قتل ومقاتلہ
ضلع بنوں کے تمام اقوام کے درمیان قتل و مقاتلے برسوں سے چلے آرہے تھے لیکن تعلیم کی وجہ سے اب یہ مسئلے کافی حد تک ختم ہوچکے ہیں۔ماضی میں بنوں میں کوئی بھی مستقل حکمران نہیں تھا گوندوں کی حکمرانی تھی۔جو آدمی گوند میں ہوتا اسے برتری حاصل رہی۔گوندوں کے سردار ہی اپنے علاقوں کے حکمران تھے۔یہی وجہ تھی کہ بنوں میں قتل و مقاتلے روز کے معمول بن گئے تھے۔محمد حیات خان افغانی اپنی کتاب حیات افغانی میں صفحہ562 پر لکھتے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ بنوں میں سرکاری قانون سے پہلے کوئی ایسا دن نہیں گزرتا جس میں کوئی قتل نہ ہوتا ۔ جب کوئی قتل ہوتا تو عام رواج یہ تھا کہ قاتل کو مقتول کے وارثان اسی طرح قتل کرتے ۔اور اگر قاتل خود اپنی موت مر جاتا تو مقتولین کے وارثان اس کے بھائی،بیٹے یا کسی دوسرے قریبی رشتہ دار کو قتل کرتے۔اسی طرح ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوتا جس میں بہت سے لوگ لقمہ اجل بن جاتے۔ماضی میں اکثر قتل تیر کمان،تلوار ،خنجر یا پھر چھری سے ہوتے تھے۔جیسے جیسے ہی وقت گزرتا گیا لوگ تعلیم یافتہ اور مہذب یافتہ ہوتے رہے۔قتل کرنے کے طریقے بھی بدلتے رہے خنجر،تلوار اور چھری کی جگہ کلاشنکوف اور پستول نے لی لیکن دشمنی کا یہ سلسلہ اب بھی کہیں کہیں جاری ہے۔پتہ نہیں یہ جہالت کب مکمل طور پر ختم ہوگی ؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نکاح اور طلاق
بنوسیان نوجوان اپنے بڑوں کی باتیں مانتے ہیں اور ان کی کہنے پر ہی شادی کرتے ہیں۔اپنی مرضی سے شادی یہاںپر معیوب سمجھی جاتی ہے۔ خواں وہ مرد کی طرف سے ہو یا عورت کی طرف دونوں اطراف سے اسے بہت برا تصور کیا جاتا ہے۔ ماضی میں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کوئی اپنے بڑوں کے مرضی کے بغیر شادی کرتا اسی طرح اپنی مرضی سے شادی کرنے والے کو اکثر علاقوں میں قتل کیا جاتا ۔اسی طرح منگنی کو توڑنے والے دونوں گھرانوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھاجاتا ۔منگنی توڑنے والی لڑکی تو تمام عمر اسی طرح والدین کے گھر میں زندگی گزارتی ہے۔بنوں کے لوگ اس رشتہ داری کے وقت اس بات کا بہت خیا ل رکھتے کہ کہیں کوئی ایسا موقع نہ آئے جو شرم کا باعث ہوکیونکہ جس عورت کانکاح ٹوٹ جائے اس عورت کوحقارت کی نظرسے دیکھاجاتاہے۔
نکاح کی طرح طلاق کا لفظ بھی بنوسیان میں بڑا معیوب سمجھا جاتا ہے۔یہاں کے لوگ حتی ٰ الوسع کوشش کرتے ہیں کہ ایسا موقع نہ آئے کہ معاملہ طلاق تک پہنچ جائے ۔طلاق شدہ مرد اور عورت کی دوبارہ شادی بڑی مشکل سے ہوتی ہے کیونکہ نہ تو طلاق شدہ عورت کے ساتھ کوئی رشتہ کرنا پسند کرتا ہے اور نہ ہی ایسے مرد کو کوئی آسانی سے رشتہ دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پورے صوبے خیبر پختونخوا بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ پورے ملک میں ضلع بنوں میں طلاق کی شرح سب سے زیادہ کم ہے تو بے جا نہ ہوگا۔یہاں پر طلاق کی شرح تقریبا ً2 فیصد ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنوں میں تپہ جات کے ملکان اور سرداران
نام تپہ نام تپہ ملک و سردار
اسمعیل خیل ملک دراب خان اور ملک فیض اللہ خان
اسمعیل خانی ملک سردار خان
آمندی لائق شاہ اور گل حسن
بارکزئی ملک فیروز خان
بازار احمد خان و آمندی تپہ ملک لعل باز خان اور ملک فیض اللہ خان
بازید خان خانصوبہ خان
بھرت ملک شاہ جہان اور ملک رضا خان
جھنڈوخیل ملک ظفر خان عَبید خیل ،ملک خوجہ گل
حسنی زبردست خان
دھرمہ خیل سورانی ملک ضابطہ خان اور ملک نیظم خان
داؤد شاہ ملک خوجی خان کا بیٹا نواری خان
سادات گل احمد شاہ اور شریف شاہ
ہیبک شیرزا خان سورانی ملک شہباز خان
شاہ دیو میریان ملک خلاص خان اور ملک اکرم خان
غوریوالہ ملک سردار خان
فاطمہ خیل شکرا للہ خان
کوٹی سادات بنجم شاہ،مر تضیٰ شاہ،نعمت اللہ شاہ اور بھرام شاہ
ککی زیر ممریز اور سعید
لنڈیڈاک مختلف ملکان
موسی خان سلیم خیل شاہ ولی خان
کالا خیل مستی خیل ملک مستی خان
منڈان ملک شکرا للہ خان
میتا خیل ملک خانصوبہ خان
ممش خیل احمد خان اور نصر خان
ممہ خیل ملک شیری خان اور ملک اکرم خان
نورڑ ملک احمد خان اور ملک بہرام خان
علاقہ نار ملک شیر مست ،ملک سوان وزیر،ملک دکس
وزیران مختلف ملکان
ہوید ملک خدر خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔