بنوں میں انگریز دور سے بھی پہلے بہت سے قلعے تھے۔ ہر علاقے کے لوگ اپنی حفاظت کیلئے مضبوط قلعے بناتے تھے۔جن کو تسخیر کرنا بہت مشکل کام تھا۔اس کے علاوہ بنوسیان اگر چہ دو گوندوں میں تقسیم ہوچکے تھے لیکن اس کے ساتھ وہ ایک ناقابل شکست قوت کے طور پر بھی سامنے آچکے تھے۔کیونکہ نواب آف کالا باغ اور مروت قبائل کو شکست دے چکے تھے۔جس کی وجہ سے آس پاس کے تمام قبائل ان پر حملہ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔بنوسیان کے قوت کی ایک وجہ بنوں میں قلعے بھی تھے۔ جن کو تسخیر کرنا مشکل کام تھا۔پروفیسر شمشیر علی اپنی کتاب بن باس جلد اول میں صفحہ نمبر ۵۹ پر لکھتے ہیں کہ جوع ارض کی وجہ سے بنوسیان وزیروں کے لیے سدراہ تھے ان دونوں قبائل کے درمیان تعلقات اچھے نہ تھے وزیر زمین چاہتے تھے بنوسیان ان کی اس خواہش کو پورا کرنے نہیں دیتے تھے وزیر وںمیں اتفاق پایا جاتا تھا۔ مقصد کی لگن تھی عسرت زدہ تھے جفاکش تھے تعداد بھی زیادہ تھی بنوسیان بکھرے ہوئے تھے گوندوں میں تقسیم تھے فارغ البال تھے آسودہ حال تھے ان میں نفاق تھا آپس میں بٹے ہوئے تھے مگر وہ صاحب دفاع تھے ان کی دفاعی قوت مستحکم تھی بنوں میں قلعوں کی مجموعی تعداد ۴ سو تک پہنچتی تھی گویا بنوسیان زبردست دفاعی قوت کے مالک تھے وزیری ان کے سرحدی اراضی پر دست درازی تو کر سکتے تھے مگر قلعوں کی تسخیر ان کے بس کی بات نہ تھی جب ایڈورڈز اپنی حکمت عملی کے باعث بنوں کے جملہ قلعہ جات گرانے میں کامیاب ہوئے تو بنوسیان کی دفاعی قوت کا خاتمہ ہوا چنانچہ مالیہ کی اصولی پر پسر بازید خان سورانی اور احمد زئی وزیروں میں معمولی جھگڑا ہوا تو قبیلہ عمر زئی وزیر نے 1849ء میں علاقہ سورانی پر یلغار کر دی31 دیہاتوں کو جلا ڈالا بازید خان ان کے ۵ بیٹوں کو قتل کر دیا گیا دیگر سینکڑوں بنوسیان کو مار دیا گیا گاوں بازید کو زیر و زبر کر دیا گیا ماضی میں ایسا کبھی بھی نہ ہوا تھا اب بنوسیان کے پاس پناگاہیں نہ تھیں۔
بنوسیان کو ایک نصیحت
بنوسیان ایک سرکش قوم ہے۔جب سے اولاد شیتک نے سرزمین بنوں پر قدم رکھا ہے ایک نہ ختم ہونے والی شورش کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ انگریز دور میں بنوسیان کے اکثر قبائل مالیہ نہیں دیتے ۔ یہی وجہ تھی کہ جب ایڈورڈ ز بنوں آیا تو سب سے پہلے بنوسیان سے مخاطب ہو کر ایک تقریر کی جس کامتن کچھ یوں تھا۔
’’دیکھو آپ لوگوں پر سالانہ واجب الا دا مالیہ۶۵ ہزار روپے ہے جب آپ انکار کرتے تھے تو سکھا شاہی آپ لوگوں کو ۵۰ گنا نقصان دیتے اور ان سے آپ لوگوں کی جنگ ہوتی تھی۔اس جنگ میں آپ کی فصلیں تباہ ہوجاتیں ۔سارا علاقہ جنگ کا منظر پیش کرتا۔یہ خوبصورت وادی جو جنت جیسی ہے ۔جہنم زار بن جاتی ۔اب میں یقین سے کہتا ہوں کہ آپ امن سے رہیں گے لیکن اس کے بدلے میں آپ اپنا مالیہ جو صرف ۴۰ ہزار ہے وہ ادا کرنا ہوگا۔اس کے بدلے میں آپ کی فصلیں وغیرہ محفوظ رہے گی۔علاقے میں امن و امان ہوگا۔جس کے ضامن ہم ہیں۔اس کے علاوہ اپنے معاملات اپنے رسم و رواج کے مطابق چلائیں۔
مزید کہتے ہیں کہ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آپ لوگوں نے میری اس پیش کش کا مثبت جواب نہ دیا آپ ایک ضدی قوم ہو۔جو کبھی تدبر سے کام نہیں لیتی۔اس لیے ہم نے بھی آپ کے قلعوں اور افرادی قوت کا سارا ریکارڈ ڈھونڈ لیا ہے۔آپ لوگ آزاد ہو مگر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو۔آپ لوگ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی غرض سے اس حسین وادی کو برباد کر رہے ہو اور میں ایسا ہونے نہیں دوں گا۔یہاں پر اب علم کی روشنی ہوگی۔
_______________________