ضلع بنوں کی ۹۰ فیصد اراضی موجودہ وقت میں قابل کاشت ہے۔پرانے زمانے میں گنا، گندم، جو اور ہلدی بنوں کی اہم پیداورا تھیں۔جب کہ موجودہ دور میں ہر قسم کی فصل بنوں میں کاشت کی جاتی ہے لیکن زیادہ تر علاقوں میں پانی کا مسئلہ ہے اگر ارباب اختیار اس طرف خصوصی توجہ دیں تو بنوں زرعی پیداوار میں خود کفیل ہوسکتا ہے۔
فصلوں کی سیرابی پانی کا نظام
بنوں کے اکثر علاقے دریائے کرم،دریائے لوڑہ،مروت کنال اور کچکوٹ نہر سے سیراب ہوتے ہیںلیکن بہت سے علاقوں میں پانی کا مسئلہ ہے اگر بارشیں نہ ہو تو ان سب دریاؤں میں مارچ ،اپریل،ستمبر اور اکتوبر میں پانی کی کمی واقع ہو جاتی ہے۔ان دریاؤں سے مختلف چھوٹی چھوٹی نہریں نکالی جاتی ہیں جو کچھ علاقوں کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔
سارے علاقوں میںاراضی کی سیرابی پانی کی تقسیم ہے۔ہر ایک قبیلے کی اپنی باری ہوتی ہے اور باری آ نے پر اپنی زمین سیراب کرتے ہیں۔اگر کسی کی زمین کو پانی کی ضرورت نہیں ہوتی تووہ اپنی باری کسی اور کو دیتا ہے اور وہ زمین سیراب کرتا ہے۔اکثر علاقوں میں پانی کے مسئلے چل رہے ہیں اور بہت سے علاقوں میں اس پر لڑائی جھگڑے ہو کر قیمتی جانیں بھی ضائع ہو تی ہیں۔
پانی لگاتے وقت ندی میں پانی کا رخ موڑنے کیلئے ندی میں مٹی اور تحتیوں سے بند باندھے جاتے ہیں۔جیسے بنوسوالہ لہجہ میں گَنڈی کہتے ہیں۔گَنڈی لگانے کی وجہ سے سارا پانی متعلقہ زمین کو جاتا ہے اور زمین جلدی جلدی سیراب ہوتی ہے۔
نوٹ: ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ مروت کنال جو بنوں میں ہی ہے اس کا نام پھر سے تبدیل کر کے بنوں کنال کیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔