جہاں تک پشتو ادب کا تعلق ہے تو پورے بنوں میں پشتو ادب کے شعراء و ادباء بہت زیادہ ہیںاور یہاں پر معیاری ادب پروان چڑھ رہا ہے۔بنوسوالہ پشتو زیادہ تر افغانستا ن کے کندھاری پشتو سے مماثلت رکھتی ہے۔ یہ ایک نفیس زبان ہے۔یوسف زئی پشتو کے علاوہ بنوسوالہ پشتو میں بھی یہاں خوب شاعری ہوتی ہے۔پشتو ادب کی ادبی تنظیموں کے بارے میں جلد اول ملاحظہ ہو۔
پہلی جلد میں عادل ادبی ملگری جس کی بنیاد عبدالسلام بیتاب نے رکھی تھی۔جبکہ زلمی لیکوال جس کے بانی پیرزادہ دلفراز صاحب نے رکھی تھی ،کے بارے میں نہیں لکھا گیا ہے کیونکہ ان کا ڈیٹا ناچیز کو نہیں پہنچا تھا۔اس کے علاوہ چشتیہ ادبی ٹولنہ بھی قابل ذکر پشتو ادبی تنظیم تھی۔بنوں کے لوگوں نے اردو زبان و ادب کیلئے بہت کچھ کیا ہے۔کہتے ہیں کہ اصل میں اُردو کی جنم بھومی بنوں سے ہی ہوئی ہے۔کیونکہ درہ ٹوچی سے گزر کر بنوں میں داخل ہونے والے قافلے اس خطے کو بطورِ رابطہ استعمال کرتے ہوئے ہندوستان کے گوشے گوشے میں وارد ہوتے تھے وہی اس زبان کے اصلی موجد ہیں۔ جس میں بنوں کا ہمیشہ خصوصی عمل دخل رہا۔ آپس کی بول چال نے جس میں کسی حد تک مجبوری کار فرما ہواکرتی تھی۔ اس نئی زبان کو زندگی بخشی۔ اس لئے اولیت کا سہرا بنوں کو ہی حاصل ہے۔ بنوںمیں پٹھانوں نے اردو ادب اور زبان میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ڈاکٹر عبد الستار، طاہر کلاچوی، اسد قریشی، الٰہی بخش، شفیق صدیقی، پروفیسر شمشیر علی خان، عبد المجید نازک، رضاخان، پروفیسر رحمت اللہ درد،سید مقبول حسین شاہ عامر، اختر شاہ،اکرام اللہ زاہد،عقاب خٹک،عبدالخالق عابد،عبدالمعبودعابد،ملک بدیع الزمان ایڈووکیٹ اور پروفیسر سعید اللہ جان نے اردو ادب کے فروغ کیلئے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔
موجودہ دور میں بنوں میں اردو ادب کے فروغ کیلئے صرف ایک ادبی تنظیم انجمنِ اردو بنوں کے نام سے کام کررہی ہے۔امیر زمان امیر،افتخار درانی، پروفیسر ڈاکٹر عمر قیاز قائل،پروفیسر شوکت محمود،ہارون سورانی، پیرزادہ دلفراز، پروفیسر عبدالرحمن ناصر،پروفیسر شیر بالی شاہ،پروفیسر وہاب اعجاز، اکرم وزیر،پروفیسر ڈاکٹر عرفان اللہ ،پروفیسر بخت ایاز سورانی،جاوید احساس،شاہد خان شاہد شیخان،اقبال حسرت،بیتاب عادلوی،نعیم ہاتھی خیل اور ناچیزبنوں میں اُردو ادب کے نمایاں ستار ے ہیں ۔جو اُردو ادب کی ترقی کیلئے کوشاں ہیں۔ان میں کچھ حضرات صرف نثر میں کام کرتے ہیں جبکہ کچھ نثر اور شعر و شاعری دونوں میں مصروف ِعمل ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنوں کے ادبی مسائل اور ان کا حل
صوبہ خیبر پختونخوا کا سب سے پہلا اردو اخبار1898ء میں ڈاکٹر پینل نے تحفہ سرحد کے نام سے جاری کیاتھا اس کے بعد دوسرا اخبار مولانا عبد القادرنے پشاور سے جاری کیا تھا تو یہ اعزاز بھی بنوں کو جاتا ہے کہ اردو کا سب سے پہلا اخبار پورے صوبے میں بنوں سے شائع ہوتا تھا۔ بنوں میں اردو اور پشتو ادب کے سرچشمے ہیں ۔پشتو ادب میں تو یہاں کے شعرا ء و ادباء نے جو کارنامے سرانجام دئیے ہیں ان کو پشتو کے ادبی تاریخ میں آب زر سے لکھا جائے گا۔ لیکن اس کے باوجود یہاں کے ادیبوں اور شاعروں کو کافی مسائل درپیش ہے۔جن کوحل کرنے کی اشد ضرور ہے کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو معاشرے کی آنکھوں کی مانند ہے۔اس سلسلے میں راقم الحروف خود اکرم خان درانی صاحب (سابقہ وزیراعلیٰ)سے ملے ہیں اور ایک طویل ملاقات کے بعد اکرم خان درانی صاحب نے بنوں میں شاعروںاور ادیبوں کیلئے طاہر کلاچوی ادبی کلچر ہال یا غازی سیال ادبی کلچر ہا ل کی تعمیر کی یقین دہانی کرائی ہے اس کے علاوہ دوسرے سیاسی قائدین سے بھی ملا انہو ں نے بھی یقین دہانی کرائی ہے کیونکہ سارے بنوں میں شاعروں اور ادیبوں کے پروگرامات اور سیمینارز کیلئے کوئی مستقل جگہ نہیں ہے۔اکرم خان درانی صاحب نے اپنے دور حکومت میں اڈیٹوریم ہال بنایا ہے لیکن اس میں پروگرام کرنے کیلئے باقاعدہ 5000 ہزار روپے جمع کرنے ہوتے ہیں جبکہ شعراء ،ادباء سب سے زیادہ غریب طبقہ ہے۔ لہٰذا اس سلسلے میں ارباب اختیار کو اقدام کرنا چاہیے۔اس کے علاوہ بنوںمیں جتنی ادبی تنظیمیں بھی ہیں ان سب کوچاہیے کہ سب کچھ بھلا کر ایک مشترکہ ادبی تنظیم بھی بنائے تاکہ شاعروں اور ادبیوں کے حقوق پر کوئی ڈاکہ نہ ڈالے ۔ اس تنظیم کو کوئی بھی اپنی ذاتی مفاد کے لیے استعمال نہ کرے ورنہ ان کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے اور اس ادبی تنظیم میں ہر ادبی تنظیم کے ایک رکن کو کوئی نہ کوئی عہدہ دیا جائے تا کہ کوئی گلہ بھی نہ کرے اور ایک مشترکہ آئین اس کے لیے بنائی جائے اور اس پر سختی سے عمل بھی کیا جائے ۔ان مسائل کے علاوہ بنوں کے ان باشعور لوگوں کے لیے میرٹ کی بنیاد پر حکومت سے وظیفہ مقرر کیا جائے اور یہ وظیفہ صرف ان کو دیا جائے جس نے ادب کے لیے واقعی تحریری شکل میں کچھ کیا ہو نہ کہ شخصیت پر ۔
ان گنت مسائل کی جانب حکومت وقت اور ضلعی انتظامیہ کو ٹھوس اقدامات کرنے چاہیئے ورنہ شعور بانٹنے والے یہ لوگ کہیںان کی لاپرواہی کی وجہ سے ختم نہ ہو جائے۔ڈپٹی کمشنر صاحب بنوں اور حکومت وقت کو یہ بھی چاہیئے کہ طاہر کلاچوی کے نام سے بنوں میں کوئی ایک سڑک منسوب کی جائے۔بنوں سٹی میں ان گنت سڑکیں ہیں ان میں اگر ایک پر یہ نام رکھا جائے تو ان میں کیا خرج ؟طاہر کلاچوی کا کلام بی۔اے اور ایم۔اے کے پشاور یونیورسٹی اور بنوں یونیورسٹی کے علاوہ صوبے کے دیگر یونیورسٹیوں میںبھی شامل ہے۔اس کے علاوہ موصوف کی زندگی اور ادبی تحریروں پرکئی یونیورسٹیوں سے مختلف طلباء نے ایم۔فل اور پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگریاں بھی حاصل کیں ہیں۔جو ایک اعزاز ہے۔اگر پشاور میں ایک سڑک قلندر بابا اور کاکا صنوبر حسین کے نام سے منسوب کئے جاسکتے ہیں تو بنوں میں ایک سڑک طاہر کلاچوی کے نام سے کیوں نہیں ؟جو بنوں کے ادبی ہیروتھے۔
بنوں میں یونیورسٹی بھی ہے جس میں لاکھوں طلباء زیور تعلیم سے آراستہ ہو کر ملک و ملت کی خدمات کررہے ہیںلیکن افسوس کہ اس میں پشتو اور اردو ایم۔فل اور پی ۔ایچ۔ڈی کے کلاسز نہیں ہیں۔لاکھوں طلباء صوبے کے دیگر جامعات سے پشتو اور اردو میں ایم۔فل اور پی۔ایچ،ڈی کر رہے ہیں۔یہ کہا ں کا انصاف ہے ؟ ہمارے کئی دوست نے عصمت اللہ سابق وائس چانسلر بنوں یونیورسٹی سے ملے تھے لیکن بے سود ۔اگر بنوں یونیورسٹی میں ان دو سبجیکٹس کی کلاسز شروع ہوئیں تو یقین سے کہتا ہو ں کہ سب سے زیادہ آمدنی حکومت کو ان کلاسز سے ہوگی۔کیونکہ لکیمروت شمالی وزیرستان، کرک،جنوبی وزیر ستان اور بنوں کے تمام طلباء و طالبات بنوں یونیورسٹی سے ہی داخلے کریں گے لیکن ارباب اختیار کو بھی چاہیئے کہ ان کے اخراجات کم سے کم تر ہو ۔کچھ جامعات کی فیس تو صرف اشرافیہ ہی ادا کر سکتی ہے۔گورنر خیبر پختونخوا اور موجودہ وائس چانسلر کو اس طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نائن الیون کے بعد بنوں میں اَدب پر اثرات
نائن الیون کے المناک اور درد ناک واقعہ کے بعد ہمارے سارے ملک پر سیاہ بادل چھا گئے جس نے سارے ملک کو اپنے لپیٹ میں لے لیا لیکن کچھ علاقوں کو تو حد سے زیادہ متاثر کیا جس میں شمالی وزیر ستان،جنوبی وزیرستان،پشاور،خیبر ایجنسی اور بنوں شامل ہے ۔جہاں دیگر چیزیں ان سے متاثر ہوئی وہاں ادب پر بھی ان کا اثر ہوا ہے۔خصوصاً پشتو ادب پر تو ابھی تک اس کا اثر طاری ہے۔ضلع بنوں کے شاعروں اور ادیبوں کی تحریر میں انقلابی رنگ شامل ہوا اورمیرے خیال میں کافی حد تک بہت سے شعراء و ادباء نے حقیقی رنگ کو دھار لیا ہے۔اور ان کی تحریرمیں اب حقیقت کا عنصر آچکا ہے جو ایک اچھی اور قابل ستائش بات ہے۔یہاں کے شعرا ء و ادبا ء نے ہر قسم کے موضوعات کو چھیڑا ہے۔
سرکاری طور پر سیمینارز کا انعقاد
بنوں کی تمام ادبی تنظیموں کی لیے سرکاری طور پر بنوں میں ہی وقتا فوقتاًادبی سیمینارز کا انعقاد ہونا چاہیے اسی طرح ادب ذوق لوگوں میں مثبت سرگرمیاں پیدا ہوں گی اور تخریبی ادب کا راستہ روک جائے گا۔ان سیمینارز میں بلا امتیاز ہر ادبی تنظیم کے ارکان شامل ہونے چاہیے اور خاص کر ان ارکان کو خصوصی توجہ دینی چاہیے جنہوں نے ادب کیلئے واقعی تحریری شکل میں کچھ کیا ہونا کہ شخصیت اور عہدے کو مد نظر رکھتے ہوئے !اس کے علاوہ سرکاری طورپر ہر ادبی تنظیم کے لیے بلا امتیاز ادبی پروگرامات کرانے کا انعقاد بھی کرانا چاہیئے۔جب تک بنوں میں کلچر ہا ل کی تعمیر نہ ہو تب تک ضلعی انتظامیہ کو چاہیئے کہ بنوں اڈیٹوریم ہا ل بنوں کے ادبی پروگرامات کے لیے بالکل فری کیاجائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔