جس طر ح ہر علاقے کے مقامی کھیل ہوتے ہیں جس کو اس علاقے کے لوگ علاقے کے قومی کھیل کا درجہ دیتے ہیں اسی طرح بنوں میں بھی کچھ کھیل کھیلے جاتے ہیں۔ ماضی میں بنوں میں نشانہ بازی کا کھیل کھیلا جاتا تھا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ کھیل ختم ہوتا گیاصرف شادی بیاہ کے موقعوں پر ہی یہ کھیل کھیلا جاتا تھا۔ پھر اس کی جگہ اینڈا نے لے لی ۔اینڈا میں تین افراد شامل ہوتے ہیں ایک کا مقابلہ دو سے ہوتا ہے ایک آدمی چند گز کے فاصلے پر دوڑ لگاتا ہے۔ جبکہ مد مقابل کے دو افراد اسے پکڑنے گرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر یہ پہلا شخص اپنے مد مقابل کھلاڑیوں کو ۳ بار ہاتھ لگاکر بھاگنے میں کامیاب ہوتا ہے تو اسے کامیابی ملتی ہے اور اگر ایسا نہ کر سکے یا اسے پکڑ کر گرادیا جاتا ہے تو اسے شکست ہوتی ہے۔اسی طرح دوسری طرف مد مقابل کھلاڑی دوڑ لگائے گا جبکہ مد مقابل کے دو افراد پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں اس کھیل میں ہر کھلاڑی ۳ بار اپنے مد مقابل کا مقابلہ کرتا ہے جیت اور ہار کا ہر مرحلہ شمار کیا جاتا ہے۔ اور پھر جس پارٹی کامجموعی سکور زیادہ ہوتا ہے وہی پارٹی کامیاب ہوتی ہے۔یہ منظر بڑا دلچسپ ہوتا ہے۔کھلاڑی ڈھول کی تھاپ پر اپنا کرتب دکھاتے ہیں۔ہنر ،تیزی اور قوت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔اینڈا اب ختم ہوچکا ہے اس کی جگہ اب کبڈی نے لی ہے۔
کبڈی بھی بنوں کا مقامی کھیل ہے ۔ہر سال بنوں میں باقاعدہ کبڈی کا قومی سطح پر ٹورنمنٹ ہوا کرتا ہے۔ اور کامیاب ہونے والی ٹیموں کو نقد انعامات اور ٹرافیاں دی جاتی ہیں۔بنوں کے لوگ کبڈی بڑے شوق سے دیکھتے اور کھیلتے ہیںلیکن اب یہ کھیل بھی صرف چندعلاقوں تک محدودہوگیاہے البتہ کرکٹ اوروالی بال موجودہ دورمیں بنوں کے مقبول ترین کھیل ہیں۔عصرکے وقت مختلف علاقوں میں یہ کھیل کھیلے جاتے ہیں۔
سرائے نورنگ اورنورنگ خان گنڈاپور
ضلع بنوں کے علاقہ نار کے ساتھ واقع نورنگ کا علاقہ واقع ہے ۔ جس کی زیادہ تر آبادی مروت قبائل پر مشتمل ہے لیکن جنوب مشرق کی جانب یہ سارا علاقہ بنوسیان کے قبائل کے قبضے میں ہے۔نورنگ پہلے بنوں کے ساتھ تھا لیکن اب اسے علیحدہ تحصیل کا درجہ مل گیا ہے۔نورنگ کے بارے میں مشہور ہے کہ میاں بہرام کلاچوی ایک مشہور و معروف صاحبِ سلوک بزرگ گزرے ہیں گنڈا پور خاندان کا ایک غریب مگر تندرست نوجوان نورنگ خان اکثر ان کی خدمت میں حاضری دیا کرتا تھا۔ایک روز میاں بہرام نے خوش ہوکر نورنگ خان پر نظر التفات ڈالتے ہوئے کہا۔بولو کیا مانگتے ہو؟ نورنگ خان کے منہ سے نکل گیا دنیا کی سربلندی !میاں صاحب نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کاش توُ نے دنیا نہ طلب کی ہوتی چند لمحے توقف کیا پھر آہستہ سے بولے خیر اب جاو دنیا تو مل جائے گی۔ پر یاد رکھ وہ تیرے کام نہ آئے گی۔یہ سن کر نورنگ خان نے چپ سادھ لی۔کچھ دن گزر گئے تو ایک دن نورنگ خان نے میاں صاحب کو خوش دیکھ کر گزشتہ دعا یاد دلائی تو میاں صاحب نے فرمایا کہ تو یہاں سے فورا بنوں جا وہاں تیری مراد پوری ہو جائے گی۔بنوں میں انگریز نکلسن کے گارڈ بن گئے۔1857ء کی جنگ آزادی کی غرض سے میجر نکلسن دہلی جارہے تھے نورنگ خان اس کے ساتھ تھے۔ راستے میں معمولی جھڑپ سے میجر کو گولی لگی اور وہ زخمی ہوگئے۔نورنگ خان اس کے ساتھ تھا۔زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے فوت ہوئے لیکن اس سے پہلے اس نے ایک کاغذ پر لکھا تھا کہ Nourang Khan did well اس کے بعد واپسی پر ڈپٹی کمشنر کیپٹن ککس کے سامنے حاضر ہو کر وہ کاغذ اسے دیکھایا۔کیپٹن ککس نے کاغذ دیکھا تو احترام سے نورنگ خان کو سلا م کیا۔اور نورنگ خان کوعلاقہ نورنگ کی کافی زمین مفت میں دیدی۔اسے زمین تو ملی لیکن وہ چل بسے۔ اس کے نام کی وجہ سے اس کو نورنگ کا نام دیا گیا۔
(بنوں تاریخ کے آئینے میں)