز سرکار کے خلاف تقریر کی۔آپ کی تحریک آزادی کی اس دیوانگی کو دیکھ کر انگریز سرکا ر نے گرفتار کر دیا اور جیل میں ڈال دیا لوگوں نے آپ سے کہا کہ رہائی کے لیے درخواست دے دی لیکن آپ نے ایسا کرنے سے صاف انکار کردیا کچھ مدت بعد جیل میں سخت بیمار ہوئے اور ان کی بیمار ی کو دیکھ کر انگریز سرکار نے انہیں رہا کردیا گاؤں پہنچ کر کچھ دنوں بعد اس دار فانی سے آزادی کا یہ متوالہ ۵ مئی1945ء کو رخصت ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پروفیسر پیر اکبر شاہ
لندن سکول آف اکنامکس سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے پروفیسر پیر اکبر شاہ ہندوستانی سیاست کے اہم رکن جانے جاتے تھے ۔ایم این رائے بنگالی سوشلسٹ سے ملکر تحریک آزادی میں حصہ لینے والے پروفیسر صاحب کے ساتھ کشمیری لیڈر پیریم ناتھ بزار کے اہم ساتھ رہ چکے ہیں۔ ماسکو میں لینن کانفرنس میں آپ بطور اہم رکن شامل رہیانجمن ترقی پسند مصنفین کے اجلاسوں میں آپ کا اٹھنا بیٹھنا تھا ۔آپ ایک ملنسار انسان تھے۔آخری وقت میں سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی اور مطالعہ کو اپنا شعار بنایا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملک محبت خا ن وزیر المعروف محبت نیکۂ
علاقہ ڈومیل میں قبیلہ ہاتھی خیل وزیر جو ایک بہادر اور غیرت پر مرمٹنے والے قبیلے سے تعلق رکھتے تھے آپ اپنے علاقے میں خوف و دہشت کی ایک علامت تھے انگریزوں سے سخت نفرت کرتے تھے یہی وجہ تھی کہ ایک دفعہ انگریز سرکار نے اسے گرفتار کر کے جیل بھیج دیا دوران حراست جیل میں چکی پستے پستے بھوک لگی تو وہ اسی طرح آٹا کھا رہے تھے اسی دوران جیل کے سپر ٹنڈنٹ کرنل میچم جو میچن کے نام سے بھی مشہور تھے ایک نہایت متکبر انگریز تھے اس نے محبت نیکۂ کو آٹا کھاتے دیکھا تو چھین کر پھینک دیا اور انہیں گالیاں دیں اور ایسی گالیاں دیں کہ محبت نیکۂ کو بہت بری لگی کیونکہ کرنل نے اسے کہا تھا کہ آٹا تو کھانے کے لیے نہیں دوں گا ان کی جگہ میرا آلہ تولید کھاؤ ۔ محبت خان نیکہ ٔنے کرنل سے کہا کہ یا د رکھو اگر اس گالی کا بدلہ نہ لیا تو میرا نام محبت خان نہیں ہوگا ۔وقت گزرتا گیا اور وہ دن بھی آیا کہ محبت نیکۂ جیل سے رہا ہوا لیکن ان کے دل میں ابھی تک وہ گالی دبی ہوئی تھی اور وہ موقع کی تلاش میں تھا وہ جو کہتے ہیں کہ پشتون سوسال کے بعد بھی اپنے دشمن کو معاف نہیں کرتا ایک دن اسے پتہ چلا کہ کرنل میچم کوہاٹ سے بنوں آرہے ہیں تو وہ اپنے دوست جنگی خان کے ساتھ کرنل کے تعاقب میں بیٹھ گئے اور آتے ہی ان پر حملہ کرکے ان کو قتل کردیا اور ان کا آلہ تولیدکاٹ کر ان کے منہ میں رکھ دیا اور کہا کہ آپ نے کچھ نہیں کیا لیکن محبت خان نے آپ کا اپنا آلہ تولید آپ کے منہ میں رکھ دیا اس واقع کے بعد انگریز سرکار نے ان کے وارنٹ جاری کئے اور کئی دفعہ ان پر چھاپے مارے اور بالآخر انہیں گرفتار کیا اور ڈر کی وجہ سے جیل کی بجائے انہیں چنغوز کے مقام پر تورہ دم گاؤں سے آگے پھانسی دیکر شہید کر دیا ان کا مزار ڈومیل میں ایک پہاڑی کے ساتھ واقع ہے اور لوگ اسے محبت نیکۂ کے مزار سے پکارتے ہیں ۔بنوں اور ڈومیل کے لوگ ان کے مزار پر فاتحہ خوانی کے لیے جاتے ہیں لیکن افسوس کہ ہمارے نوجوان اس بات سے بے خبر ہیں کہ محبت نیکۂ کون تھے ؟ اور انہیں کیوں شہید کر دیا تھا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ظفر اقبال خان آمندی
ظفر اقبال خان بنوں کے علاقے آمندی سے تعلق رکھتے ہیں یہ خاندان کھیل اور سیاست کے لحاظ سے ایک مقام رکھتا ہے ۔آمندی شاہ جہان کا رہائشی ہے ۔پاکستان ٹیلی ویژن اسلام آباد سنٹر سے بطور جی۔ایم ریٹائرڈ ہوچکے ہیں۔2018 ء میں نگران وزیر سائنس و ٹیکنالوجی و وزیر اطلاعات و نشریات بھی رہ چکے ہیں۔تاریخ سے خاصی دلچسپی رکھتے تھے۔موصوف جس وقت پاکستان ٹیلی ویژن کے پروڈیوسر تھے تو اس وقت کلاشنکوف کے کلچر کو ختم کرنے کے لیے اس نے ایک دستاویزی فلم بنائی تھی جو بہت مشہور ہوئی تھی ۔بنوں کے مشہور شاعر مقبول عامر کے قریبی دوستوں میں سے تھے ۔’’وفا کے پیکر ‘‘کے نام سے پی۔ٹی۔وی سے مقبول عامر کا لکھا ہوا ڈرامہ حاجی میرزاعلی خان المعروف ایپی فقیر نشر کر کے خوب داد وصول کی ۔صدارتی ایوارڈ حا صل کرنے والے اس بنوسی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ پشتو کے معروف گلوکارہ گلنار بیگم اور حاجی میرزا علی خان کے بھتیجے سے انٹریوز لینے کا کریڈیٹ بھی موصوف کو حاصل ہے ۔وائلڈ فلور کے نا م سے ایک فلم بنائی جو کہ پوری دنیا میں پہلی نمبر پر آئی تھی اس فلم کا موضوع قدرتی پہاڑ اور پھول تھے یہ ایک دستاویزی فلم تھی۔ظفر اقبال کو بنوں کے متعلق بہت سی تاریخی باتیں یاد ہیں ان کو تاریخ سے بہت دلچسپی ہے اس کے علاوہ اپنے دوست مقبول عامر کا بہت سا کلام اسے ابھی تک زبانی یاد ہے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭