ضلع بنوں سے تقریباً ۱۰ میل کے فاصلے پر ڈومیل تحصیل واقع ہے۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ آدھمی کے کنارے ایک پرانا اور اہم قلعہ واقع تھا چونکہ وہ بہت مشہور قلعہ تھا اور اس قلعہ سے ڈومیل سٹی تک کا دو کلو میٹر فاصلہ ہے اس لئے لوگوں نے اسے ڈومیل کا نام دیا یعنی دومیل سے ڈومیل ہوگیا۔جبکہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ نہیں ڈومیل کے مین سٹی میں ایک نیک متقی بزرگ کی قبر مبارک ہے جس کا نام ڈومیل تھا اس وجہ سے اس کا نام ڈومیل پڑ گیا۔
شمال کی جانب لنڈیوے لکے جینئی کی پہاڑی سے لیکر ضلع کرک تک ڈومیل کا علاقہ ہے۔ ڈومیل کے اہم اور بڑے بڑے خیل یہ ہیں۔ہاتھی خیل وزیر،سرکی خیل وزیر،پٹول خیل وزیر، پیربا خیل وزیر، بیزن خیل وزیر،اسپرکہ وزیر، سادہ خیل وزیر،عمر زئی بائیک خیل وزیروغیرہ ۔یہ تما م احمد زئی وزیر ہیںاور احمد زئی وزیر کی یہ شاخیں ڈومیل میں پھیل گئی ہیں۔ شمال کی جانب خواجہ کلاں کی پہاڑی بھی ہے جس سے نمک نکالا جاتا ہے اس کے ساتھ ہی اس میں کافی شکار بھی ہوتا ہے۔ خاص کار چکور،تیتر اور بٹیر زیادہ پائے جاتے ہیں۔یہاں کے زیادہ تر علاقے خشک ہیں یہی وجہ ہے کہ یہاں کی ۵۰ فیصد زمین بھی کاشت نہیں کی جاتی ۔کیونکہ پانی کامسئلہ ہے۔ارباب اختیار اس طرف خصوصی توجہ دیں تو کافی سارا علاقہ قابل کاشت ہو سکتا ہے۔
کچھ سال پہلے زیڑی بندکے مقام پر جو ڈومیل سٹی سے کچھ فاصلے پر واقع ہے تیل دریافت ہوا تھا لیکن حکومت ِ وقت نے ان میں سیسہ ڈال دیا۔اس علاقے نے ایسے ایسے لیڈرز پیدا کئے ہیں کہ جنہوں نے تحریک پاکستان میں بھر پور حصہ لیا تھا۔شاہ براز خان جنہوں نے واقعہ سپینہ تنگی میں اہم کردار ادا کیا تھا ڈومیل کے احمد زئی وزیر قبیلے سے تعلق رکھتے تھے ۔محمد سبحان بھی اسی سر زمین کے باسی تھے ۔جنہوں نے تحریک آزادی کیلئے کئی مصیبتیں برداشت کیں۔
سیاسی لحاظ سے ڈومیل میں پہلے جمعیت علما ء اسلام اور عوامی نیشنل پارٹی مضبوط پارٹیاں تھی لیکن آج کل تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی مضبوط سیاسی پارٹیاں ہیں۔ قیام پاکستان سے ابھی کچھ سال پہلے تک ڈومیل تحصیل کی سیاسی بھاگ ڈور ہاتھی خیل وزیر اور اسپرکہ وزیر کے پاس تھی لیکن 2008 سے ابھی تک یہ سیاسی بھاگ ڈور سرکی خیل وزیر کے حصے میں آگئی۔
ادبی لحاظ سے علاقہ ڈومیل ایک زرخیز خطہ رہا۔زیرکی پیربا خیل کے عید گل استاد ایک اہم فی البدیہہ شاعر گزر ے ہیں۔ یعقوب سادہ خیل، دلبازی استادجی خاندرخان خیل،حافظ گل سعادت خان جو بہترین نعت خوان بھی تھا اسی علاقے سے تعلق رکھتے تھے۔موجودہ وقت میں بھی ڈومیل کے علاقے میں بہت سے میعاری پشتو اور اردو کے لکھاری موجود ہیں جو پشتو اور اردو ادب کے فروغ کیلئے لگے ہوئے ہیں۔نعیم ہاتھی خیل، عبد الناصر مخدوم، شباب وزیر، بشیر احمد زئے ان میں سر فہرست ہیں۔یہ سارے ڈومیل میں استادوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔نعیم ہاتھی خیل تقریبا ۹۰ کی دھائی میں کسوٹی اور کائنات اخباروں کیلئے کالم بھی لکھتے رہے۔وزیر ادبی جرگہ ڈومیل، قومی ادبی ٹولنہ ڈومیل اور تھل ادبی جرگہ یہاں کی اہم ادبی تنظیمیں ہیں۔ان ادبی تنظیموں کی کئی کتب بھی منظر عام پر آچکی ہیں۔جو ان کی کارکردگی کا ثبوت ہے۔
ڈومیل کی اہم شخصیات میںخان بہادر عالمگیر خان،ملک شہزادہ ،قاری گل اعظیم ، خیر محمد خان، ملک ایوب خان،غنی الرحمان خاورے، شیر اعظم وزیر،سینیٹر فریداللہ خان ،فہیم وزیر سنئیر بیوروکریٹ،(سیکرٹری) فدا محمد بیور و کریٹ، محمود وزیر ڈپٹی کمشنر، ڈاکٹر شیرزعلی ،ڈاکٹر شمس الرحمان، ڈاکٹر شریف وزیر، ڈاکٹراسرا ر خان، فخر ِ اعظم موجودہ ایم۔پی ۔اے وغیرہ شامل ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسپرکہ وزیر
احمد زئی وزیر کی یہ شاخ علاقہ جھنڈوخیل کے ساتھ ہی سدروان میں آباد ہے۔ جبکہ اسی شاخ کے کچھ خاندان میریان روڈ پر واقع علاقہ گریڑہ میں بھی رہائش پذیر ہیں۔واضح رہے کہ اس شاخ کا اپنا علاقہ سدراؤن ہے۔گریڑہ کو ان کے کچھ لوگ نقل مکانی کرچکے تھے جو ابھی بھی وہا ں آباد ہے۔بنوں گزیٹئر 1887میں صفحہ نمبر ۱ پر The Leading Families of District Bannu میں لکھا ہے کہ :
Thirty years ago the leading Banosi were Lal Baz Khan, Jafar Khan the Longo intervallo Malik Bozid Khan of Surrani & Malik Sher Mati Khan ( Malik Sher Mast Khan) While amongst the WAZIR,s the most prominent Chief were Malik Sohan Khan or Sawan Khan & Azim Khan
واضح رہے کہ وزیروں کا محسن اعظم ملک سوان خان اسپرکہ وزیر کے شاخ سے ہی تعلق رکھتے تھے۔مطلب جس طرح بنوسیان کے کچھ مخصوص لیڈران تھے۔اسی طرح سارے وزیر قبائل کے بھی مشترکہ لیڈرز تھے۔انگریز دور میں ملک سوان خان کا بہت ہی دبدبہ تھا۔مانی خان ، خان بہادر غازی مرجان خان ان کے جا نشیوں میں سے تھے جو انتہائی مہمان نواز وزیر تھے۔موجودہ دور میں وزیروں کی اس شاخ میں قحط الرجال ہے لیکن سینیٹر فرید اللہ خان اس شاخ کی اہم شخصیت تھی جو تما م وزیری قبائل کا مشر اور سردار بھی رہ چکے ہیں موصوف جنوبی وزیرستان میں ایک سانحہ میں فوت ہوئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاتھی خیل وزیر
ہاتھی خیل وزیر بنو ں کے ساتھ علاقہ ڈمیل میں رہائش پذیر ہے جبکہ کچھ تحصیل وانا میں ہیں۔ یہ احمد زئی کی ایک شاخ ہے دراصل احمد زئی وزیر کی بہت سے شاخیں ہیں جیسے کہ سین خیل، ہاتھی خیل، سرکی خیل، عمرزائی، سید خیل جو بنیادی طورپر عمرزئی وزیر ہیں اسی طرح کالوخیل جو ڈومیل کے جنوب کی طرف رہائش پذیر ہیں بیزن خیل، اسپرکی، بودین خیل، پوندیا خیل، اسی طرح تحصیل وانا میں خوجل خیل،زئی خیل اور خونیا خیل کے قبائل بھی احمد زائی وزیر ہیں۔ ہاتھی خیل وزیر ایک ایسا قبیلہ ہے جو تمام وزیر قبائل میں آبادی کے لحا ظ سے سب سے زیادہ ہیں۔ ہاتھی خیل قبیلہ چونکہ آبادی کے لحاظ سے بڑا ہے اس لیے ان کی کچھ شاخیں ہیں اتل خیل،کیمل خیل پھر ان دو شاخوں سے اور کئی شاخیں نکلی ہوئی ہیں۔
ہاتھی خیل اصل میں کوہ سلیمان سے آئے ہیں اور یہاں پر ڈومیل میں آباد ہوئے یہ احمد زئی قبیلے میں سین خیل کی اولاد ہیںتحصیل وانا میں بھی اس قبیلے کے لوگ آباد ہیں وانا میں جس جگہ کو ہاتھی خیل ڈوگ کے نام سے پکارا جاتا ہے وہ اراضی بھی ہاتھی خیل قبیلے کی ہے ڈومیل میں ایسور غار، لکڑائی اور گھمبتی پر آباد یہ قبیلہ آہستہ آہستہ میدانی علاقوں میں پھیلتا رہا ہاتھی خیل وزیر ڈومیل میں چار یونین کونسلوں پر مشتمل قبیلہ ہے یعنی ارل ون ہاتھی خیل ،ارل ٹو ہاتھی خیل، زیرکی پیربا خیل اور خاندر خان خیل ! جبکہ دوسرے تمام وزیر احمد زائی قبائل تعداد کے لحا ظ سے کافی کم ہیں۔محمد دراز ہاتھی خیل، ایوب خان وزیر جنہوں نے سپینہ تنگی کے جلسے کے لیے تمام انتظامات کئے تھے اسی قبیلے کے چشم و چراغ تھے اسی طرح ملک محبت نیکہ اور میر اعظم وزیر بھی اسی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔یہ خیل ادبی ،سماجی،سیاسی لحاظ سے کافی زرخیز ہے نعیم ہاتھی خیل جن کا ذکر ڈومیل میں ہو چکا ہے اسی قبیلے کے بلند پایہ شاعر،ادیب اور مورخ ہیں ۔
وزیر میر ی خیل
یہ خیل وزیر احمد زئی سے تعلق رکھتا ہے علاقہ سدروان میں آباد یہ قبیلہ آباد ی کے لحاظ سے کافی کم ہے سیاست سے دوری کی وجہ سے اس قبیلے کے لوگ تاریخ سے زیادہ تر اوجھل رہے یہ ایک روایت پسند قبیلہ ہے تعلیمی لحا ظ سے اسپرکہ کے دوسرے قبائل غیر معمولی اہمیت کا حامل قبیلہ ہے اس قبیلے کے اکثر نوجوان قوم و ملک کی خدمات کر رہے ہیں۔جیسا کہ احمد فراز جو پاکستان ائیر فورس میں کمیشنڈ آفیسر ہیں اور آج کل فلائیٹ لیفٹنینٹ کے عہدے پر کام کر رہا ہے اس کا دوسرا بھائی شاہد فراز بھی پاکستان ائر فورس میں بطور فلائیٹ لیفٹنینٹ اپنے فرائض سر انجام دے رہا ہے ۔ اس خیل کے سرکردہ شخصیات میں زر گل خان،متی خان،گل سعادت خان،نظر علی خان اور ابیل خان شامل ہیں ۔مذہبی لحاظ سے بھی اس قبیلے میں کئی شخصیات ہیں ۔تعلیم کی وجہ سے اب نئی نسل سیاست میں بھی دلچسپی رکھتی ہے ۔میری خیل وزیر ادبی لحاظ سے بالکل ویران ہے البتہ پروفیسر ناصر وزیر اس خیل کے تنہا ایسے سپوت ہیں جو ساری کمی کو پورا کرتا ہے ان کے کئی شعری مجموعہ شائع ہوچکے ہیں جبکہ کئی اخبارات کے ساتھ بھی منسلک ہے آج کل کوہاٹ ڈگری کالج میں انگریزی کے پروفیسر ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنوسیان
بنوسیان کے باقی تمام کرلانڑی قبائل پہاڑی علاقوں میں مقیم ہیں ۔واحد بنوسیان کا قبیلہ ہے جو میدانی علاقہ میں آباد ہے۔ بنوسیان کا جد امجد شاہ فرید عرف شیتک ہے جو شوال کا رہنا والا تھا۔ بنوسیان بنوں کی حسین وادی میں آباد ہیں۔اور ہزاروں سالوں سے ابھی تک یہاں پرآبادہیں یہ قبیلہ جنگجو اور پشتون روایات پر مر مٹنے والا قبیلہ ہے۔واضح رہے کہ بنوسیان کو کچھ لوگ بانو بیگم اور کچھ رام چندر کی وجہ سے بنوسیان کہتے ہیںجو نہایت ہی گمراہ کن اور من گھڑت کہانی ہے۔بنوں کو جنگلات کی بہتات کی وجہ سے بنوں کہا جاتا ہے جبکہ اس کے باسیوں کو بنوسیان کہتے ہیں۔اس بات کو ٹھوس دلیلوں کے ساتھ پہلے ہی ثابت کیا گیاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کفشی خیل مظفر خان منڈان
یہ اصل اولاد شیتک ہے۔علاقہ منڈان میں یہ دو بھائی تھے ایک کا نام ابی زر جبکہ دوسرے کا نام مظفر خان تھا ۔ابی زر نے علاقہ ا بی زر منڈان آباد کیا جبکہ مظفر خان نے علاقہ مظفر خان منڈان آباد کیا۔ملک مظفر خان بنوں کے واحد ملک تھے جنہوں نے انگریز دور میں بر سر عام ملک نیظم دھرمہ خیل کے ساتھ مل کر بنوں میں شریعت کے نفاذ کیلئے آواز اٹھائی تھی۔ملک مظفر خان کا بیٹا ملک غلام سرور خان تھا جو نہایت دلیر آدمی تھا ملک عبد الجبار خان چیف آف کفشی خیل ملک مظفر خان کا نواسہ اور ملک غلام سرو ر خان کا بیٹا تھا مو صوف میں بھی اپنے آبا و اجداد کی خوبیا ں تھیں۔اپنے علاقے میں اثر و رسوخ کا ملک تھا۔ملک عبد الجبار کے دور میں ان کے علاقے میں کھبی بھی غیر اخلاقی اور پشتون روایات کے خلاف کام نہیں ہوا کیونکہ علاقے کے تما م لوگ ان کی عزت کرتے تھے۔ ملک دمساز خان شاہ بزرگ خیل کے ساتھ آپ کے نہایت دیرینہ تعلقات تھے منڈان کے جتنے بھی خیل تھے سب ملک صاحب کی بہت عزت کرتے تھے۔اور ان کی ہر ایک بات پر فورا عمل کرتے تھے۔بنوسوالہ پشتو میں کہتے ہیں کہ دے چاوک جمات سڑائی وو یعنی حجرے اور مسجد کا آدمی تھا۔مطلب نیک اور پشتون روایات کے حامل انسان تھے۔آپ کی وفات کے بعد آپ کے فرزند ملک فضل قادر خان نے علاقے کی پگڑی لی۔موصوف میں بھی کافی حد تک باپ دادا کے اوصاف تھے۔ موصوف کئی سال پہلے فوت ہوئے ۔تو ان کے بیٹے ملک عبدالمعبود خان پر پگڑی رکھی گئی نہایت اچھے اخلاق کے حامل انسان ہیں۔
مندر جہ بالا افراد کے علاوہ مظفر خان منڈان میں نیر بوز کا نواسہ حامد حسن ،کرنل حکمت اللہ خان، زیت اللہ جان سابقہ میونسپل کمیٹی بنوں کے چئیرمین بھی اہم شخصیات میں شامل ہیں۔ ملک عبد الجبار خان چیف آف مظفر خان کفشی خیل منڈان ناچیز کے والد محترم کے کزن تھے۔
سیاسی لحاظ سے جمعیت علماء اسلام اس علاقے کی اہم سیاسی پارٹی ہے۔ ادبی لحاظ سے اس علاقے میں ایک ایسی شخصیت ہے جو اپنے آپ میں ایک ادبی گلستان ہے۔ معروف شاعر و ادیب پروفیسرڈاکٹرطارق محمود دانش اسی علاقے کا باسی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیڑی خیل منڈان
علاقہ منڈان میں مختلف خیل آباد ہیں۔ ان خیلوں میں ایک خیل بیڑی خیل کا بھی ہے جو اولاد شیتک ہے۔ ایک روایت کے مطابق یہ تین بھائی تھے۔جودرمیانی بھائی تھا ان کو علاقہ منڈان دیا گیا۔منڈان میونز اڈنڑسے نکلاہے میونز اڈنڑ پشتو میں ریڑھ کی ہڈی کو کہتے ہیںچونکہ ریڑھ کی ہڈی انسانی جسم کی درمیانی ہڈی ہوتی ہے اس لئے اس کو میونز اڈنڑ کا نام دیا گیا جو بعد میں بگڑ کر میونز اڈنڑ سے منڈان پڑ گیاجبکہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ نہیں یہ ایک آدمی کا نام تھا اس کے نام سے یہ منڈان مشہور ہو گیا۔بہر حال منڈان میں بہت سے خیل آباد ہیں۔بیڑی خیل منڈان میں بھی پھر کئی شاخیں ہیں۔تیرن خیل،شامل خیل، رازیہ خیل،پھوڑ خیل وغیرہ۔ بقول فلک ناز مائک خیل ڈائریکٹر سوشل ویلفیئر و انفارمیشن بیڑی خیل منڈان کے شاخ تیرن خیل میں ملک گل نواز خان (مرحوم) نہایت بہادر اور مہمان نواز شخص گزرے ہیں۔بیڑی خیل منڈان کا ایک سرا مائک خیل جبکہ دوسرا وتحش خیل کے ساتھ واقع ہے۔ یہاں کے لوگ زیادہ تر جھگڑالو ہیں۔ شیر عجم خان جو کبڈی اور ولی بال کے بہترین کھلاڑی تھے اسی علاقے کا رہنا والا ہے ملک احیا جان (مرحوم) جو پشتون روایات پر مر مٹنے والا انسان تھا بیڑی خیل سے تعلق رکھتے تھے۔بہترین جرگہ باز خاص کر ٹرانسپورٹ کے مسائل حل کرانے میں ماہر تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مُلا خیل سورانی
سکندر خیل بالا سے چندکلو میٹر کے فاصلے پر علاقہ سورانی میں مُلا خیل کی شاخ ہے۔ یہاں پر زیادہ تر اولاد شیتک ہی آبا دہیں۔لیکن شیخان اور پراچہ قوم کے لوگ بھی آباد ہیں۔یہ بنوں کا واحد علاقہ ہے جس میں سب سے زیادہ انجیر پیدا ہوتے ہیں یہاں کے انجیر ملک کے مختلف حصوں کو بھیجے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ امروداور آلوچے بھی یہاں پر پیدا ہوتے ہیں۔کیلوں کے باغات بھی ہیں۔سبزیاں بھی اس علاقے میں بہت زیادہ پیدا ہوتی ہیں۔
ملک آزاد خان مرحوم، ملک سرفراز خان مرحوم اورملک میر خطاب خان اور ملک حضرت خان مُلا خیل کی اہم شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔یہاں کے لوگ زیادہ تر تعلیم یافتہ اور مہمان نواز ہیں۔انجنئیر شریف اللہ خان جو تحصیل ممبر بھی ہے اسی علاقے کا باسی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گڑھی شیر احمد بنوں
علاقہ گڑھی شیر احمد مین بھی کئی علاقے آباد ہیں۔ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال رو ڈ پر واقع علاقہ گڑھی شیر احمد میں کوٹکہ نصیر آباد،کوٹکہ نورگل،کوٹکہ رحمت آباد، کوٹکہ خنک آباد،کوٹکہ غریب آباد چھوٹی چھوٹی کئی بستیا ں آباد ہیں۔ اس علاقے نے ایسے ایسے سپوت پیدا کئے جنہوں نے تحریک پاکستان میں بھر پور حصہ لیا۔بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ پورے برصضیر پاک وہند میں آزادی کی تحریک بنوں کے اس علاقے سے اٹھی تھی۔ بیرسٹر محمد جان جیسے آزادی کے متوالے شیر احمد خان کے جانشین اسی علاقے کے باسی تھے۔اس علاقے میں پشتون، سید ، اور خاندان ِ عباسیہ کے کچھ گھرانے آباد ہیں۔ بیرسٹر محمد جان بھی عباسیہ خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔شیر احمد خان جن کے نام سے یہ علاقہ منسوب ہے وہ علی گڑھ سے ایم اے ،ایل ایل بی کر چکے تھے۔ نہایت قابل انسان تھے۔بیرسٹر محمد جان عباسی خاندان کے ایسے سپوت تھے جنہوں نے اکسفورڈ یونیورسٹی سے سات مختلف مضامین میں مختلف ڈپلومے اور ڈگریاں حاصل کی تھیں۔ یہ واحد پاکستانی ہیں جنہوںنے اس یونیورسٹی سے اتنے زیادہ مضامین میں ڈگریاں حاصل کیں ۔یہ پورے ضلع بنوں کیلئے فخر کی بات ہے کہ بنوں کی سر زمین نے ایسے ایسے سپوت پیدا کئے ہیں۔1930 میں موصوف بر صغیر پاک و ہند کے قومی اسمبلی کے ممبر رہے۔محمد خدا بخش عرف منصف بھی اسی علاقے کے باسی تھے۔1860 میں ڈیرہ ،بکر اور بنوں کے پہلے مسلمان سیشن جج تھے۔موصوف شیر احمد خان کے والد محترم تھے۔ڈیورنڈ لائین کی تقسیم کے وقت موصوف انگریز اور افغان جرگہ میں خصوصی طور پر مدعو کئے گئے تھے۔ اور اس فیصلے میں اہم کردار ادا کیا۔
سیا سی لحاظ سے یہ علاقہ کافی زرخیز رہا۔کیونکہ اصل میں اسی علاقے سے سیاست کی ابتدا ہوئی ہے۔ موجودہ دور میں جمعیت علماء اسلام،عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف اہم سیاسی پارٹیا ں ہیں۔ادبی لحاظ سے موجودہ دور میں طاہر خان طائر اس علاقے کا اہم پشتو شاعر ہے۔جو پشتو ادب کے ایک منفرد لب و لہجے کے معیار ی شاعر ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گُلک خیل منڈان
اولاد شیتک سے تعلق رکھتے ہیں۔چیٹ کی اولاد ہیں۔ چیٹ کی اولاد میں سکندر، کفشئے، لید،ماٹک،مائی خان،پھوڑ خان،(پہاڑ)،گُلک،بدون اور ارئیں ہیں۔ پھوڑ خیل فیض طلب عباس منڈان میں آباد ہیں۔مائی خان کی اولاد بیڑی خیل میں آباد ہیں۔کفشئے کی اولاد نے کفشی خیل اور لید کی اولاد نے خواجہ مد منڈان آباد کیا۔لید کے نام سے بہادر مانک خیل میں ابھی بھی ایک ویال لیدی والہ کے نام سے بہتا ہے جو علاقہ خواجہ مد کی زمینوں کوبھی سیراب کرتی ہیں۔ادئیے کو آج کل غونڈیان کہتے ہیں جو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال بنوں کے ساتھ آباد ہیں۔یہ بھی گلک خیل پشتون ہے لیکن یہ علاقہ موضع گڑھی شیر احمد کے ساتھ ہے۔ کوٹکہ اخوندان، ذولقادر منڈان، بہادر مانک خیل، شادی کلہ،(بالو کلہ) غنڈیان،کوٹکہ غلام،کوٹکہ غریب آباد اور کوٹکہ وجہ دین گلک خیل کے موضع جات ہیں۔
بقول سکند ر خان سکندر گلک یا گولک سکندر خان جو سکندر خیل کے جد امجد ہے ان کے بڑے بیٹے اور چیٹ کے پوتے تھے ۔چیٹ مندان خان سمی و کیوی کا فرزند تھا ۔اسی طرح کیوی شاہ فرید یعنی شیتک کافرزند تھا گلک کے علاوہ سکندر خان کے گلائی یعنی بیڑی خیل، پہاڑ خیل یعنی پوڑ خیل اور بیدون تین بیٹے تھے ۔اسی طرح گلک کے بھی تین بیٹے تھے جو تین خیلوں میں بٹ گئے عموئی، چندانڑ اور آرئیں۔
تقسیم حقیقت مابین اولاد چیٹ مورٹ کی ہوئی اور یہ رقبہ(بہادر مانک خیل) مسمی گولک کے حصے میں آیا ۔ان کی وفا ت کے بعد ان کے بڑے بیٹے چندانڑ نے موضع مانک خیل میں اپنا حصہ لیا۔اسی طرح آرائیں (غونڈیان) پسر سوم نے گڑھی شیر احمد خان میں اپنا حصہ بنایا اوریہاں پر صرف عموئی رہ گیا۔عموئی کے پسران نوشیر خان اور پائندہ خان کو بھی بخصہ برابر جائیداد دیا گیا لیکن بد قسمتی سے پائندہ خان کی اولاد تیسری پشت میں لاولد فو ت ہوئی اور پھر وہ حصہ بھی وراثت نوشیر خان کو ملی۔بعد میں ان کو خانان کی دو پسران ذوالقادر خان اور ہیبت خان نے بحصہ برابر تقسیم کیا اور دیہات جداگانہ بنائے ۔
اس علاقے میں بہت سی تاریخی جگہیں اور قبرستان بھی ہیں۔ مثلا محسود نیکہ،اخوند نیکہ، متقی لوگوں سے یہ علاقہ بھر پڑا تھا۔یہ خیل بڑا مرد م خیز رہا۔اسد اللہ خان عرف سودل اور اس کے بیٹے حیات اللہ خان نے سرخ پوش تحریک اور تحریک آزاد ی میں اہم کردار ادا کئے ہیں۔اسد اللہ کے متعلق مشہور ہے کہ وہ اتنا دراز قد تھا کہ اس وقت سارے منڈان میں اس جیسا دراز قد کا آدمی نہیں تھا۔حاجی سردار خان،اسد آیاز خان ریٹائرڈ پرنسپل،امیر خان جو انگریز دو ر میں تحصیلدار تھے ملک شیرین دل خان گلک خیل کی اہم شخصیات ہیں ان میں کچھ فوت ہوئے ہیں اور کچھ ابھی بھی بقید حیات ہیں۔ملک شیرین دل خان نے اپنے علاقے کی ترقی کیلئے کافی تعمیراتی کام کئے ہیں۔
ادبی لحاظ سے گلک خیل میں شریف اللہ خان گلک خیل غالبا ایک بہترین پشتو شاعر گزرے ہیں اس کی ساری شاعری ضائع ہوچکی ہے سکندر خان سکندر کی وساطت سے ایک شعرکا ایک مصرع موصوف کا مجھ تک پہنچا ہے جس سے اس کی شاعری کے معیار کا پتہ چلتا ہے۔میرے خیال میں موصوف زیادہ تر صوفیانہ شاعری کرتا تھا کیونکہ ان کے اس ایک مصرع سے پتہ چلتا ہے وہ مصرع کچھ یوں ہے۔
اے شریفہ داسی سمہ لار اختیار کہ اے شریف صراط ِ مسقتیم پر چلو
موصوف محکمہ زراعت میں SDEO کے پوسٹ پر تھے۔موجودہ دور میں سکندر خان سکندر جو ملک شیرین دل خان گلک خیل کے بیٹے ہیں ایک بہترین پشتو شاعر اور ادیب ہیں۔پشتوشعر و شاعری میں ایک مخصوس انداز ِ بیان کے مالک ہیں۔
منڈان کا یہ خیل ایک مہذب یافتہ خیل ہے اس خیل کے اکثر لوگ تعلیم یافتہ ہیں۔یہی وجہ ہے کہ یہاں پر زیادہ تر لڑائی جھگڑے نہیں ہوتے۔اسلام سے محبت،پشتون روایات سے زیادہ قریب اور ادب شناس لوگ ہیں۔پورے منڈان میں اس خیل کے لوگ امن اور محبت سے رہتے ہیں۔اگر چہ آس پاس کے دوسرے خیل میں دشمنیاں ہیں لیکن گلک خیل کے لوگ امن پسند ہیں۔
لنڈیڈاک
لنڈیڈاک میں مختلف قومیں آباد ہیں لیکن زیادہ تر اولاد شیتک ہی آباد ہیں۔منڈان کے علاقہ خواجہ مد کی ایک شاخ بھی لنڈیڈاک میں آباد ہے۔اور لیدی کی اولاد ہے۔ ان کے آبا وجداد خواجہ مد منڈان سے جاکر وہا ں پر آباد ہوئے ہیں۔کیونکہ یہ علاقہ بھی خواجہ مد منڈان لیدی کے حصے میں آیا تھا۔
یہاں کے لوگ عام طور پر سادہ زندگی گزارتے ہیں لنڈیڈاک میں کئی علاقے آبا د ہیں۔غلام سرود کلہ، نعمت گڑھ، گل بدین کلہ، درے خُلے، ہوید، ملتانی کلہ ۔ یہ تما م گاؤں اولاد شیتک کی ہیں۔ اور ان پر آج تک بنوسیان ہی قابض ہیں۔ جبکہ ابا خیل لنڈیڈاک اتمان زائی وزیر کا علاقہ ہے۔ اور ان پر وزیر قابض ہیں۔ سابقہ MNA مولناٰ علی اکبر صاحب مرحوم سب سے پہلے اسی علاقے میں ملک عبدالغفور کے مسجد میں مہتمم تھے۔ مذہبی لحاظ سے قاری صاحب مرحوم فارغ التحصیل دیوبند اور ان کے بیٹے مولناٗ انور شاہ بھی لنڈیڈاک کے رہنے والے ہیں۔
محکمہ مال کے ریکارڈ کے بعد نا چیز خود ریسرچ کے سلسلے میں لنڈیڈاک گئے اور یہاں کے بزر گ لوگوں سے کافی جان کاری حاصل کی ۔یہاں کے لوگوںکی مہمان نوازی مثالی ہے۔پشتو روایات پر مر مٹنے والے یہ لوگ اسلامی طر ز زندگی گزارتے ہیں۔حاجی امان اللہ خان ریٹائرڈ پرنسپل، حاضی حکمزاد خان، امیر عبدا لرحمن، ملک راغب خان، بادشا ہ خان، ملک میر غفور خان،ملک زمان اور ملک عثمان المعرو ف سپین ملک یہاں کی اہم شخصیات ہیں۔ادبی لحاظ سے یہ علاقہ زرخیز نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیر خیل ککی
ضلع بنوں کے علاقہ ککی میں موجود پیرخیل بنیادی طور پر عربی النسل سے ہیں۔یہ اولاد شیتک نہیں ہیں۔ یہ اصل میں حسینی سید ہیں۔ حضرت علی کے خاندان سے ہیں۔ جب بخارا میں حالات بہت کشیدہ ہوئے اور اہل بیت کیلئے مشکلات حد سے زیادہ بڑھ گئیں تو پیرخیلوں کے اَبا واَجداد نے برصغیر پاک و ہند کو ہجرت کرکے سب سے پہلے علاقہ غوریوالہ ضلع بنوں میں آبادی شروع کردی۔ابھی بھی غوریوالہ میں کچھ ندیاں اور کھیتیاں ان کے اباواجداد کے ناموں پر مشہور ہیں اور بہت سے پیر ابھی بھی غوریوالہ میں آباد بھی ہیں۔
ایک وقت تھا کہ جب ککی اور بھرت کے درمیان خون ریز جنگیں ہوتی تھی او ر یہ روز کا معمول بن چکی تھیں۔بہت سے لوگوں کو انا کی اس جنگ نے نگل لیا تھا۔اور باقی کو بھی نگل رہی تھی۔آخر ان ہی میں سے کچھ سمجھدار اور سنجیدہ لوگوں نے ملکر آپس میں یہ فیصلہ کیا کہ علاقہ بھرت اور ککی کے درمیانی علاقے میں پیر خیل کو آباد کیا جائے اور یہ زمین اسے دی جائے اسی طرح یہ ہمیشہ کا خون خرابہ ختم ہوجائے گا۔ان کی کوششوں سے ککی اور بھرت کے تما م لوگ اس بات پر متفق ہوگئے۔یہ فیصلہ بھی ہوا کہ ککی کے مشران پیرخیل کو زمین دیں گے جبکہ بھرت پانی دے گا۔لہٰذا ایسا ہی ہوا ککی نے زمین دی اور بھرت نے پانی دیا۔جو ابھی تک پیرخیل قوم کی ہے۔پیر خیل ایک معزز قوم تھی اس لئے ککی اور بھرت نے انہیں یہ سب کچھ دیا اور پیر خیل قوم کے وجہ سے جنگ و جدل ہمیشہ کیلئے ختم ہو اور ککی و بھرت آج تک امن و امان سے رہ رہے ہیں۔
پیرخیل کی تین شاخیں ہیں۔گل شاہ خیل، دانا خیل اور کچی خیل ! تینوں بنوں کے عزت دارخیل ہیں اور بنوںکے تمام اقوام ان کی حد سے زیادہ عزت کرتے ہیں۔ان کے ابا و اَجداد کی کرامات اور کشفات اور مافوق الفطرت بیانات پورے ککی اور بھرت میں ابھی بھی زبان زدعام ہیں۔ان کے آبا و آجداد نہایت ہی متقی اور نیک لوگ تھے۔ارفول نیکہ جو پیر خیل کے اَباو اجداد میں ہے اور ایک دوسرا جس کا نام چالاک نیکہ تھا ان کی قبریں ابھی بھی حجرام خیل میں ہیں پیر حسن شاہ اور محمد حسن شاہ اس قوم کے دو برگزیدہ،متقی اور رعب و دبدبے کے حامل افراد گزرے ہیں۔ یونین کونسل ککی ٹو کے ناظم پیر خان بادشاہ،زرولی شاہ، امجد علی شاہ( UAE)رائید علی شاہ، پیر قائم علی شاہDFO(حال ایبٹ آباد) پروفیسر زاہد شاہ،پرنسپل جہانزیب ،اور میجر ریٹائرڈ گل دلاور شاہ پیرخیل کی مختلف شاخوں کی اہم شخصیات ہیں۔
ادبی لحاظ سے پیر خیل میں ایاز پیرخیلوی مرحوم خوب صورت لب و لہجے کے شاعر گزرے ہیں۔موجودہ دور میں پیرزادہ دلفراز اور ظفر پیرخیلوی اس قوم کے اہم شاعر ،ادیب ،نقاد اور محققین ہیں۔ناچیز کو تاریخ بنوں کے بارے میں کافی جان کاری ان شخصیات نے دی ہے۔
پیرخیل کا شجرہ نسب کچھ اس طرح سے ہے:
رائید علی شاہ بن عبداللہ بن رحمان شاہ بن محمد حسن شاہ بن سید نور شاہ بن سید آدم شاہ بن رحمان شاہ بن نور محمد بن سید محمد بن سید شہاب الدین بن سید صاحب دین بن ارفول شاہ نیکہ بن سید چالاک نیکہ بن سید ابو بکر بن اسمعیٰل بن سید امیر علی شاہ بن سید کلاں بن سید قلندر سید ولی بن سید سلیمان شاہ بن سید قطب الدین بن سلطان شاہ بن سید محمد بن سید شمس الدین بن سید یعقوب شاہ بن بہاوالدین بن سید عبید بن بہادر الدین بن سید کبیری سید خواجہ علی محمد بن موسیٰ کاظم بن امام جعفر صادق بن امام محمد باقر بن امام زین العابدین بن حضرت امام حسین بن حضرت علی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوٹی سادات
کوٹی سادات بھی ضلع بنوں کا ایک ایسا قصبہ ہے جس میں کئی بستیا ں آباد ہیں۔ اس کے مشرق کی جانب عَبید خیل قوم کا علاقہ کوٹکہ بہرام شاہ ، مغرب کی جانب علاقہ بوز ہ خیل اور کوٹکہ فیروز جبکہ شمال اور جنوب میں دریائے کرم ہے۔ کوٹی سادات میں چھوٹی بڑی تقریباً ۳۸ مساجد آباد ہیں۔ایک بوائز ہائی سکو ل اور دو گرلز ہائی سکول جبکہ چار پرائمری سکولز ہیں۔
سیاسی لحاظ سے جمعیت علماء اسلام اور تحریک انصاف اہم سیاسی پارٹیاں ہیں۔علاقے میں علما ء و فضلاء کی تعداد ۳۵ جبکہ حفاظ کرام کی تعداد تقریبا ۵۰ تک ہے۔فصلوں میں گنا،چاول،گندم ،سبزیاں کاشت کی جاتی ہیں۔لیکن کجھور،امرود اور شہتوت کے درخت بکثرت پائے جاتے ہیں۔
کوٹی سادات میں مختلف قومیں اور خیل آباد ہیں اس علاقے میں اولاد شیتک بنوں کے دوسرے علاقوں کی نسبت کم ہیں۔ ثانہ خیل، مرا خیل، تمش خیل، دولت خیل اور وڑک خیل اس کی بنیادی قومیں ہیں اس کے علاوہ باقی قومیں مختلف جگہوں سے آکر یہاں آباد ہوئی ہیں۔
ادبی لحاظ سے نور قادر شاہ سیماب،ثمر علی ثمر، خیر اللہ شاہ مسرور، شہاب سورانی، عمران شاہ اور عجب خان عجب پشتو ادب کے نمائندے شعرا و ادباء میں شمار ہوتے ہیں۔یہاں کے لوگ سادہ زندگی گزارتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کے زیادہ نزدیک ہیں۔اگر چہ کچھ علاقوں میں اب تبدیلیاں آئی ہیں جہاں تعلیم عام ہے۔پشتون روایات کے پابندکوٹی سادات کے لوگ امن پسند اور محبت کرنے والے ہیں۔دشمنیاں یہاں پر خال خال ہی ہیں۔یہاں کے لوگ زیادہ تر کھیتی باڑی اور کاروبار کرتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مچن خیل بنوں
مچن خیل اصل میں افغان پشتون ہیں لیکن اولاد شیتک نہیں ہیں ان کا شجرہ نسب ابراہیم لودھی سے ملتا ہے۔ ان کے آباو اجداد افغانستان سے وانا جنوبی وزیرستان آئے اور یہاں سے پھیل گئے۔ان کے پر دادا کی قبر مبارک آج بھی وانا جنوبی وزیرستان میں ہے۔جسے لوگ مچن بابا کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ مچن خیل کے کچھ قبائل کالاباغ،کچھ میانوالی،کچھ لکی مروت،کچھ وانا جنوبی وزیرستان اور کچھ ضلع بنوں میں مقیم ہیں۔ ان کے پر دادا جس کے نام سے یہ خیل بھی مشہور ہوا ان کا اصل نام محسن تھا لیکن ایک روایت میں چونکہ یہ لکی مروت کے جنگلات میں اللہ کی عبادت کرتے تھے اور ان کی دعا پر بند چکیاں چلتی تھیںچکی کو پشتو میں مچن کہتے ہیںاس لئے آپ مچن بابا کے نام سے مشہور ہوئے۔ موصوف ایک نیک،متقی اور غیر معمولی کرمات کے حامل مسلمان تھے۔
مچن بابا کے بھائی نیکو کی اولاد بھی کافی بڑھ گئی ہے اور ان کو بھی مچن خیل کے نام سے ہی پکارا جاتا ہے۔چونکہ میرا لب لباب ضلع بنوں کے قبائل اور خاندان ہیں اس لئے بنوں میں مقیم مچن خیل کے قبائل کا ذکر کرتا ہوں۔ بنوں میں منجہ خیل(حال لکی مروت)،غوریوالہ،حسنی دراں شاہ سورانی، گڑھی میر عالم میں مچن خیل کی بستیاں آباد ہیں۔
غازی شرین زمان ضلع بنوں کے مچن خیل قبائل میں اہم شخص گزرے ہیں موصوف فقیر ایپی حاجی میرزا علی خان کے ساتھ ایک بہاد ر غازی کی حیثیت سے انگر یزوں سے بر سر پیکار رہے موصوف خلیفہ گل نواز میوہ خیل کے اہم اورقریبی ساتھی رہے۔دونوں ایک ساتھ فرنگی راج کو ختم کرنے کے لئے ساری زندگی لڑتے رہے۔1928میں غازی شرین زمان کی اولاد کو انگریز تنگ کرتے تو ان کے خاندان والوں نے حسنی دراں شاہ علاقہ سورانی ہجرت کی ۔خاندان کے کچھ لوگوں نے بوزہ خیل میں رہائش اختیارکی جبکہ زمین کی کمی اورافرادکی اضافے کی وجہ سے آج کل دواغوڑہ کوہاٹ روڈ پررحمت آبادگاؤں میں زندگی بسرکررہے ہیں۔ڈاکٹر ثاقب اللہ خان،ڈاکٹر وہاب اللہ خان جنہوں نے Anatomy نامی کتاب بھی لکھی ہے بنوں مچن خیل کی اہم شخصیات ہیں ادبی لحاظ سے بھی یہ خیل کسی سے کم نہیں ہے۔علاقہ غوریوالہ کے مچن خیل اور منجہ خیل کے مچن خیل میں کافی اہم شعراء پائے جاتے ہیں لیکن حسنی دراں شاہ کے مچن خیل میںسرجن ڈاکٹروسیم خان اور رحمت اللہ خاورؔے ایک اہم شاعر اور ادیب ہیں۔موصوف آج کل صوبائی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر اکرم خان درانی کے پرسنل سیکرٹری بھی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔