بنوں شہر سے تقریبا ً۷ کلو میٹر کے فاصلے پر نیظم بازار اور کوٹی سادات کے ساتھ بوزہ خیل واقع ہے۔انگریز دور سے پہلے بوزہ خیل کے چاروں طر ف پر فصیلیں تھی۔جو بعد میں ڈھائی گئیں تقسیم سے پہلے بوزہ خیل میں کافی ہندو آباد تھے ۔ اس علاقے کے بالکل وسط میں ہندوں نے عبادت کیلئے مند ر بھی بنایا تھا۔
کہتے ہیں کہ چونکہ اس علاقے میں ایک قوم آباد نہیں تھی بلکہ مختلف قومیں آباد تھیں۔لفظ بوزہ بعض سے نکلا ہے بعض سے بعضے اور بعضے سے بازے پھر بازے سے بوزہ خیل ہوگیا۔بنوسوالہ پشتو میں بعضے بعضے کچھ ،کچھ کو کہتے ہیں کچھ کچھ قوموںکے لوگ یہاں آباد تھے۔اسی وجہ سے یہ لفظ بگڑ کر بعضے سے بازے اور پھر بوزہ خیل ہوگیا۔بوزہ خیل بھی اولاد شیتک نہیں ہے ۔ اگر چہ کچھ گھرانے اولاد شیتک کے بھی اس میں آباد ہیں کچھ گھرانے پشاور کے مومندوں کے بھی آباد ہیں لیکن بنیادی طور پر ان میں میاں ایک بڑی قوم ہے۔اس کے علاوہ اعوان،لوہار اور باغبان بھی یہاں پر آباد ہیں۔یہاں کے لوگ زیا دہ تر تعلیم یافتہ ہیں ۔امن پسند اور مہمان نواز ہیں۔
مذہبی لحاظ سے مولانا عبدالرؤف صاحب،مولاناعبدالسلام صاحب،مولاناعبد العلی صاحب،مولانا عبدالقیوم صاحب،شیخ الحدیث مولانا احمد شاہ صاحبؒ اور مولاناعجب نور صاحبؒ اہم شخصیات ہیں ان میں سے کچھ بقیدحیات ہیں جبکہ کچھ فوت ہوچکے ہیں۔ مولاناعجب نور صاحبؒ وہ چمکتا ستارا تھا جنہوں نے معراج العلوم کی بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔یاد رہے کہ معراج العلوم بنوں میں سب سے پہلی باقاعدہ دینی درسگاہ تھی جو ابھی بھی قائم ہے۔ سماجی شخصیات میں میاں حبیب الرحمن،میرا داد شیخ، امیر شاہ، گل داد خان، سمیع اللہ خان قریشی، میاں محفوظ الرحمن ، میر سرور جان،حنیف اللہ اعوان اورگل دار علی شامل ہیں جبکہ تمام بوزہ خیل کے مشر یعنی سردار میاں سلیم الرحمن ہیں ۔سیاسی لحاظ سے یہ علاقہ جمعیت کا گڑھ ہے۔جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کے کچھ اہم ارکان بھی بوزہ خیل سے تعلق رکھتے ہیں۔
بائیست خیل
میریان روڈ پر نہر کچکوٹ کے ساتھ ایک چوک ہے ایک سڑک میتاخیل جاتی ہے جبکہ دوسری سڑک بائیست خیل جاتی ہے ۔ بائیست خیل کے علاقے میں زیادہ تر سبزیاں کاشت کی جاتی ہیں۔تعلیم کی کمی کی وجہ سے یہاں کے لوگ زیادہ تر سخت اور جھگڑالو ہیں۔لیکن اس خیل کے کچھ لوگ امن پسند اور مہمان نواز ہیں۔پشتون رویات پر مر مٹنے والے اس خیل میں ملک میر غفور خان اور وکیل خان ملک ممتباز خان، ڈاکٹر رحم باز خان چلڈرن اسپشلسٹ(حال سعودی عرب) اہم شخصیات ہیں۔
سیاسی لحاظ سے جمعیت علما ء اسلام (ف) پختونخوا میپ اور جمعیت علماء اسلام اہم سیاسی پارٹیاں ہیں۔مفتی ظفر یاب ،وکیل خان اہم سیاسی شخصیا ت ہیں ۔ادبی لحاظ سے یہ علاقہ قحط الرجال کا شکار ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا خیل بنوں
ایک گنجان آباد علاقہ ہے۔ سرمست میراخیل،کلاں میرا خیل، براڑہ میرا خیل، ہائی تلی میرا خیل، فضل شاہ میرا خیل،معاویہ کلہ،تاجی کلہ، چکڈاڈان میراخیل اور توت گڑھی میراخیل (اُرمڑ) اس علاقے کی چھوٹی چھوٹی بستیاں ہیں۔ان تمام بستیوں کا صدر مقام سرمست میرا خیل ہے۔میرا خیل میں توت گڑھی میرا خیل کے علاقہ تمام خواجہ خان کی اولاد ہیں۔ اس لیے اس خیل کو خواجہ خیل بھی کہتے ہیں ۔ان کے ابا واجداد افغان پشتو ن تھے ۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اولادشیتک نہیں ہے ۔توت گڑھی میں ارمڑ آباد ہیں جو 1850ء میں جنوبی وزیرستان سے آئے اور یہاں آباد ہوئے۔
میرامست اور زبور نے اس علاقے پر قبضہ کیا بعد ازاں ان کی اولاد سارے میرا خیل علاقے میں پھیل گئی۔حاجی امیر مختیار جو قیام پاکستان سے پہلے فوت ہوچکے ہیں میرا خیل کے قابل ذکر شخص گزرے ہیں۔ملک رحمزاد خان جو خدائی خدمت گار کے سرگرم رکن تھے اسی علاقے کے باسی تھے۔موصوف کئی بار جیل گئے اور تحریک آزادی کی خاطر بہت سی مصیبتیں جھلیں۔آپ کی وفات کے بعد آپ کے سپوت عطاء اللہ جان خان سابقہ صوبائی منسٹر ٹرانسپورٹ صوبہ خیبر پختونخوا اپنے علاقے کے مشر اور سردار بنے۔موصوف1993سے 1996تک صوبائی حکومت کے وزیر رہے۔غازی گل زا ر خان جو فقیر ایپی حاجی میر زا علی خان کے ساتھ فرنگی راج کے خلاف لڑتے رہے اسی علاقے سے تعلق رکھتے تھے۔ماسٹر امیر ممتاز جو علی گڑھ سے BAپاس تھے میر ا خیل تھے ۔ عوامی نیشنل پارٹی کے راہنما ولی خان اور اسفند یار ولی خان کے استاد رہ چکے ہیں۔ملک رحم زاد خان ایک جانی پہچانی شخصیت گزرے ہیں،مقصود جان ایڈووکیٹ،میر قادر خان پاکستان ٹیلی ویژن کے نیوز کاسٹر سیکرٹری، انعام اللہ خان ،اشفاق خان پلاننگ افسر(وفاق)،نصر اللہ جان ریٹائرڈ SSP،ڈاکٹر حبیب اللہ خان سینئر صوبائی صدر پختونخوا میپ، مولانا علی اکبر سابقہ MNA اور ماسٹر فرمان اللہ میراخیل سماجی کارکن میرا خیل سے تعلق رکھتے ہیں۔ماسٹر فرما ن اللہ خان میرا خیل میں اپنے آبا و اجداد کی خوبیا ں موجو د ہیں ۔نہایت مہمان نواز،سرگرم سماجی کارکن اور اعلیٰ اخلاق کے حامل انسان ہیں۔موصوف نے غریبوں اور نادار افراد کیلئے ایک ٹرسٹ الفقیر کے نام سے بنایا تھا ۔توت گڑھی میرا خیل کے ارمڑ میں حبیب الرحمن ارمڑ اہم شخصیت ہیں۔ آپ پرائیوٹ سیکرٹری ٹو گورنر صوبہ خیبر پختونخوا تھے بعد میں ڈپٹی سیکرٹری ٹو گورنر رہے۔ بنوں میں انجینئرنگ یونیورسٹی کے قیام میں آپ نے اہم کردار ادا کیا ۔جب گورنر خیبر پختونخوا میاں افتخار حسین شاہ لکی مروت کے دورے پر آئے تھے تو اس وقت کے ڈسٹرکٹ ناظم بنوں ملک اقبال خان نے گورنر کو انجینئرنگ یونیورسٹی کے قیام کیلئے درخواست دی۔اس درخواست پر گورنر ہاؤس میں سارا عمل حبیب الرحمن ارمڑ نے کیا تھا۔اس کے علاوہ اسد یار (مرحوم)جو عطا ء اللہ جان کے فرزند تھے بھی اس علاقے کی اہم شخصیت تھیں۔سابقہ DEOبنوں احسان اللہ (مرحوم)بھی اسی علاقے کے باسی تھے۔سیاسی لحاظ سے پہلے یہ سارا علاقہ عوامی نیشنل پارٹی کا گڑھ تھا۔بعد ازاں جمعیت علماء اسلام یہاں کی بڑی سیاسی پارٹی رہی۔آج کل قومی وطن پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی یہاں کی بڑی سیاسی پارٹیا ں ہیں۔ادبی لحاظ سے یہ علاقہ قحط الرجال کا شکار ہے۔صرف حصار میرا خیل کے نام سے ایک عوامی شاعر میرا خیل کے باسی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوٹ عادل
تقریبا ًتین سو سال پہلے عادل خان والد قلی خان نامی ایک شخص نے یہ گاؤں آباد کیا تھا عادل کا تعلق اصل میں فاطمہ خیل بنوں سے تھا۔یہ اولاد شیتک نہیں ہیں۔ کوٹ عادل کا کل رقبہ تقریبا ً۴۲۲ کنا ل پر محیط ہے۔اس کے شمال میں دریائے کرم،جنوب میں بنوں چھاونی،شمال مغرب میں کوٹ براڑہ،جنوب میں ایک پرانا قبرستان اور شمال مشرق میں کوٹ بیلی اور فاطمہ خیل کا علاقہ آباد ہے۔پچھلی مردم شماری میں اس کی آبادی تقریبا ًدس ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔ افغان میمو خیل، سادات،اعوان اور کمہار یہاں کی اہم قومیں ہیں۔کوٹ عادل میں خڑاکائی نیکہ اور کنڑے نیکہ کی قبریں بھی ہیں یہ دونوں غیر معمولی کرامات کے حامل نیک متقی انسان تھے۔
ملک دلابازخان،بہادر باز خان پسر ملک خان باز خان اور ملک ابرار خان ولد ملک سردار خان یہاں کی اہم شخصیات ہیں۔مذہبی لحاظ سے مولوی احمد شاہ قریشی، مولوی عبدالحکیم قریشی، مولوی خان زمان اور مولوی نصیر شاہ اہم افراد میں شمار ہوتے ہیں۔ کھیل کے میدانوں میں اس علاقے نے غلام جیلانی عرف نانئی جیسے سپوت کو جنم دیا تھا جس نے بین الاقوامی سطح پر پورے بنوں کانام روشن کیا۔ ایشئین ریکارڈ ہولڈر ہیں موصوف کا ریکارڈ ابھی تک قائم ہے کسی نے بھی نہیں توڑا ہے۔اس کے علاوہ موصوف صدارتی ایوراڈ یافتہ کھلاڑی ہیں۔1997ء میں پرائیڈ آف پرفارمنس کا ایوارڈ حاصل کیا ۔شفا بہ ورزش کے نام سے موصوف نے ۷۰۰ صفحات پر مشتمل ایک ضحیم کتا ب بھی لکھی ہے۔ اسی طرح ودود جان بھی مشہور اتھلیٹکس کے کھلاڑی ہے۔کرکٹ میں شاہ فیصل اور ہاکی میں امجد علی عرف بہار علی جنہوں نے بین الاقوامی سطح پر ملک کا نام روشن کیا ہے کوٹ عادل کے باشندے ہیں۔
سیاسی لحاظ سے جمعیت علماء اسلام اور پاکستان تحریک انصاف کوٹ عادل کی اہم سیاسی پارٹیاں ہیں۔ ادبی لحاظ سے عادل ادبی ملگری پشتو ادب کی ایک تنظیم کوٹ عادل کی اہم ادبی تنظیم تھی ۔سید امیرسرحدی جو چھ کتابوں کے مصنف اور مؤلف تھے کوٹ عادل کے باسی تھے۔ عبدالسلام بیتاب عادلوی جو عادل ادبی ملگری کے بانی بھی ہیں کئی کتابوں کے مولف ہیں اور ارشد رحمان شاکر بھی کوٹ عادل کے سپوت ہیں۔جو ادب کے فروغ کیلئے خدمات کررہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علاقہ نار
1861ء میں بنوں کے علیحدہ ضلع بننے سے پہلے ڈپٹی کمشنر کا زیادہ تر وقت سرحدی انتظامات میں صرف ہوتا تھا۔ ضلع بنوں کے پہلے انگریز ڈپٹی کمشنر میجر ٹیلر کے دور میں عمر زئی وزیروں نے بغاوت کی تھی۔ لیکن پھر بھی میجر ٹیلر نے نہر کچکوٹ کو بڑا اور اسے مزید نئے علاقوں تک پہنچنے کیلئے وقت نکال لیا۔اور خصوصا ًعلاقہ نار کی زمینوں کو آباد کرنا شروع کرد یا۔ یہ علاقہ پہلے مروت او ر بنوسیان کے درمیان واقع تھا ایک متنا زعہ جنگل تھا۔ چونکہ یہ علاقہ ایک بیکار جنگل تھا اس لئے اس میں پیشہ ور ڈاکو اور چور رہتے تھے۔ یعنی شر کی وجہ سے اس علاقے کو نار(آگ) کا نام بھی دیا گیا۔
موجودہ وقت میں نار میں بہت سی بستیاںآؓباد ہیںلیکن جو اہم بستیاں ہیں ان کے نام یہ ہیں۔ نار بوستان،نار شیر مست ،نار میر صاحب خان، نار جعفر، اور نار میر اکبر ۔ نار جعفر کا سارا علاقہ ملک جعفر خان آف مغل خیل کا تھا اور ابھی تک اس پر اس کی اولاد قابض ہیں اسی لیے اس کو نار جعفر کہتے ہیں۔نار شیر مست اور نار میرصاحب خان کی بسیتاں ملک شیر مست خان آف عبیدخیل یا عبت خیل کی اور میرصاحب عبیدخیل کی رہی اور ان پر ان کی اولاد آباد ہیں ۔اسی طرح نار میر اکبر پر میر اکبر کی اولاد اور بوستان پر اس کی اولاد آباد ہیں۔
یہاں کے لوگ نہایت سادہ زندگی گزارتے ہیں۔پشتون روایات کے حامل یہاں کے لوگ زیادہ تر کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ سیاسی لحاظ سے عوامی نیشنل پارٹی،جمعیت علماء اسلام اہم سیاسی پارٹیاں ہیں۔ملک شیر افضل خان اور ملک سیرل خان عَبید خیل یا عَبیت خیل یہاں کی اہم شخصیات ہیں۔اور علاقے کے مشران ہیں۔دونوں پشتو کے رسم و رواج سے بخوبی واقف ہیں یہی وجہ ہے کہ بنوں کے ہر علاقے میںلڑائی جھگڑو ں کو رفع کرنے کیلئے دونوں ثالثوں کے کردار ادا کرنے اور امن لانے کی کوشش کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوٹ ضابطہ خان
کوٹ عادل اور علاقہ فاطمہ خیل کے ساتھ ہی دریائے کرم کے ساتھ بارڈر کے قلعہ کے قریب کوٹ ضابطہ خان کا علاقہ واقع ہے ۔اس علاقے کو ضابطہ خان نے آبادکیا تھااور اس کی اولاد ابھی تک اس علاقے میں آباد ہیں۔اس کے علاوہ اعوان بھی یہاں کی اہم اور بڑی قوم ہے۔ کوٹ ضابطہ خان میں اولاد شیتک بھی ہے اور سکند رخیل قوم کے کچھ گھرانے آباد ہیں۔ سیاسی لحاظ سے پاکستان تحریک انصاف اور جمعیت علماء اسلام یہاں کی اہم سیاسی پارٹیا ں ہیں۔
یہاں کے لوگ شہر کے زیادہ قریب ہونے کے باوجود امن پسند نہیں ہیں۔ایک دوسرے دست و گریباں رہتے ہیں اگر چہ ان میں کچھ لوگ امن پسند اور سنجیدہ بھی ہیں لیکن زیادہ تر یہ لوگ جھگڑالو ہیں۔پشتون روایات پر مرمٹنے والے کو ٹ ضابطہ خان میں مختلف قومیں آباد ہیں۔
ضابطہ خان کی اولاد کے علاوہ مقبول زمان اعوان یہاں کی اہم شخصیت ہیں۔موصوف جمعیت علماء اسلام کے سر گرم اور اہم رکن ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سدوزئی خاندان بنوں میں
بنوں میں سدوزئی خاندان کے کچھ افراد بھی رہے۔تحریک پاکستان میں انہوں نے بنوں میں ایک اہم رول ادا کیا ہے۔بنوں میں اسلامیہ ہائی سکول اور ریفرنڈم میں مسلم لیگ میں بھی انہی خاندان کے کچھ افراد نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ وزیر زادہ گل سردار محمد سدوزئی اور سردار لطیف اللہ ایڈووکیٹ میں سدوزئی خاندان کی اہم شخصیات گزری ہیں۔بنوں میں سدوزئی کی دو شاخیں تھیں ایک کامران خیل اور دوسرا بہادر خیل ۔سدوزئی خاندان کا شجرہ ٔنسب احمد شاہ ابدالی، تیمور شاہ سدوزئی اور شاہ زمان سدوزئی سے ملتا ہے۔احمد شاہ ابدالی نے اپنی روایات اور سخاوت سے کافی نام کمایا۔14 جنوری1761ء کو پانی پت کے مقام پر ہندوستان کے مرہٹوں کو شکست دیکر دہلی پر مرہٹی حکومت قائم کرنے کے خواب کو چکنا چور کر دیا۔بنوں پر بھی احمد شاہ بابا کی کئی سال حکومت رہی اور بنوں کے عوام اس کی بہت عزت کرتے۔
اس خاندان کے افراد میں ہنر،علم و فہم و ادراک تھی۔سردار عبد القیوم خان سدوزئی نے پہلی بار1946 ء میں سرحد مسلم فیڈریشن کی بنیادر کھی اور اس فیڈریشن کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔1947ء میں جب بنوں میں ریفرنڈم کے سلسلے میں کمیٹی بنائی گئی تو موصوف اس کے صدر منتخب ہوئے۔اس خاندان کے کئی لوگوں نے بنوں میں تحریک آزادی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قصوری خاندان بنوں میں
سدوزئی خاندان کی طرح بنوں میں قصوریہ خاندان کے لوگ بھی آباد تھے۔ماضی میں تو بنوں کا شہر اور چھاؤنی میں تقریباً ۵۰ فیصد قصوریہ خاندان کے لوگ آباد تھے لیکن بعد میں یہ تعداد کم ہوتی رہی ۔1825ء میں کنور نو نہال سنگھ کے دور میں بنوں آئے۔بنوں تاریخ کے آئینے میں صفحہ نمبر361 پرطفیل احمد فیضی لکھتے ہیں کہ یہ خلف زئی، عارف زئی اور بٹک زئی شاخوں سے تعلق رکھتے تھے پر یہ بات بھی تصدیق شدہ ہے کہ بنوں کا آدھا شہر قصوریہ پٹھانوں سے آباد تھا۔اب تک ضلع بنوں میں ان کے اثار باقی ہیں۔
اس خاندان میں بھی بہت سے تعلیم یافتہ اور علم وفہم کے لوگ گزرے ہیں۔بہت سے ججز ،کمشنرز اور سی ایس ایس اور پی سی ایس افیسرزاس خاندان کے چشم و چراغ ہیں۔ موجودہ دور میں بنوں میں اس خاندان کے لوگ بہت کم ہیں۔ محلہ نواب،سوکڑی ،بنوں کینٹ اور بنوں سٹی میں چند ہی گھرانے آباد ہیں جو خود کو قصوری خاندان کے افراد گردانتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈسٹرکٹ ہا ل بنوں
6اکتوبر 1967ء کو ڈپٹی کمشنر بنوں جناب عبدالرزاق عباسی نے اس کی منظوری دیکر خان عمر جان خان ایڈووکیٹ ڈسٹرکٹ کونسل بنوں کے وائس چیئرمین کے دور میں تعمیر ہوا۔ ڈسٹرکٹ ہال بنوں کو بعد میں باچا خان ہال کا نام دیا گیا۔ایک خوبصورت اور پر امن جگہ بنوں کینٹ میں ڈپٹی کمشنر بنوںاور ناظم اعلیٰ ڈسٹرکٹ بنوں کے دفتر کے ساتھ بنایا گیا باچا خان ہال ضلع بنوں کا ڈسٹرکٹ ہال ہے جس میں ضلعی انتظامیہ کے اجلاس ہوتے رہتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔