ماضی میں بنوں ایک ایسا جنگل کا نمونہ پیش کرتا تھا جس میں صرف طاقتور ہی گزارا کرتے تھے پاکستان بننے کے بعد بھی صوبہ خیبر پختونخوا میں سوائے ملکوں کے جن کو عرف عام میں پشتونہء کہتے ہیں، کے سوا کوئی بھی دوسرے خاندان کا آدمی بنوں میں زمین خرید نہیں سکتا تھا جو کوئی بھی زمین خریدتا کسی ملک کے نام پر خریدتا اور پھر اس میں اپنا گھر بنا کر اس میں رہتا البتہ قریش، سید کو بھی اپنے نام پر ارضی خریدنے کی اجازت تھی۔1985 میں یہ قانون ختم کر دیا گیا۔ اصل میں 21/16/1848 کو بنوں کیلئے پہلا باقاعدہ انگریزی قانون تیار کیا گیاجس کے اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں :
تمام اختیارات صوبے کے ناظم کے پاس ہوں گے جو برطانیہ کی طرف سے مقرر کیا جاتا تھا ۔ اس قانون کے تحت جس کو بھی کوئی شکایت ہو وہ سرکاری طور پر ناظم کے پاس تحریری شکل میں جمع کرے گا۔تمام لڑائی جھگڑے آج سے بند ہونگے۔کوئی بھی شخص کسی کے خلاف کوئی بھی قدم نہیں اٹھائے گا ورنہ حکومت برطانیہ اسے قانون کے مطابق سزا دے گی ۔وادی بنوں میں کسی کو اسلحہ، تلوار،چھری اور خنجر کی نمائش کی اجازت نہیں ہوگی خواہ وہ بنوسی ہو یا وزیر ۔ اراضیات کے تمام مقدمات قا نونی طور پر انصاف سے جلد از جلد نمٹائے جائیں گے۔ستی کی رسم فی الفور بند کی جائے۔(ہندو میں جب کوئی مرد مر جاتا تو اس کی بیوی اس کے ساتھ زندہ جلائی جاتی اس رسم کو ستی کہتے تھے) تپہ کا ملک مالیہ کی ادائیگی کرے گا ۔اسلحہ اور بارود بنانا جرم ہوگا اور اگر کسی نے یہ فعل کیا تو اس کے خلاف سخت کاروائی کی جائے گی۔تمام قسم کے ٹیکس وغیرہ جو ملکوں کو دیا جاتا تھا ختم کئے جاتے ہیں اس کے بدلے میں سرکار ان ملکوں اور سرداروں کوخصوصی عوضانہ دے گا۔
یہ قانون بھی انگریز نے اپنے مفادات کیلئے بنایا تھا۔ کیونکہ نہ تو انہوں نے مقدمات حل کئے بلکہ اور بھی خود انگریز بہادر نے مقدمات بڑھائے تاکہ بنوسیان خو د آپس میں لڑتے اور ہم آرام سے حکومت کرتے رہے اور نہ ہی علاقے میں امن و امان قائم ہوا۔ہمارے کچھ مورخین و محقیقین حضرات نے یہ ظاہر کیا ہے کہ انگریز کے دور میں امن و امان تھا۔ حالانکہ سب سے زیادہ بد امنی انگریز اور سکھ دور میں تھی۔اگر بنوسیان انگریز سے نفرت نہ کرتے تو کبھی بھی ایڈورڈز پر آٹھ بار قاتلانہ حملے نہ ہوتے اور جتنے بھی حملے ہوئے ہیں سب بنوسیان نے ہی ان پر کئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنوں کی پرانی آبادی پرانے بازار
تقسیم ہند سے پہلے بنوں کی کل آبادی تقریبا ً۶۰۰۰۰ نفوس پر مشتمل تھی۔دو گوندوں پر مشتمل بنوں کے دو گروہ تور گوند کے سربراہ ملک شیر مست خان عَبید خیل کے کما ن میں ۹۰۰۰ ہزار سپاہی ہوتے تھے جبکہ سپین گوند کے سربراہ جعفر خان مغل خیل کے کمان میں ۶۰۰۰ ہزار سپاہی ہوتے ۔یعنی دونوں گوندوں کی مجموعی طاقت زیادہ سے زیادہ ۱۵۰۰۰ ہزار اور ۵۰۰۰ مزید وہ حفاظتی دستہ جو قلعوں اور آبادیوں کی جفاظت پہ مامور ہوتا۔اس طرح مجموعی تعداد۲۰۰۰۰ ہزار پر مشتمل تھا۔
کئی ہزار سال پہلے بنوںآکرہ کے کھنڈرات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ شہر ایک نہایت تہذیب یافتہ شہر ہوا کرتا تھا۔ بنوں کا پہلا بازار بھی یہی ہوا کرتا تھا کیونکہ آکرہ سے جو اثرات ملے ہیں ان سے اس دور کا خوب پتہ چلتا ہے۔ اس کے بعد کئی ہزار سال بعد جب اولاد شیتک نے بنوں کی سرزمین پر قدم رکھی تو بازار احمدخان بنوں کا دوسرا بازار بنا۔اور بہت سال تک یہی بنوں کا بازار ہوا کرتا تھا۔کچھ عرصہ بعد کوٹکہ بہرام شاہ میں انگریز نے نشانے کئے اور وہاں پر بازار بنانا چاہتے تھے لیکن وہاں کے لوگ اپنے علاقے میں بازار نہیں چاہتے تھے۔بعد ازاں متفقہ طور پر انگریزدور میں ہی موجودہ بنوں شہر کو منتخب کیا گیا۔جو ایک درست انتخاب تھا۔کیونکہ یہ سارے بنوں کا درمیانی حصہ تھا۔بنوں کا موجودہ بازار نہایت سلیقے سے تعمیر کیا گیا ہے۔بہت سے ایسے بازار ہوتے ہیں جو گلیوں پر مشتمل ہوتے ہیں لیکن بنوں کا بازار ایک ایسا بازار ہے جو بالکل گول بیضوی شکل میں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔