ارض بنوں پر بہت سی خون ریز جھڑپیں ہوئی ہیں۔ یہ جھڑپیں کبھی قومیت کی بنیاد پر ہوئیں ہیں تو کبھی مال و زر اور سرداری پر ! لیکن سرزمین بنوں میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو اللہ کے دین کی سربلندی اور اپنی آزادی کیلئے لڑے ہیں۔ علاقہ غازی عبداللہ شاہ بابا ؒ،علاقہ داؤد شاہ، علاقہ منڈان میں شہمال بابا کا قبرستان اور علاقہ جھنڈوخیل میں وہ جھونپڑی جس میں فقیر ایپی نے جہاد فی سبیل اللہ کا آغاز کیا تھا ان کی مثالیں ہیں۔اسی طرح ایک واقعہ بازار احمد خان میں بھی ہوا ۔کری کے مقام پر بازار احمد خان میں سکھوں اور بنوسیان کے درمیان ایک خون ریز جنگ ہوئی۔یہ 1824ء اور 1844 کے درمیانی عرصے کی بات ہے جبکہ بنوسیان پر سکھوں نے زندگی تنگ کر دی تھی۔اس دورمیں گوشت پکانے پر سخت پابندی تھی۔بنوسیان کی آپس کی نا اتفاقی کی وجہ سے سکھوں نے سارے بنوں کو کنڑول کر لیاتھا۔جب حالات بہت بگڑ گئے تو بنوسیان کو اپنی نا اتفاقی کا احساس ہوا۔ اور منظم ہو کر سکھوں کے خلاف پوری بے جگری سے لڑے لیکن سکھوں کی طرح اسلحے سے لیس نہیں تھے اور تعداد میں بھی کم تھے۔سکھوں کے پاس توپ خانے اور ہر قسم جنگی سامان موجود تھا۔اس خون ریز لڑائی میں بنوسیان کوبہت جانی و مالی نقصان اٹھا نا پڑا سکھوں نے عبر ت کے طور پر بنوسیان کے سروں سے ایک مینار کھڑا کیا جن پربعد میں ایک مقامی شخص مستری بابری گل نیازی نے ایک مقبرہ تعمیر کیا جو آج بھی موجود ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنوں ایک اہم تجارتی مرکز
ماضی میں ضلع بنوں ایک اہم شاہرا ہ کے طور پر استعمال ہوتی رہی۔یہ افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک سے ہندوستان تک مختصر ترین راستہ ہوا کرتا تھا۔اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یقینا بنوں ایک تجارتی مرکز ہے۔ کیونکہ یہ افغانستان اور ہندوستان کے سنگم پر واقع ایک خوبصورت خطہ ہے۔ماضی میں بنوں کے لوگ زیادہ ترپنجاب ،راولپنڈی اور کراچی سے تجارت کرتے تھے۔لیکن اب یہ تجارتی تعلقات بہت وسیع ہو چکے ہیں۔کیونکہ بنوں وولن ملز کا کپڑا باہر کے ملکوں کو بھی بھیجا جاتا ہے اور مہنگے داموں فروخت ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ گُڑ،نمک مزری کی چٹائیاں،مٹی کے بنے ہوئے خوبصورت برتن، چمڑے کی بنی ہوئی اشیاوغیرہ یہاں سے باہر جاتی ہیں۔
فصلوں میں گنا،سبزی ،ہلدی،چاول اور تھوم بھی بنوں سے وافر مقدار میں باہر جاتا ہے۔جس سے کافی رزمبادلہ کمایا جاتا ہے۔ پھلوں میں بنوں کے امرود، انجیر،شہتوت،کھجوریںاور بنوال کیلے بھی یہاں پر زیادہ مقدار میں پیدا ہوتے ہیں۔ان چیزوں کے علاوہ بنوں کا سوہن حلوہ، نسوار، مصالحہ جات ،چارپائیاںاور لکڑیوں کا سامان بھی یہاں سے باہر جاتا ہے۔
بنوں کو ہر دور میں نظر انداز کیا گیا ہے ورنہ یہ ایک اہم تجارتی مرکز ہوتا۔اس میں نہ تو خام مال کی کمی ہے اور نہ ہی ٹیلنٹ کی !اب خدا کے فضل سے سی پیک کا منصوبہ شروع ہوا اور اس میں بنوں کو نظر انداز نہیں کیا گیا تو مستقبل قریب میں بنوں کا خطہ ایک ایسا ترقی یافتہ خطہ ہوگا۔جس کی مثال نہیں ہوگی۔ارباب اختیاراور خاص کار بنوں کے لیڈران سے میر ی گزارش ہے کہ سی پیک پر سیاست نہ کی جائے ۔بلکہ اس کیلئے سب ایک ہو جائیں کیونکہ یہ بنوں کے مستقبل کی بات ہے اور بنوں کیلئے آواز اٹھائیں۔تاکہ کوئی بھی ہمارے حقوق غصب نہ کرے ورنہ آنے والی نسل ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔سیاست پھر بھی ہو سکتی ہے لیکن اگر ایک بار بنوں کو اس اعظیم منصوبے سے محروم کر دیا گیا تو اس کا ازالہ کرنا مشکل نہیں بلکہ نا ممکن ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔