بنوں میں بہت سی مشہور مساجد ہیں جن میں ہزاروں لوگ نماز ادا کرتے ہیں۔ان میں مسجد جعفر خان اندرون لکی گیٹ جس کی بنیاد ملک جعفر خان نے1849میں رکھی تھی۔محلہ حق نواز چائے بازا ر میں قاری حضرت گل کی مسجد جسے مسجد حقنواز کہتے ہیں جن کی بنیاد 1890میں لکی مروت کے خان حقنواز خان نے رکھی تھی بھی ایک بڑی مسجد ہے۔بیرون لکی گیٹ سڑک کے کنارے مسجد حافظ جی کی بنیاد1862میں پولٹیکل تحصیلدار احمد خان قصوری نے رکھی تھی۔اس مسجد پر اس وقت ۹۰۰۰ کا خرچہ آیا تھا۔بیرون قصابان گیٹ بنوں سٹی میں مولوی عبدا لصمد خان کی امامت سے فیض یاب مسجد کی بنیاد بھی 1868کو قصوری خاندان کے ایک فرد نے رکھی تھی۔ اسی طرح ٹانچی بازار کی مسجد جو پہلے منصف مسجد کے نام سے مشہور تھا، زنانہ ہسپتال کی مسجد، مسجد غزنی خیل، مسجد غلہ منڈی ،مسجد خطیب صاحب، اور مسجد میلاد پارک شہید بابا بنوں کی اہم مساجد ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنوں کے گرجا گھر اور مندر
تقسیم ہند سے پہلے بنوں میں تقریبا ً۳۰ فیصد ہندوؤں آباد تھے۔ لیکن تقسیم کے بعد اکثر ہندو گھرانوں نے ہندوستان ہجرت کی لیکن کچھ گھرانے ابھی بھی علاقہ بھرت ،بنوں سٹی اور بنوں چھاؤنی میں آباد ہیں جہاں وہ مکمل مذہبی آزادی کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں۔ہندؤوں نے یہاں پر عبادات کیلئے مختلف مندر بنائے تھے ۔ جن میں سے ٹانچی بازار اور حسین آباد(بھنگی بستی) کے مندر آج بھی ویسے کے ویسے ہیں اور ان میں یہاں کے ہندو اپنی عباد ت کرتے رہتے ہیں۔ تقسیم سے پہلے ٹانچی بازار کا مندرجسے ننگا بابا کا مندر بھی کہتے تھے، محلہ گوپا خیل کا مندر، مندر بابا نرنجن داس سبزی منڈی، مندر لنڈورام اندرون لکی گیٹ، بالمیکی مندراندرون ہوید گیٹ قابل ذکر مند ر تھے۔ پنڈت عطر چند، پنڈت ویر چند اور پنڈت بہادر رام ان مندروں کے مشہور پجاری اور پنڈت تھے۔
اس کے علاوہ بنوں میں عیسائی بھی تھے ان کے کچھ گھرانے بھی ابھی تک بنوں میں آباد ہیں۔ بنوں چھاؤنی میں کھیتولک گرجا گھر جو ابھی تک قائم ہے قابل ذکر گرجا گھر ہے۔جس میں ابھی بھی یہاں کے تمام عیسائی پوری آزادی کے ساتھ بلاخوف اپنی عبادات کرتے ہیں۔ اس سے پہلے پادری نپولین مسیح تھے۔ ڈاکٹر پینل نے پینل میموریل ہسپتال میں ایک گرجا گھر بنایا تھا وہ بھی ابھی تک قائم ہے اور ان کے پادری عنایت مسیح تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنوں کے میلے
ماضی میں بنوں میں صرف آکرہ علاقہ ککی ،بازار احمد خان اور بنوں سٹی میں میلے ہوتے تھے۔لیکن اب چونکہ ضروریات زندگی زیادہ ہوگئی ہیں اس لیے اب مختلف علاقوں میں مختلف ایام کو میلے ہوتے ہیں۔ جن میں ضروریات زندگی کی تمام چیزیں ملتی ہیں۔البتہ پشتون رسم و رواج کی وجہ سے یہاں کے میلوں میں سرکس اور عورتوں پر مکمل پابندی ہے۔
موجودہ دور میں بنوں کے مشہور میلوں میں نعمت میلہ، جانی خیل میلہ،منگل میلہ،ککی میلہ کافی مشہور میلے ہیں۔ان میلوں میں ضرویات زندگی کی تمام چیزیں ملتی ہیں۔دور دور کے لوگ ان میلوں میں مختلف چیزیں لا کر فروخت کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شش پئے (چاند رات)
بنوں کے لوگ شش پئی (شب شہود)یعنی چاند رات کو بنوسوالہ پشتو میں شش پئی کہتے ہیں۔اس رات یہاں کے لوگ خوب جشن مناتے ہیں۔ جب اعلان ِعید ہوتی ہے تو فائرنگ کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جوصبح تک جاری رہتا ہے۔ اکثر گاؤں میں لوگ اس رات کو بازاروں کا رخ کرتے ہیں اور رات گئے تک بازاروں میں گھومتے پھیرتے ہیں۔چھوٹے بچے عشاء کی نماز کے بعد آگ جلا کر اس کے گررد کھومتے ہیں اور مخصوص گیت گا کر پٹاخے استعمال کرتے ہیں۔ عورتیں گھروں کی صفائی کر کے ہاتھوں پر مہندی لگاتی ہیں اور ساتھ ساتھ چوڑیاں پہنتی ہیں۔ الغرض سارے بنوںمیں ایک حسین اور دلکش منظر ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنوں کی عیدیں
عید الفطر اورعید الا ضحی مسلمانوں کے اسلامی تہوار ہیں یہ دونوں عیدبنوں کے لوگ پورے جوش و خروش سے مناتے ہیں۔ عید الفطررمضان المبارک کے اختتام پر جبکہ عید الاضحی حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسمٰعیل ؑ کی یاد میں منائی جاتی ہے۔ عید الفطر سے کچھ دن پہلے لوگ عید کی خریداری کرتے ہیں فجر کی نماز کے بعد ہر گاؤں اور قبیلے کے لوگ اکٹھے ہو کر سارے گاؤں میں گھومتے ہیں اور ہر گھر میں جاکر بنوں کے مقامی کھانے کھاتے ہیں۔کچھ لوگ اصلی گھی اور کیچڑی بنا کر گھر کے صحن میں ان لوگوں کیلئے رکھتے ہیں تو کچھ لوگ پلاؤ ،زردہ اور کچھ لوگ فرنی ،کھیر ،سویاں اور کچھ لیٹائی(وزیرقبائل کی مقامی کھیر)بنا کر گاؤں کے تمام لوگوں کیلئے رکھ دیتے ہیں آخری گھر پر تما م گاؤں کے لوگ اور مولوی صاحب اجتماعی دعا کرکے چلے جاتے ہیں۔اس کے بعد عید کی نماز کیلئے لوگ تیاری کرتے ہیں۔ عید کی نمازکے بعد لوگ ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں اور عید مبارک کہتے ہیںبچے ایک دوسرے سے انڈے لڑاتے ہیںاور پارکوں کا رخ کرتے ہیں جبکہ بڑے اپنے آباواجداد کی قبروں پر جاتے ہیں اور ان کے ایصال ثواب کیلئے دعائیں کرتے ہیں Bannu Or Our Afghan Frontierمیں صفحہ نمبر 149 پر درج ہے کہ:
We call the day eidulfitar or the little eid(Kam Akhtar) on it every one is happy & dressed in the best & feats.
عید الفطر کے بعد عید الضحیٰ بھی بنوں کے لوگ خوب دھوم دھام سے مناتے ہیں۔ عید سے چند دن پہلے یہاں لوگ قربانی کے جانور خریدتے ہیں۔ اور عید کی نماز کے بعد قربانی کے جانور ذبح کرکے گوشت اپنے رشتہ داروں،غریبوں اور مسکینوں میں تقسیم کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔