یہ علاقہ ادبی ذوق کے حوالے سے خاصہ مشہور ہے یہاں کا ہر فرد شاعری اور موسیقی کا دلدادہ ہے شادی بیاہ میں موسیقی کا اہتمام لازمی جز سمجھا جاتا ہے شادی میں دولہا کے ساتھی (جن کے لیے ژنڑی کا لفظ استعمال ہوتا ہے) بنوں کے چوک بازار میں ڈھول کی تھاپ پر ضرور جاتے ہیں اور وہاں بھی ڈھول سے محظوظ ہوتے ہیں منچلے جوان رقص کا مظاہرہ کرتے ہیںصاحب ِ اختیار شادی کے دنوں میں بالخصوص اور عام دنوں میں بالعموم محفلِ موسیقی کا انتظام کرتے ہیں۔ اکثر مائیں اپنے بچوں کو سریلی آواز میں لوریاں بھی سناتی ہیں۔الغرض موسیقی یہاں کے لوگوں میں رچی بسی ہوئی ہے۔ دین دار طبقہ موسیقی کی بجائے نعت خوانی کا اہتمام کرتا ہے۔
یہاں گلوکاروں و موسیقاروں کو اگر چہ عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا لیکن ان کی خاطر و مدارت خوب کی جاتی ہے۔ گلوکاروں میں شیرافگن جانی پہچانی شخصیت تھے اورر تمام موسیقار آپ کا نام ادب سے لیتے ہیں۔ موسیقی کے ساتھ گلوکاری کا بھی جنم جنم کا رشتہ ہے یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ گلنار بیگم مرحومہ، قسمت خان مرحوم، دمساز مروت مرحوم، یسین شاعر، میر گل شاہ استاد، غلام غفار، باجوڑی استاد، پروین خان، دلفراز خان نیازی، رسول بادشاہ، بہادر زمان، نظیف خان، گل خان بنوسئی وغیرہ اہم گلوکار و موسیقی کار تھے۔تقسیم ہند سے پہلے سوکو رام گلوکار و موسیقی کار بنوں کا ایک اہم نام تھاجنہوں نے فقیر ایپی کی زندگی پر بہت سے قصیدے بھی لکھے تھے لیکن افسوس کہ اس کی زندگی پر ابھی تک کوئی تحقیقی کام نہیں کیا گیا ہے۔کسی کو پتہ تک نہیں کہ سوکو رام پشتوکا ایک شاعر،موسیقار اور گلوکار بھی گزرا ہے۔تقسیم ہندکے بعد موصوف ہندوستان چلے گئے۔ جناب شیر افگن نیازی سے تو ہر کوئی واقف ہی ہے موصوف اسی سرزمین کے سپوت تھے۔شیر افگن نیازی نے تقریبا ً۵۰ے زائد پشتو فلموں کے لیے موسیقی ترتیب دی ہے۔آپ نے موسیقی بھارت کے مشہور گلوکارہ لتا منگیشکر کے والد دینا ناتھ سے سیکھی تھی واضح رہے کہ دینا ناتھ بنوں میں بازار احمد خان کے باسی تھے۔تقسیم ہند کے بعد ہندوستان چلے گئے۔شیر افگن نیازی صاحب 19نومبر 1998 ء کو اس دار فانی سے رخصت ہو گئے۔اسی طرح زار سانگہ اور گل نار بیگم دونوں کو صدارتی ایوارڈز سے بھی نوزا جا چکا ہے۔گل نار بیگم بنو ں کی وہ خاتون تھی جوبہت پردہ تھی اوراس کاچہرہ مرتے دم تک کسی نے بھی نہیں دیکھا ۔
بقول امیر زما ن امیر موجودہ وقت میں بلقیاز خان، شاہ فاروق خان، نصراللہ مروت، فلک ناز ناز، رحمن گل،نادر اشناوغیرہ وغیرہ بھی بنوں کے جدید گلوکار و موسیقار ہیں۔ بنوں میںبعض ایسے گلوکار و موسیقار بھی ہیں جو غیر معیاری موسیقی و گلوکاری کو دوام دے رہے ہیں اور معیاری ادب کا بیڑہ غرق کرنے کے درپے ہیں ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ ایسے محفلوں پر پابندی لگائیں۔ اکثر گلوکاروں کااصل مقصد صرف اور صرف پیسہ کما نا ہے کسی بھی طرح کی شاعری کیوں نہ ہو پیسہ لے کر الاپ دیتے ہیں۔پشاور میں مقیم جدید گلوکار بلال سکندری کا تعلق بھی ضلع بنوں سے ہے جو گلوکاری کے میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑھ رہا ہے۔
فلمی دنیا میں سید امیر سرحدی جو کوٹ عادل میں مسجد کے امام تھے ،نے پہلی پشتو فلم کلہ خزان کلہ بہار(کبھی خزاںکبھی بہار) بنائی واضح ہو کہ یہ پشتو کی پہلی فلم تھی لیکن دیرسے ریلیز ہونے کی وجہ سے یوسف خان شیر بانو پہلی ریلیز ہوئی جس کی وجہ سے پشتو فلمی دنیا میں پہلی فلم یوسف خان شیر بانو رہی۔کلہ بہار کلہ خزان میں ہیروئن نورین او ر ہیرو ہمایون قریشی تھے جو بنوں کا باسی تھا جس کا اصل نام عبد السلام ہے۔ اسی طرح پشتو فلم موسیٰ خان و گل مکئی میں ویلن کا کردار بھی بنوں کے باسی امان خان نے ادا کیا ہے۔ جو بنوں میں تالاب کلے کا رہنے والا ہے۔ہمایون قریشی نے سینکڑوں اردو اور پنجابی فلموں میں بھی کردار ادا کئے ہیں۔پشتو فلم زندان کے ہدایت کارشہزادہ خرم مرحوم کا تعلق بھی بنوں کے بازار احمد خان سے تھا۔ موصوف نے بہت سی فلموں میں ہدایت کاری کی۔ مشہور ہیروئن زبیدہ خان، شاہینہ خان اور راضیہ خان کا تعلق بھی بنوں سے ہے۔ ربنواز خان کا تعلق بھی بنوں سے ہے۔ پشتو فلم نر پختون کے ہدایت کار امین اللہ خان عرف خان جی اور اداکار بختیار ٹانگہ مرحوم بھی بنوں کے باسی تھے اس فلم میں بنوں کے مشرف شیراز، دلنواز خان نوید، شاہ سوار خان اور بہادر خان نے بھی مختلف کردار ادا کئے ہیں۔گل زار خان، ممتاز بیگم نے بھی کئی پشتو فلموں میں کر دار ادا کئے ہیں۔ زاہد خان بنوسئی نے پشتو فلم پیغور، وینہ او مینہ اور پیغلہ میں اہم کردار ادا کئے ہیں۔ثمینہ سحر، ڈاکٹر ثروت علی،اعجاز نیازی (پروڈیوسر پی ٹی وی) دل باز خان بھی بنوں کے نامور اداکار و ہدایت کار رہے۔ ان میں اکثر اس دار فانی سے رخصت ہو چکے ہیں۔
سید امیر سرحدی کے بعد بنوں کے بہت سے تعلیم یافتہ لوگوں نے ڈرامہ نگاری اور فلمی سکرپٹس لکھنے شروع کئے جس میں اکثر لکھاری کامیاب بھی رہیں۔جیسا کہ اقبال حسرت نے سپر ہیٹ پشتو فلم معاشرہ لکھ کر ثابت کر دیا کہ بنوں کے سپوت ہر میدان میں باکمال ہیں۔اس کے علاوہ موصوف نے پی ٹی وی ڈرامہ پیژندگلو بھی تحریر کیا جسے پی ٹی وی سے نشر بھی کیا گیا ہے۔اقبال جدون ،سہیل خان ، نصرت علی خان بازار احمد خان نے بھی کئی پشتو ڈراموں میں اہم کردار ادا کئے۔ راقم الحروف (عاقل عبیدخیلوی) نے پشتو ڈرامہ نیمگڑی ارمانونہ لکھی لیکن وسائل کی کمی،خاندانی مسائل اور اسلامی قوانین سے روگرادنی کی وجہ سے اس کے سکرپٹس کسی کے حوالے نہیں کی ہے۔ غازی سیال بابا(صدارتی ایوارڈ یافتہ) نے ان گنت پشتو فلموں کے لیے گیت اور غزلیں لکھ کر بابائے پشتو گیت کا خطاب حاصل کیا ۔ ( بشکریہ اقبال حسرؔت)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنوسیان کی دوستی
بنوسیان میں مثل مشہور ہے کہ ایندی د ے یور دے پورہ دے غو ،غویشے یا خوڑلیئے دی یعنی ہندو مت میں گائے کا گوشت کھانا حرام ہے لیکن دوست کی خاطر ہندو نے گائے کا گوشت بھی کھایا ہے۔ بنوسیان کی دوستی ضرب المثل ہے۔ ایک دوسرے کیلئے اپنی جان تک گنوا دیتے ہیں۔ بہت سے ایسے واقعات ہیں کہ جب دو دوست ایک ساتھ چلتے جن میں ایک کی دشمنی ہوتی اور دشمن اس کو قتل کرتا تو دوست کی وجہ سے اس کو قتل کرنے سے رک جاتا کہ یہ پشتو رسم و رواج کے خلاف کام ہے جب وہ تنہا ہو تب اسے قتل کروں گا۔اس کے ساتھ ساتھ بنوسیان اپنے دوست کو آزماتے بھی ہیں جو آزمائش پر پورا اترتا ہے اس کے ساتھ اپنے تعلقات اور بھی مضبوط کرتے ہیں۔ تھاربرن نے اپنی کتاب میں صفحہ نمبر271 پر لکھا ہے کہ بنوسیان میں مشہور ہے کہ دوست کو سال میں ایک مرتبہ ضرور آزمانا اگر آزمائش میں کامیاب رہا تو دوست اور اگر ناکام ہوا تو اسے چھوڑوMake a friend; test him for a year if he be proof embrace him cordially; If not; cut his acquaintance.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔