پشتونوں کے نسل و اصل کے بارے میں مختلف نظریات ہیں ! پشتونوں کی اصل نسل کے بارے میں ایک مشہور نظریہ یہ ہے کہ پشتون ان اریائی قبائل کی ایک شاخ ہے جوہندویورپین کے نام سے مشہور ہے۔ یہ نظریہ لفظ پشتون اور پشتو زبان کی تاریخی اور لغوی تحقیق پر مبنی ہے۔ اس نظریے کے مطابق ۱۴۰۰ ق۔م قیاسا یا اس سے آگے پیچھے کے زمانے میں ارغنداب کی وادی میںکو ہ سفید کے ارد گرد وادی کرم،وادی گومل،وادی کابل، وادی کونڑ، گندھارا، وادی سوات، وادی تالاش اور اباسین کے مغربی ساحل تک جو لوگ رہتے تھے و ہ نسل کے لحاظ سے ارین تھے۔ یہ لوگ مختلف قبیلوں میں تقسیم تھے جو رگ وید کی شہادتوں کے مطابق پانچ قبیلے تھے یعنی پکھیتا، سیوا، ویشانن، بھالان،الینا ! ان پانچ قبیلوں میں اہم قبیلہ پکھیتا تھا یہ قبیلے جو زبان بولتے تھے وہ بعد میں پکھیتا قبیلے کی مناسبت سے پکھتو(پشتو) کے نام سے مشہور ہوا اور ان کے رہنے کا سارا علاقہ پکتیکا(پختینا، پختونخوا) کے نام سے یاد ہوا۔ ان لوگوں کو بعد کے یونانی مورخوں نے اپنے لہجے کے مطابق پکتویس،پکتوان،پکتین اور پرستائے وغیرہ کے ناموں سے یاد کیا ہے اور اب ان تمام الفاظ سے مراد پشتون، پختون ہے۔
پشتونوں کے بارے میںدوسرا نظریہ یہ ہے کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ حضرت ابراہیمؑ کی نسل سے بی بی قتورہ کی اولاد ہیں اس نظریے کے مطابق پشتون نسلا بی بی قتورہ کی اولاد ہیں۔ اس نظریے کے حامی کہتے ہیں کہ بی بی سارہ کی وفات کے بعد بی بی قتورہ حضرت ابراہیمؑ کی زوجیت میں آگئیں او ر ان سے چھ بیٹے پیدا ہوئے جن کے نام یہ ہیں زمران،یستان،مدان،مدیان، اسباق،سوخ ! بی بی قتورہ کی ان چھ بیٹوں میں تورات میں صرف دو بیٹوں یستان اور مدیان کی اولاد کا تذکرہ ہے اور باقی چار بیٹوں کے صرف ناموں کا ذکر ہے۔ مدیان کی اولاد مدیانی اور یستان کی اولاد یستانی کے نام سے مشہور ہوئی۔یستان کی اولاد میںحضرت شیعب ؑ پیدا ہوئے او ر اس کے بعد یہ قوم قینی کے نام سے مشہور ہوئی۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ لوگ پشت کے علاقے میں رہائش پذیر ہوئے اس نظریے کے حامی بتاتے ہیں کہ پشت سبزوار کے خطے میں اس علاقے کا نام تھا جو بعد میں اسلامی دور میں طبرستان کے نام سے مشہور ہوا۔ اس نظریے کے مطابق اس علاقے(پشت یا پشتیا) کے رہائشی وقت گزرنے کے ساتھ پہلے پاشتین اور بعد میں پشتون، پختون کے نام سے مشہور ہوئے۔
پشتونوں کے بارے میں تیسرے نظریے کے حامی کہتے ہیں۔کہ پشتون یونانی النسل ہیں اس علاقے کے سرگرم حامی عبدالغنی خان مرحوم ہے جنہوں نے اپنی کتاب پٹھان میں اس نظریے کی تفصیلات بیان کی ہیں۔ان کے خیال میں پشتونوں کے نام ان کے دیہاتوں اور علاقوں کے نام ، ان کے رسم و رواج ان کے نوجوانوں اور بزرگوں کے خدوخال یونانیوں سے زیادہ مشابہت رکھتی ہے۔ اس بنا پر وہ پشتونوں کو یونانی النسل خیال کرتے ہیں (تفصیل کے لیے ان کی کتاب پٹھان دیکھی جا سکتی ہے۔
پشتونوں کے بارے میں جدید نظریہ سعداللہ جان برق ؔ صاحب کا ہے اس نے سائنسی تحقیق کی بنیاد پر پشتونوں کے بارے میں بحث کی ہے۔ تفصیل کیلئے اس کی اردو کتاب پشتون اور نسلیات ہندو کش کا مطالعہ کا جائے۔ وہ لکھتے ہیں کہ خالص خون، خالص نسل یا ایک ہی جد کی اولاد کا تصور قطعی غلط ہے تصور ہے۔کیونکہ انسان ہوں یا حیوان ہوں یا منجمد ذی حیات یعنی نباتات ہوں آپس میں خلط ملط ہوئے بغیر باقی رہ ہی نہیں سکتے اسی طرح انسان یا حیوانات کبھی کسی ایک جد کی اولاد نہیں رہے ۔آگے لکھتے ہیں پشتون بھی انسانی نسل کا حصہ ہے اور ان کو بھی ایک نسل یا صرف ایک ہی جد کی اولاد نہیں مانا جا سکتا۔ جب اس پہاڑی ہندو کش سے مختلف انسانی جتھے نکل رہے تھے تو ان سب کی کچھ نہ کچھ باقیات یہاں رہ جاتی تھیں ان کا مجموعی نام پشتون ہے جیسے ہم نسل نہیں بلکہ قوم کہیں گے۔ قوم کے لیے ضروری نہیں کہ ایک ہی جد اولاد ہو جیسے انگریز قوم، جرمن قوم، عرب، یہودی،امریکی وغیرہ۔ مطلب یہ کہ قوم کے دائرے میں مختلف عناصر کسی ایک رشتے میں منسلک ہو جاتے ہیں یہ رشتہ جعرافیائی بھی ہو سکتا ہے اور نظریاتی یا مذہبی بھی ہو سکتا ہے۔
پشتونوں کے بارے میں سب سے پہلے معروف و مشہور نظریہ بنی اسرائیلی نظریہ ہے۔ نعمت اللہ ہروی کی کتاب میں یہ نظریہ یوں بیان کیا گیا ہے۔ ملک طالوت اسرائیل کا بادشاہ تھا لیکن اپنی موت سے پہلے اس نے حکومت حضرت داود ؑکے سپرد کردی۔ ملک طالوت کی دو بیویاں حاملہ تھیں اس کی موت کے بعد دونوں کی اولادیں ہوئیں داود نے ایک کا نام برخیا اور دوسرے کا نام ارمیا رکھا۔ برخیا کا ایک بیٹا آصف کے نام سے معروف ہوا اور ارمیا کے بیٹے کا نام افغنہ رکھا گیا داود کے بعد حضرت سلیمان ؑ کے دور حکومت میں آصف اور افغنہ سارے امور مملکت کے نگران بنائے گئے پھر افغنہ کی اولاد اتنی بڑھ گئی کہ گنتی سے نکل گئی اور افغان اس افغنہ کی اولاد ہیں۔ ملک قیس عبدا لرشید جو پشتونوں کا جد امجد ما نا جاتا ہے اسی افغان کی اولاد میں سے ہیں۔ (تاریخ خورشید جہاں)