جیسے کے پہلے ذکر ہوا ہے کہ پورے صوبے میں یہ اعزاز بنوں کو حاصل رہا کہ سب سے پہلا اردو اخبار ڈاکٹر پینل کی ادارت میں تحفہ سرحد کے نام سے بنوں سے شائع ہورہا تھا اس کے بعد مولانا عبد القادر نے پشاور سے دوسرا اردو ،پشتو اخبار جاری کیا ۔ تقسیم ہند سے پہلے بنوں کا پہلا ہفت روزہ ماسٹر ٹیک چند بی اے نے آئینہ سرحد کے نام سے جاری کیا جسے بعد میں انگریز حکومت نے بند کر دیا۔بابو تلوک چند نے ایک ہفت روزہ ہمدر د کے نام سے نکالا لیکن یہ اتنا زیادہ مشہور نہیں ہوا۔میر عبدالصمد خان نے رفیق سرحد نامی ہفت روزہ جاری کیا جو کافی عرصہ تک جاری رہا۔ لالا جگن ناتھ نے ایک انگریزی اخبار ڈیلی نیوز کے نام سے جاری کیا یہ بنوں کا سب سے پہلا انگریزی روزنامہ تھا۔ جو قیام پاکستان تک جاری رہا۔پاکستان بننے کے بعد یہ اخبار بند ہوا۔ قیام پاکستان کے بعد ناہید نامی ایک عورت نے پاک دامن کے نا م سے ایک رسالہ جاری کیا۔عنایت میتاخیل کا رہنے والا ڈاکٹر عمر دراز خان نے ہفت روزہ شجاعت جاری کیا ۔
۹۰ کی دھائی میں ڈاکٹر محمد اسلم نے ہفت روزہ ہلال نو جاری کیا جسے بہت سراہا گیا لیکن آپ کی وفات کے بعد یہ بھی بند ہوا۔سب سے کامیاب ہفت روزہ کوہسار تھا قاضی محمد ممتاز اس کے بانی تھے۔لیکن قاضی صاحب کے ڈیرہ جانے کے بعد یہ بھی بند ہوا۔مذہبی مواد پر مشتمل قاری حضر ت گل کا ہفت روزہ ترجمان حق ایک کامیاب تجربہ تھا۔اس کے بعد میر اکبر خان کا آواز بنوں بھی ایک کامیاب کوشش تھی ۔
ڈاکٹر محمد اسلم اور شفیق صدیقی نے ہلال نو جو رجسڑڈ ہفت روزہ تھا کے نام سے جاری کیا۔ اجمل قمر نے آواز بنوں جاری کیا۔موجودہ دور میں پشتو رسالہ شنہ زرغونہ (دھنک )جن کے ایڈیٹر منیب راحل صاحب ہے ایک اچھی کاوش ہے۔امیر زمان امیر اور نا چیز کی سربراہی میں اردو ،پشتو اور نگریزی کا ایک رسالہ پرواز کے نام سے جاری ہوا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنوں کے جریدے اور ہفت روزے
نام جریدہ/ہفت روزہ نام ایڈ یٹر سن اشاعت
۱۔ آغاز سحر شاہد کمال 2012
2۔ آواز بنوں میر اکبر نیازی 1993
3۔ درپن فرید نیاز 2012
4۔ترجمان حق حافظ تاجدار عادل 1998
5۔ عوامی قیادت ہدایت اللہ خان 2012
6۔دکھ سکھ آصف دراز 2005
7۔بنوں ٹائم سید علی شاہ ہمدرد 2006
8۔ اُمید بنوں ملک عامر حمید 2013
9۔عمران مشن عمران علی ناشاد 2009
10۔قیادت عثمان علی خان 2015
11۔گڈ نیوز محمد خلیل
12۔ پرواز عاقل عَبیدخیلوی/ امیر زمان امیر 2016
13۔ مزل پشتو حمید علی شاہ
14۔ تقدیر روخان خان
15۔ شنہ زرغونہ پشتو منیب راحل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قصہ بنوں پریس کلب
بنوں میں صحافت کی ابتدا تقسیم ہند سے پہلے ہوئی تھی لیکن صحافیوں کے لیے کوئی مستقل جگہ نہیں تھی ۔تقریباً ۷۰کی دہائی سے بنوں کے بابائے صحافت ڈاکٹر محمد اسلم، اجمل قمر،قاری حضرت گل اور حاجی صاحب میر نے کی تھی۔ ابتدا ء میں میونسپل کمیٹی بنوں کے ایک کمرے میں بنوں پریس کلب کی شروعات ہوئی تھی۔ نہایت کسمپرسی کی حالت میں مندرجہ بالا افراد نے باقاعدہ بنوں پریس کلب کی عمارت کیلئے ایک کمیٹی بنائی جس کے چیئرمین قاری حضرت گل صاحب مقرر ہوئے۔کافی محنت اور تگ و دو کے بعد جب اس عمارت کی بنیاد رکھی گئی تو بقول خان ضمیر خان سینئر صحافی کچھ لوگوں نے ان پر Stay آرڈر لیئے اور مختلف حیلوں اور بہانوں سے پریس کلب بنوں کی تعمیر روکنے کیلئے دن رات ایک کئے۔جب یہ مسئلہ پیش آیا تو قاری حضرت گل اور ان کی ٹیم نے کام بند کر دیا کام بند ہوتے ہی مخالفین کے چند افراد نے بنیادوں میں کچرا پھینکنا شروع کردیا اور کچرے پر کتبہ لگایا جس پر لکھا تھا کہ بنوں پریس کلب کا قبرستان ۔
بعد ازاں عمارت کی تعمیر کے لئے قاری حضرت گل او ر اس کی ٹیم نے پھر کوششیں تیز کردی۔ لہٰذا نہایت کٹھن مراحل سے گزر کر عمارت کی تعمیر شروع ہوئی۔سنگ بنیاد کے لیے سابق وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید نے ایک لاکھ گرانٹ دیا۔ سابق گورنر خیبر پختونخوا سید افتخار حسین شاہ (مرحوم) نے دو لاکھ جبکہ سابق وزیر اعلیٰ اکرم خان درانی نے مختلف موقعوں پر تقریباً ۱۰ لاکھ روپے بنوں پریس کلب کو دے دیئے۔
پریس کلب بنوں میں ایک پریس کانفرنس ہا ل جو عمار ت کے پہلے حصے میں واقع ہے اوپر خلیفہ گل نواز ہال ہے۔عمارت تقریباً ۱۰ مرلے اراضی پر محیط ہے۔میونسپل کمیٹی،پرانی لائبریری اور قاضی محب ہاکی اسٹیڈیم کے ساتھ اس خوبصورت عمارت کا افتتاح بھی سابق وزیر اعلیٰ اکرم خان درانی نے کیا تھا اور اس وقت کے پریس کلب کے کابینہ سے حلف بھی لیا۔ اس وقت بنوں پریس کلب میں مندرجہ ذیل رپورٹرز تھے۔ اجمل قمر،شفیق صدیقی، محمد اکرم خان،حاجی صاحب میر (مرحوم) ، احسان اللہ خٹک، منظور الدین، عنایت اللہ، محمد عالم خان، عنایت اللہ خٹک، محبوب الرحمن، اکمل خان، محمد خطاب خان، سبیل خان، عبدالسلام بیتاب،پیر نیاز علی شاہ، زاہد محمد، اقبال حسرت، عمر زمان، نصیب زاہدوزیر،فرناس خان، عمران علی ناشاؔد، عمر دیاز ،بہرام خان اور اعجاز محمد ۔ بنوں میں صرف عمر دراز وزیر کے پاس جرنلزم کی ڈگری ہے جو صحافت کے لیے شرط ِاول ہے ۔
بنوں میں رپورٹنگ کی ابتدا قیام پاکستان کے بعد ڈاکٹر محمد اسلم نے 1967ء سے کی تھی اور بنوں پریس کلب کا با قاعدہ آئین1972ء میں سردار علی رُطل صاحب نے ۵۰۰ روپے کے عوض لکھا تھا۔اس آئین کے تحت باقاعدہ جمہوری طریقے سے انتخابات ہوتے ہیں۔آئین سے انحراف کی صورت میں کابینہ متعلقہ رپورٹر کو شو کاز نوٹس جاری کیا جاتاہے اور جواب نہ دینے پر اس کی رکنیت ختم کی جاتی ہے۔پاکستان کے تمام اخبارات،ٹی وی چینلز اور رسائل سے رابطہ رکھتے ہوئے بنوں پریس کلب رپورٹنگ میں اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آل ٹرانسپورٹ تنظیم بنوں
ٍ بنوں سے ملک کے تما م حصوںکو گاڑیاں جاتی ہیں۔سب سے بڑا اڈہ،نیوجنرل بس سٹینڈ( نیو اڈہ )ہے ۔ٹرانسپورٹ سے وابستہ لوگوں کو بھی کبھی کبھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ جن کوحل کرنے کیلئے بنوںمیں آل ٹرانسپورٹ کے نام سے ایک رجسٹرڈ تنظیم بنائی گئی ہے۔جو اِن مشکلات کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کرتاہے ۔اس کارجسٹریشن نمبر04/2014 ہے ملک مقبول زمان اعوان اس کے صدر ہے نائب صدر نسیم خان درانی ہے۔ جبکہ شیر ز علی خان وزیر اس کے چیئرمین ہے۔شہزاد ایڈووکیٹ اس کے لیگل ایڈوائزر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(مانڑیئی) مورچہ نما عمارت
مربع کی شکل میں تقریباً بارہ فٹ تک اس کی بلندی ہوتی ہے۔اس کی تعمیر کے وقت جب اس کی بلندی تقریبا ً۹ فٹ تک پہنچ جائے تو اس عمار ت کو مٹی سے بھراجاتا ہے۔اس عمارت کی تعمیر بھی مٹی سے کی جاتی ہے۔عمارت جب بارہ فٹ تک پہنچ جاتی ہے تو اس میں مورچے بنائے جاتے ہیں۔ اس میں ایک چھوٹا سا کمرہ بھی بنا یا جاتا ہے۔ جس میں رات کے وقت گھر کے لوگ آرام کرتے ہیں اور کسی بھی نا خوشگوار واقعہ کی صورت میں متعلقہ گھر کے افراد مانڑیئی میں محفوظ بیٹھ کر دشمن پر وار کرتے ہیں۔پرانے وقتوں میں تقریباً ہر گاؤں میں ایک بڑی مانڑیئی ہوتی تھی موجودہ دور میں اکثر علاقوں میں مانڑیئی منہدم کر دی گئی ہیںلیکن دور دراز کے علاقے اور حجروں میں اب بھی پرانی مانڑیئی موجود ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔