زمانہ قدیم سے بنوں میں قتل اور جنگ و دجدل کا سلسلہ شروع ہے۔مہلب بن ابی صفراؓ صحابی رسولؐ نے غازی عبداللہ شاہ کے میدان میںکفار کے ساتھ جہاد کر کے اس زمین پرکلمہ حق بلند کیا۔اس کے بعد مختلف افغان بادشاہوں اورمغلوں بادشاہوں نے بنوں کو تاراج کیا۔اولاد شیتک نے ہنی و منگل کو شکست دیکر یہاں سے نکال دیا۔سکھ بادشاہوں پھر گوروں نے اس سر زمین کا رخ کیا۔انگریز دور میں تور گوند اور سپین گوند کی کئی لڑائیاں لڑیں۔ایک گوند کا آدمی دوسرے گوند کے آدمی کو سب سے بڑا دشمن سمجھتا۔اس کے علاوہ وزیر اور بنوسیان کے کئی خون ریز لڑائیاں لڑی گئیں۔ یہ سلسلہ دیر تک چلتا رہا۔بعد ازاںبنوسیان کے ایک خیل کی دوسری خیل کے ساتھ لڑائیاں ہوئیں جن میں کافی جانی و مالی نقصان ہوتا رہا۔
بنوں کے لوگ انتہائی سخت مزاج ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ یہاں اب بھی تقریباً ۴۰ فیصد لوگوں کی ذاتی دشمنیاں ہیں جن میں بہت سے نقصانات ہوتے رہتے ہیں۔خاندانوں کے خاندان ختم ہوتے رہتے ہیں۔ان دشمنیوں میں علاقے کے کچھ لوگ جن کو عرف عام میں ثالث کہتے ہیں نے خوب اپنی جیبیں گرم کی ہیں اور کوئی مائی کا لعل ان سے یہ نہیں پوچھ سکتا کہ صلح کرانے پر کیوں رقم لیتے ہو۔ہر حکومت کو چاہیے کہ عوام کو ان بھیڑیوں کی کرتوتوں سے بچائیں اور جو مخلص ثالث ہیں جو اللہ کی رضا کے لیے دو مسلمان بھائیوں کے درمیان مخلص ثالثی کا کردار ادا کرکے صلح کراتے ہیں صرف ان کو اجازت دیں باقی پر تاحیات پابندی لگائیں۔نورڑ اور بکاخیل کی دشمنی، بوزید خیل سورانی اور بیزن خیل کی دشمنی،ممش خیل و بکا خیل کی دشمنی،عَبید خیل کی آپس میں دشمنیاں ،منڈان کی آپس کی دشمنیاں، میریان کے کچھ علاقوں میں آپس کی دشمنیوں اور دادود شاہ میں ایک ہی خیل میں آپس کی دشمنیوں نے ان خیلوں کا کافی کمزور کر دیا ہے۔حکومت وقت اور سیاسی قیادت کو چاہیے کہ ان دشمنیو ں کو ختم کرانے میں مخلص کردار ادا کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔