موت ایک اٹل حقیقت ہے جو ہر ذی روح کو آنی ہے۔کوئی بھی جاندار موت سے نہیں بچ سکتا۔جس طرح ہر علاقے میں فوتگی کے مختلف رسم و رواج ہوتے ہیں اسی طرح بنوں میں بھی جب کوئی فوت ہوجائے تو یہاں کے لوگ سب سے پہلے مسجد کے مولوی صاحب کو خبر دیتے ہیں وہ لاوڈسپیکر میں جنازے اور فاتحہ کا اعلان کرتا ہے۔ہر گاؤں میں قبر کھودنے کی مخصوص ٹیم ہوتی ہے جو ایسے موقعوں پر قبرستان جاکر پہلے سے ہی قبر تیارکر تے ہیں۔اعلان کے بعد مردے کو علاقے کے متقی لوگ یا وصیت کے مطابق اسے غسل دیکر کفن پہناتے ہیں پھر علاقے کی عورتیں مردے کے لیے ختمِ قران کرتی رہتی ہیں جبکہ مرد حضرات باہر چوک یا حجرے میں ایک ساتھ بیٹھتے ہیں اور جب بھی کوئی فاتحہ کیلئے آتا ہے وہ مردے کی مغفرت کیلئے دعا کرتا ہے۔اسی طرح جنازے کے وقت تک یہی سلسلہ جاری رہتا ہے۔
جنازے کے بعد دفنانے کے ساتھ تمام لوگوں میں کجھور اور توفیق کے مطابق نقدی تقسیم کی جاتی ہے۔خواہ میت نے اس کے لئے وصیت کی ہو یا نہ کی ہو۔خوا ہ کوئی غریب ہو یا امیر یہ رسم پوری کی جاتی ہے کیونکہ برادری میں ناک کٹوانے سے بچنے کیلئے میت کے ورثاء کیلئے یہ لمحہ بڑا صبر ازما اور وقت طلب ہوتا ہے ابھی آدمی مرا نہیں کہ گھر کے دوسرے دروازے سے میت کے رشتہ دار اس رسم (اسقاط) کی بندوبست میں نکل پڑتے ہیں۔بہت سے علما ء کرام بھی اس بدعت میں پڑے ہوئے ہیں بلکہ بعض تو اس کو عبادت کا درجہ دیتے ہیں۔اس طرف توجہ کی ضرورت ہے۔دفنانے کے بعد تقریبا ً۳ دن تک چوک یا حجرے میں علاقے کے لوگ فاتحہ کیلئے بیٹھتے رہتے ہیںاور لوگ آکر فاتحہ کرکے کچھ دیر بیٹھ کر چلتے ہیں۔گاؤں کے ہر گھر کا ایک فرد ضرور بہ ضرور تین دنوں تک ورثاء کے ساتھ بیٹھتا ہے ان تین دنوں میں کھانے اور چائے کا بندوبست گاؤں والے کرتے ہیں اور تمام مہمانوں کی خاطر و مدارت کرتے ہیں۔