تاریخ سیاسی، معاشرتی ،معاشی،مذہبی اور ثقافتی مسائل کو ترتیب دے کر انہیں صحیح اور درست بیان کرنے کا نام ہے۔تاریخ سے انسان کی دلچسپی اس لئے ہے کہ یہ اس کی اپنی تاریخ ہے اور جب تاریخی بیانات اور واقعات پڑھتا ہے تو اسے تاریخ میں اپنی جھلک نظر آتی ہے۔ تاریخ کسی کو چھوٹا یا بڑاکرنے کیلئے نہیں لکھی جاتی بلکہ یہ کسی بھی قوم کا ایک قیمتی ورثہ ہوتا ہے۔
تاریخ کے ماخذ
بہت سی وجوہات کی بنا ء پر تاریخی ذرائع کمیاب ہیں اور جو ماخذ بھی دستیاب ہوئے ہیںوہ کتبے، پتھرپر کندہ تحریریں،مٹی کے ڈھیر جیسے موہنجوداڑو،ہڑپہ،آکرہ اور سنی سنائی باتیں جیسے کہ رستم اور سہراب، خاتم طائی ،گل بکاولی اور دیووں کے قصے لیکن جدید سائنسی دور میں یہ سب مذاق لگتے ہیں کیونکہ یہ تحقیق کا دور ہے اور تاریخ پر کافی تحقیق ہو چکی ہے اور ہو رہی ہے۔تاریخ کو ن بناتا ہے ؟ اور ذمہ دار کون ہے؟ تاریخ انسان ہی بناتا ہے اور انسان ہی اس کا ذمہ دار ہے۔ تاریخ کو انسان نے خود مسخ کرنے کی کوشش کی ہے۔ابتدائے قدیم تاریخ ہی سے انسان نے خود کو انسانیت سے گرایا ۔
۱۔ہم لگڑ بگڑ کی اولاد ہیں (افریقیوں کا قول) ۔
۲۔ ہم گرگ کی اولاد ہیں (ترک منگول قول)
۳۔ہم مچھلیوں اورپرندوں کی اولاد ہیں (قدیم سرکیوں کا قول)
۴۔ ہم کو دیوتاوں نے مٹی سے بنایا (یونانیوں کا قول )
۵۔ ہم بندروں کی اولاد ہیں (ہندؤوں کا قول)
لہٰذا میرے خیال میں کسی دوسرے ذرائع کو درست ٹھہرانا سراسر غلط ہوگا ۔تاریخ کو انسان نے خود بگاڑا ہے ۔آج کل کے اس جدید دور میں بھی بعض دوست لگے ہوئے ہیں فرضی لطیفوں اور باتوں کو ماخذ بنا کر تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں پتہ نہیں کہ یہ ان کی کم علمی ہے یا پھر قصداًایسا کرتے ہیں ۔تاریخ نویسی کا کام سب سے زیادہ مشکل کام ہے اس سے مشکل کام شاید کوئی دوسرا ہو۔بعض مؤرخین نے جو کچھ لکھا ہے وہ سطحی نوعیت سے تعلق رکھتاہے ان مؤرخین کی معلومات کسی ٹھوس تحقیق کا نتیجہ نہیں ۔
انسانی تاریخ بہت پرانی ہے ۔زمین پر قدم رکھنے کے بعد ہی انسانی تاریخ کی ابتدا ہوئی ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آبادی بڑھتی رہی او ر اس طرح لوگ بھی مختلف قوموں اور قبیلوں میں تقسیم ہوتے رہے۔ آبادی میں اضافے اور خوراک کی تلاش میں انسان نے مختلف علاقوں کا رخ کیا اور مختلف علاقوں میں رہائش اختیار کی۔ انسان کی پہچان کیلئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے درمیان قومیں بنائیں تاکہ ان کی پہچان میں کسی کو کوئی دقت پیش نہ ہو اور ان کی پہچان آسانی سے ممکن ہوسکے۔انہی قوموں میں ایک قوم پٹھان بھی ہے۔ پٹھان ایک بہت ہی پرانی تاریخ کی حامل قوم ہے۔اس کی تاریخ تقریباًسات ہزار سال قبل مسیح سے بھی پرانی ہے۔پٹھان قوم کے بارے میں مختلف مؤرخین و محققین نے مختلف نظرئے پیش کئے ہیں ۔نعمت اللہ ہروی نے مخزن افغانی میں پٹھانوں کو بنی اسرائیل کہہ کر پکارا ہے۔بہادر شاہ ظفر کاکا خیل کے مطابق جب قیس عبدالرشید نے بمعہ قبیلہ اسلام قبول فرمایا تو حضورﷺ نے ان کا نام ملک عبدالرشید رکھ دیا اور ان کے لئے خصوصی دعا فرمائی۔ ایک جنگ میں غیر معمولی کارکردگی دیکھ کر آپﷺ نے ملک قیس عبد الرشید کو بتھان کا نام اعزاز کے طور پر عطا کیا۔ بتھان کے معنی ہے قوم کی کشتی، بتھان کالفظ تبدیل ہوکر پٹھان بن گیا۔ اس نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو پٹھانوں کے خاندان سے منسلک کردیا ہے کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے ایک دفعہ حضرت خالد بن ولیدؓ سے فرمایا کہ اے خالد !جب تمہاری قوم بنی اسرائیل بخت نصر بابلی واقعہ کے بعد شام سے جلاوطن ہوئی تو ان میں سے ایک چھوٹا سا گروہ جس میں تمہارے اباواجداد بھی شامل تھے ملکِ عرب کی طرف آگیا۔ ان لوگوں کا خیال تھا کہ جب ہم بیت المقدس جو حضرت داود ؑ کا تعمیر کردہ تھا سے محروم ہوگئے توکیوں نہ بیت اللہ شریف کی زیارت کریںجو حضرت ابراہیمؑ نے اللہ کے حکم سے تعمیر کیا ہے لیکن ان میں ایک گروہ کثیر بخت نصر کے واقعے کے بعدجبلِ نور و فیروزہ واقع خراسان چلا گیا۔ صدیاں گزر جانے کے بعد اس گروہ کی تعداد بڑھتی گئی اور اس نے احکام ِ موسوی کو چھوڑ دیا اور گمراہی کے راستے پر چل پڑے ہیں اس لئے تم کو چاہیے کہ جاکر انہیں احکام الٰہی اور بعثت نبویﷺ سے اشنا کردو۔ اس کے بعد آپؐ کے فرمان کے مطابق حضرت خالد بن ولیدؓ نے اس (خراسان) کے گروہ کو ایک خط لکھا اور دعوت ِ اسلام کیلئے کہا جب مکتوب اس گروہ کو ملا جس کا سربراہ قیس نامی ایک شخص تھا تو اس نے بمعہ قبیلہ اسلام قبول کیا اور مدینہ کی طرف روانہ ہوئے اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ حضرت خالد بن ولیدؓ بھی پٹھان قبیلے سے تعلق رکھتے تھے ۔مدینہ آمد کے بعد جب قیس نے حضور ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کرلی تو حضرت خالد بن ولید ؓ نے اس کی بیٹی سارہ سے شادی کرلی۔
ملک قیس عبد الرشید آپﷺ کے فرمان کے مطابق واپس خراسان آگئے اور دین اسلام کی تبلیغ شروع کی ملک قیس عبد الرشید کا سلسلہ نسب ملک طالوت بادشاہ سے ملتا ہے۔سلسلہ شجرہ نسب کچھ اس طرح سے ہے ۔ ملک قیس عبدالرشیدبن عیض بن سلول بن عتبہ بن نعم بن مروہ بن جندر بن سکندر بن رمان بن حنین بن بہلول بن شلم بن صلاح بن قارود بن عقیم بن فہلول بن کرم بن تحل بن حذیفہ بن منہال بن قیص بن علیم بن اشموئیل بن رون بن قمرودین ابی بن صلیب بن طلل بن لوی بن عامیل بن تارج بن ار زند بن مندول بن سلم بن ارمیا بن ساول ملقب بن طالوت بادشاہ ۔
ملک کا لفظ دراصل حضورﷺ نے پٹھان قبیلے کو دیا ہے کیونکہ ملک قیس نے جب اسلام قبول کیا تو حضورﷺ نے فرمایا کہ آپ کے اباواجداد میں ملک طالوت کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرانِ پاک میں کیا ہے اس لئے آپ کا نام ملک قیس عبد الرشید ہوگا۔ ملک ، مالک سے نکلا ہے جس کے معنی ہے سر براہ ،لیڈر یا بادشاہ۔
ملک قیس عبدالرشیدنے ۴۱ ہجری کو ۷۷ سال کی عمر میں وفات پائی آپ کی وفات کے بعدپٹھانوں کے قبیلے بڑھتے گئے قیس کے جانشینوں میں سڑہ بن، بٹن،غورغشت اور کرلانڑ یا کرلانڑائی تھے پٹھانوں کے قبائل دنیا میں ہر جگہ موجود ہیں چونکہ میرا ذکر بنوزئی (بنویان یا بنوسی) کے متعلق ہے اس لئے اس قبیلے کے متعلق بات کرونگا۔ ان میں سے کرلانڑ یا کرلانڑائی کی جو اولاد ہیں وہ تانڑی،داوڑ اور بنوزئی(بنوی یا بنوسی)ہیں پٹھانوں میں بنوزئی (بنوسی) قبیلہ ایک بہادر ، جنگجو،مہمان نواز اور معزز قبیلہ ہے۔ اس کے علاوہ دین اسلام کے شیدائی اور وطن پر جان قربان کرنے والے اس پٹھان قبیلے کے لوگ ضلع بنوں کی خوبصورت وادی میں رہائش پزیر ہیں بنوی (بنوسی)، داوڑ اور تانڑی اصل میں شاہ فرید عرف شیتک بابا کی اولاد ہیں اور شیتک کرلانڑ کا بیٹا تھا ۔
پروفیسر شمشیر علی صاحب اپنی کتاب بن باس کے صفحہ نمبر ۴۱ میں لکھتے ہیں کہ جب ہنی او منگل کا اخراج ہوا تو شاہ نیک بین پسر شیخ محمد روحانی نے اولاد شیتک یعنی کیوی اور سورانی میں بنوں کو تقسیم کر دیا مسمی مِری پسر اول کیوی پسر شیتک کے اولاد کو علاقہ مِری موضع ککی کے مشرقی حد تک دیا یہ علاقہ ان دنوں عمدہ اور خوب آباد تھا مسمی سمی پسر دوم کیوی کی اولاد کو بنوں کا وسطی حصہ دیا گیا اور اولاد سورانی کو دریائے کرم سے شمالی تھل تک حصہ ملا جسے اب علاقہ سورانی کہتے ہیں اس وقت یہ علاقہ جنگل نما تھا خوجک پسر سورانی کی شادی ہنجل کی دختر سے ہوئی تو تپہ داؤد شاہ آمندی اورممش خیل کا علاقہ انہیں جہیز میں دیا گیا۔ شاہ نیک بین نے اپنی اولاد کو جسے تپہ سادات کہتے ہیں بہتر زمین دیدی مگر پھر بھی اولاد شیتک اس تقسیم سے راضی تھے کیونکہ زمین ان کی کفالت اور ضرورت سے بہت زیادہ تھی۔ اولاد مری کو جو علاقہ ملا اس میں بارکزئی، ممہ خیل، ککی اور بھرت شامل تھے اولا د سمی کے مقبوضہ علاقے میں تپہ منڈان، عیسکی یعنی بازاراحمدخان تا جھنڈوخیل شامل تھے۔ اولاد سورانی کو منداخیل المعروف تپہ بازید ، دھرمہ خیل تپہ حسنی (کوٹی سادات) تپہ ولا خیل تپہ داؤد شاہ ، ممش خیل اور آمندی شامل تھے ان تازہ دم نو واردان بنوں نے قبیلہ خٹک کو دریائے کرم کے بائیں کنارے کے ملحقہ ارضیات سے نکال دیاکیونکہ قبیلہ خٹک اس طاقت کا مقابلہ نہ کر سکا۔