اسلام نے عورت کو چار دیواری میں رہنے کا حکم دیا ہے۔ صنف ِنازک بغیر کسی عذر کے گھر سے باہر نہیںجا سکتی۔ بنوں کی عورتیں بھی بِلا اجازت اور بلا عذر گھر سے باہر نہیں نکلتیں۔ اگر کوئی عذر پیش بھی آجائے تو وہ برقعہ پہن کر نکلتی ہیں۔چادر میں بھی نہیں نکلتیںکیونکہ چادر میں نکلنا بھی یہاں پرایک عیب سمجھاجاتاہے۔
بنوں کی عورتیں عام طور پر چپل،سینڈل اور شلوار ،قمیص استعمال کرتی ہیں۔ سر پر دوپٹہ لازمی رکھتی ہیں اپنے بڑوں اور گھر کے مردوں کے سامنے نہیں بولتیں اور نہ ہی گھر کے مردوں کے ساتھ زیادہ دیر تک بیٹھتی ہیںالبتہ جب کوئی مسئلہ پیش آتا ہے تو ماں مشورے میں ضرور بیٹھتی ہے۔ یہاں کے مرد بھی عورتوں کو وہی عزت دیتے ہیں جو اسلام اور پشتو رسم و رواج نے جائز قرار دیا ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں کی عورتیں اپنے گھروں کے اندر بخوشی زندگی گزارتی ہے۔اور کھبی بھی کسی کو شکایت کا موقع نہیں دیتیں بلکہ جو عورتیں ایسی زندگی گزارتی ہیں اس پر علاقے کی تمام عورتیں فخر کرتی ہیں۔جو عورتیں تعلیم حاصل کرتی ہیں وہ نقاب یا برقعہ استعال کرتی ہیں۔ میرے والد محترم فرماتے ہیں کہ بیٹا تعلیم عورت کا حق ہے لیکن جو بنوسئی عورت تعلیم بنا نقاب یا برقعہ کے حاصل کرتی ہیں وہ بنوسئی پشتون عورت ہو ہی نہیں سکتی۔کیونکہ تعلیم نقاب اور بر قعہ میں بھی توہو سکتی ہے یہ بنوسیٔ عورت کی پہچان ہے کہ وہ برقعہ یا پھر نقاب استعمال کرے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنوسیان کی مہمان نوازی
ویسے تو مہمان نوازی تمام پشتونو ں کا شیوہ ہے لیکن ضلع بنوں کے پشتون شروع سے ہی کچھ زیادہ مہمان نواز ہیں۔ بنوسوالہ پشتو میں مہمان کی خاطر و مدارت کرنا اور اس کے تحفظ کو میلمستیا یعنی مہمان نوازی کہتے ہیں۔ قبیلے کے لوگ اس پر اس حد تک عمل کرتے ہیں کہ اکثر اوقات مہمان میزبان کے لیے پریشانی کا باعث بن جاتاہے۔ اس کی ذمہ داری اس لمحے ختم ہوتی ہے جس لمحے مہمان ،میزبان کے علاقائی ذمہ داری کی حدود سے باہر نکل جاتا ہے گھر میں کچھ نہ ہو تو علاقے کے دوسرے عزیز و اقارب اور دوستوں سے چیزیں منگوا تے ہیں لیکن مہمان کی خوب خاطر و تواضع کی جاتی ہے۔ اور اس عمل میں کسی قسم کی کو ئی کمی نہیں ہونے دیتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اشر (ٹینگہ یا بگاڑہ)
بنوںمیں ماضی سے یہ روایت چلی آرہی ہے کہ جو کام ایک فرد اکیلے نہیں کرسکتا یا جو کام ایک خیل کا یا قبیلے کا ہوتا تھا۔ تو اس کیلئے علاقے میں بر سرعام اعلان کیا جاتا تھا کہ فلاں دن فلاں کام ہے اس کیلئے قبیلے کے ہر گھر سے ایک یا دو آدمی ضرور بہ ضرور حاضر ہوتے اور وہ کام اجتماعی اندازمیں بلا اجرت کے تکمیل کو پہنچتا۔اس کو بنوسیان ٹینگہ کہتے تھے۔ اگر کسی گھر کا کوئی فرد شامل نہیںہوتا تو قبیلے کے مشر یا سردار ان پر جرمانہ عائد کرتا ۔
اکثر ندیوں اور نہروں کی کھدائی کے دوران، چوک یا حجرہ یا قبرستان میں کوئی کام ہوتا ہے تو ٹینگہ ہوتا ہے۔ اگر چہ بنوں شہر میں ٹینگے نہیں ہوتے لیکن بنوں کے گاؤں میں اب بھی یہ روایت موجودہے۔خود ہمارے علاقے نور ملی جھنڈوخیل میں نہروں کی کھدائی کے لیے قبیلے کے چوک یا حجرے یا پھر قبرستان میںکوئی کام ہو تو ٹینگہ کیا جاتا ہے۔