سکھ دور میں راجہ رنجیت سنگھ کے بیٹے دلیپ سنگھ کے نام سے یہ قلعہ تعمیر کرایا گیا۔ اس کی بنیاد دسمبر 1848ء میں رکھی گئی۔ان کی تعمیر نا ممکن تھی کیونکہ بنوسیان کسی بھی حال اس کی تعمیر نہیں کرنے دے رہے تھے لیکن انگریز وں کے چند پٹھوں نے یہ کہہ کر بات ڈال دی کہ یہ عارضی طور پر بنایا جا رہا ہے انگریزاور سکھ جلد ہی یہاں سے جانے والے ہیں۔لیکن جب حقیقت اس کے بر عکس نکلی تو بنوسیان پہلے سے زیادہ انگریز سے نفرت کرنے لگے۔اس قلعے میں آٹھ توپوں اور بارہ سو سپاہی رکھنے کی گنجائش تھی۔مٹی سے تعمیر شد اس قلعے کی یہ حیثیت خاص رہی کہ اسے بنوں میں مرکزیت حاصل تھی۔ایڈورڈزکے مطابق اس قلعے کا اندرونی حصہ ۱۰۰ گز مربع ،اس دیواروںکی اونچائی ۲۰۰ فٹ،چوڑائی ۹ فٹ بیرونی دیوار کی اونچائی ۱۰ فٹ جبکہ چوڑائی ۶ فٹ تک کی تھی۔ اس کے علاوہ اس کے چاروں طرف خندیں کھودی گئیں جو ۳۰ فٹ گہری تھی۔
سکھوں کی شکست کے بعد اس قلعے کو ایڈورڈ فورٹ کا نام دیا گیا۔پاکستان بننے کے بعد اس پر سبز ہلالی جھنڈا لہرایا گیا۔یہ قلعہ کیوں تعمیر کیا گیا ؟ اس پر کسی نے بھی آج تک نہیں سوچا ۔یہ قلعہ صرف اس لیے بنایا گیا کہ اغیار مکمل کنٹرول کرنے کے باوجود بھی بنوسیان سے خوفزدہ تھے۔اپنی حفاظت اور فوجی ساز و سامان کیلئے اس قلعے کی تعمیر کی۔ تاکہ حالات جنگ میں اس کا استعمال کر سکیں اور فوجی ساز و سامان اس میں رکھیں اور ضرورت کے وقت کام آسکے۔کیونکہ انہیں بنوسیان پشتون کے غصے کا بخوبی علم تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔