داؤد شاہ
ضلع بنوں کے شمال مشرق کی جانب علاقہ داود شاہ واقع ہے۔یہ علاقہ ممش خیل کے ساتھ واقع ہے۔علاقہ کی ایک جانب ممش خیل اور آمندی جبکہ دوسری طرف کرم گڑھی وزیر محمد خیل واقع ہے۔خوجہ عبداللہ شاہ المعروف بابا صاحب کے مزار کا روح پرور منظر اس علاقے کے بارڈر پر واقع ہے۔یہی وہ جگہ ہے جو ماضی میں میدان ِجنگ ہواکرتا تھا۔اور یہی پر اکثر جنگیں ہوتی تھیں۔اس لئے یہ علاقہ بہت زیادہ اہمیت کاحامل ہے پہلی بات تو یہ کہ یہاں پر سب سے پہلے صحابہ رسولﷺ نے قدم رکھا تھا۔مہلب بن ابی صفراؓ نے یہاں پر پڑاو ڈالا تھا۔ او ر یہاں پر ایک زبردست جنگ ہوئی تھی۔ دوسری بات یہ کہ اولاد شیتک جب بنوں پر حملہ اور ہو رہے تھے توعلاقہ شوال سے آکر سب سے پہلے انہوں نے یہاں پڑاو ڈالا تھا۔یہ اصل میں سوران کی اولاد ہیں اور ان کو یہ زمین سوکڑ خان سے اس کی بیٹی کی جہیز میں ملی تھی ۔
غازی دلاسہ خان اور ملک دلباز خان جو تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کے پروانے تھے بھی اسی علاقے سے تعلق رکھتے تھے۔ملک دلباز خان ایک غیرتی پشتون تھے۔ جبکہ ایک خوبصورت شاعر بھی گزرے ہیں ڑنگہ خونہ اس کا پشتو شعری مجموعہ ہے۔ علاقہ داؤد شاہ ایک خوبصورت علاقہ ہے اس میں ایک ڈیم بھی ہے جس سے بجلی پیدا کی جاتی ہے مگر افسوس کہ اس کی بجلی ڈیرہ اسمعٰیل خان استعمال کررہا ہے۔ حالانکہ ان پر حق بنوں کا ہے۔ اربابِ اختیار سے اس طرف توجہ کی ضرورت ہے۔ تا کہ بنوں کے لوگوں کو اپنا جائز حق مل جائے۔
غازی دلاسہ خان نے ساری زندگی فرنگی کے خلاف جنگ میں گزاری کبھی بھی انہوں نے اپنا سر نہیں جھکایا حتیٰ کہ فرنگی خود ان کی تعریف کرنے لگے او ان کو ایک بہادر انسان مان لیا۔اس علاقے میں گلہ خیل،صاحب خیل ،ارسلا خیل،عزیزخیل کے گاؤں آبادہیںلیکن اجتماعی طور پر اس کو داود شاہ کہتے ہیںکیونکہ ان سب کا مورث اعلیٰ داؤد شاہ تھے۔ گلہ خان، موسیٰ خان، شیخ زادہ خان، ارسلا خان اور عزیز خان اس کی اہم شخصیات گزری ہیں۔ اسی وجہ سے اقوام ان کے نام سے موسوم ہونے لگیں اور مختلف خیلوں میں بٹ گئے۔موجودہ وقت میں راستہ باز خان،عبدالولی خان، اسرائیل خان،ماسٹر ولی آیاز خان،ملک شیر علی باز خان ڈسٹرکٹ ناظم، انور خان، پیران داؤد شاہ میں پیر علی شاہ،قوم قریش میں افسر علی خان، مولانا ظہور اللہ شاہ،تاج محمد ،ملک شاہ عالم خان، ڈاکٹر عمر شاہ، حمیداللہ تحصیل ناظم وغیرہ وغیرہ اہم شخصیات ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علاقہ داؤد شاہ کی مجموعی صورت خال
سر سبز و شاداب،امرود،ناشپاتی اور آڑوکے باغات سے گھیرا ہوا ہے۔یہ علاقہ بنوں کے شمال مشر ق کی طر ف واقع ہے۔یہاں کے زیادہ تر لوگ تعلیم یافتہ ہیں۔اگر چہ یہاں پر بھی بنوں کے دیگر علاقوں کی طرح لڑائیاں جھگڑے ہوتے ہیں لیکن زیادہ تر یہاں پر امن و امان ہے۔ مہمان نواز اور غیرت مند لوگ ہیں۔ کبڈی،والی بال یہاں کے اہم کھیل ہیں شعر و شاعری اور سیاست کے لحاظ سے بھی یہ ایک اہم علاقہ ہے۔ANP،جمعیت علماء اسلام یہاں کی طاقتور پارٹیاں ہیں۔ ادب کے حوالے سے یہ علاقہ کافی زرخیز رہا۔ ماسٹر ولی آیاز عاطر جیسے بزرگوں نے اس علاقے میں شعر و شاعری کو پروان چڑھایا ہے۔دوسرے لوگوں کی طرح موصوف میں انا پرستی نہیں ہے۔موصوف ہر کسی پر اندھا اعتماد کرتا ہے شائد یہی وجہ ہے کہ اسے ہر کوئی اپنے جیسا دکھائی دیتا ہے۔صابر داود شاہ، بے دار وزیر،یو سف حیران، ریاض سیلاب، زاہد خان زاہد اس علاقے کے ادب میںادبی گلدستے کے تر وتازہ پھول ہیں۔ جو ادب کی ترویج کیلئے کوشاں ہیں۔
تنقیدی یون داؤد شاہ ادبی تنظیم نے ایک پشتو تذکرہ بھی ترتیب دیا ہے جس کے مؤلف صابر داؤد شاہ ہے ۔جو پشتو ادب میں ایک خوبصورت اضافہ ہے۔ اس تذکرہ میں علاقے داؤد شاہ کے تمام چھوٹے بڑے شعرا کرام کا کلام شامل ہیں۔یہاں پر جو سیاحتی مقام ہے جسے زبان عام میںباران ڈیم کہتے ہیں ایک خوبصورت جھیل ہے۔جہاں پر لوگ کونجوں،مچھلیوں اور دوسرے جانوروں کا شکار کرتے ہیں اور بہت سے لوگ اس مقام کو دیکھنے کیلئے دور دور سے آتے ہیں او ر یہا ں کی سیر سے لطف اٹھاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوکڑی
ضلع بنوں کے شہر کے ساتھ ایک گنجان آباد علاقہ سوکڑی واقع ہے۔ علاقہ سوکڑی میں بہت سی ایسی شخصیات گزری ہیں جنہوںنے تحریک پاکستا ن اور قیام پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ اس علاقے کے درمیان میں ایک چوک (حجرہ)ہے۔جہاں پر ایک تاریخی بڑکا درخت ہے اس بڑکے نیچے تحریک آزادی کے اجلاس ہوتے رہتے تھے۔ پشتونستان کی قرارداد سب سے پہلے جنوبی اضلاع میں یہی پر منظور کی گئی تھی۔اس بڑکے درخت نے بہت نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ چیف آف سوکڑی ملک اکبر علی خان کو اس علاقے میں ایک اہم حیثیت حاصل تھی۔ یہ ایک بہت ہی غیرت مند انسان تھا۔ اپنی غیرت کو بر قرار رکھتے ہوئے کئی بار جیل بھی جا چکے تھے لیکن اپنی بات سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے تھے۔
سوکڑی میں پشتون،اعوان، قریش ،سید اور کئی دوسری اقوام رہائش پذیر ہیں ہنجل کی طرح اس کا بھی کچھ حصہ بنوں سٹی میں شمار ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہاں پرنسلاً پنجابی اور اُردو بولنے والے ہندوستانی مہاجرین بھی رہائش پذیر ہیںلیکن یہ ایسی غیراقوام ہیں کہ جنہوں نے اپنے سارے عادات و اطور بنویان کی اپنائی ہیں۔پوسٹ گریجویٹ کالج بنوں سے شروع ہوکر آمندی تک یہ علاقہ پھیلا ہوا ہے۔کانگریس کا اس علاقے سے کافی گہرا تعلق تھا۔ یہ اصل بنویان (بنوسئی) ہے اور اولاد شیتک ہیں۔ سوکڑی مورث اعلیٰ کی وفات کے بعد جب ولی خان ،شادی خان و حسن خان پسران نے تقسیم حقیقت کرلی تو اس میں سب کو اپنا اپنا علاقہ ملا۔اس طرح حسن خان کو حسن خیل ملا۔بعد میں ملک ضابطہ خان اور ملک جبور خان جواس کے جانشین تھے کو بھی علیحدہ علیحدہ حصہ ملا۔وقت کے ساتھ ساتھ ان علاقوں کی آبادیاں بڑھتی گئیں اور یوں ایک کو سوکڑی جبار اوردوسرے علاقے کو سوکڑی ضابطہ خان کہا جانے لگا۔ اس کے علاوہ سوکڑی میں کئی قوموں کے لوگ رہائش پذیر ہیں کمال خیل، حسن خیل، موسم خیل،منگل، چینہ خیل، سیمائی، ہنی،سید اور قریش وغیرہ وغیرہ آبادہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علاقہ سوکڑی کی مجموعی صور ت حال
یہ ایک خوبصورت اور گنجان آباد علاقہ ہے اس میں کئی چھوٹے چھوٹے گاؤں آباد ہیں۔یہاں کی آبادی بنوں کے دیگر علاقوں کی نسبت کچھ زیادہ ہی ہے۔ چونکہ یہ علاقہ بنوں شہر کے سب سے قریب ہے اسی لئے باہر کی قومیں بھی یہاں پر رہائش پذیر ہیں یہاں کے کے لوگ زیادہ تر تعلیم یافتہ اور مہذب یافتہ ہیں۔ لیکن ماحول کا اثر ہے بنوں کے دوسرے علاقو ں کی طرح یہاں پر بھی کبھی کبھی لڑائیاں ،جھگڑے ہوتے ہیں ۔سید کما ل شاہ، ملک عرفان اللہ خان ،صفدر علی خان، ملک آفتاب خان، حاجی سردراز خان، ملک خانباز خان، قاضی فدا رحمان DSPاس علاقے کی اہم شخصیات ہیں۔کبڈی،ولی بال اور کرکٹ یہاں کے اہم کھیل ہیں۔سیاست کے لحاظ سے یہ علاقہ بہت اہم ہے دوران انتحابات یہاں کے پولینگ اسٹیشنوں پر کافی گرما گرمی ہوتی ہے۔کھیل کے لحاظ سے اس سرزمین نے نامور سپوت پیدا کئے ہیں۔پاکستان ہاکی ٹیم کے سابق کپتان قاضی محب کا تعلق بھی پہلے اس علاقے سے تھا۔
علاقہ بارکزئی
میریان روڈ پر واقع علاقہ گریڑہ سے شروع ہو کر علاقہ نورڑ تک پھیلا ہوا یہ ایک خشک علاقہ ہے۔یہاںپر پانی بہت کم پایا جاتا ہے۔اس لئے یہاں پر خشک سالی زیادہ ہے۔ارباب اختیار سے اس طر ف توجہ کی ضرورت ہے۔کیونکہ بہت سی اراضی اسی طرح بنجر پڑی ہے اگر پانی میسر ہو تو اس اراضی سے ضلع بنوں گندم میں خود کفیل ہو سکتا ہے۔ اس علاقے کے لوگ خالص بنویان ہیں اور اولاد شیتک ہیں۔یہاں کے باشندے بھی اصلی بنویان کی زبان استعمال کرتے ہیں۔اس علاقے کو ہر لحاظ سے ہر دور،ہر حکومت میں اس علاقے کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ میریان روڈ اس بات کی دلیل ہے۔ یہ ایک ایسی سڑک ہے کہ اس پر چلنے کیلئے آپ کو بارش میں کشتی لینی ہوگی۔پل صراط کی طرح یہ سڑک پچھلے ۵۰ سالوں سے کسی مسیحا کے انتظار میںہے۔
علاقہ بارکزئی کے لوگ بہت ہی محنتی اور جفاکش ہیں سب سے زیادہ بھٹہ خشت اسی علاقے میں ہیں اور یہاں کے لوگ اسی بھٹہ خشت میں کام کرکے جنوبی اضلاع کے لوگوں اور شمالی و جنوبی وزیرستان کے باسیوں کو اینٹیں فراہم کرتے ہیں۔اس علاقے کی اہم شخصیات میں ملک ممتاز خان ایک اہم ،غیرت مند اور مہمان نواز شخص تھے۔ موصوف ایک نہایت سیدھے سادے انسان تھے۔موجودہ وقت میں ملک دلنواز خان،ملک حیات خان،ملک آحیا جان اس علاقے کی اہم شخصیات میں شامل ہیں۔اس کے علاوہ اسی علاقے کے قریب مندیو میں حاجی فضل ولی صاحب(مرحوم) اور ان کے خاندان کے افراد کو بھی اس علاقے میں اہم حیثیت حاصل ہے۔ علاقے میں امن و امان کے قیام کیلئے ان لوگوں کا کردار کافی جاندار ہے ۔نور ولی جان ثاقب صاحب جو پشتو ادب میں ایک گلستان کی حیثیت رکھتے تھے اسی علاقے کے باسی تھے۔موصوف ایک اعلیٰ پایہ کا بہترین پشتو شاعر،ادیب اور نقاد تھیان کاشعری مجموعہ بعدازوفات #Žغ کے نام سے شائع ہوا۔علاقہ بارکزئی میں ایک ادبی تنظیم بھی ہے بریخنا ادبی جرگہ بارکزئی کے نام سے یہ ادبی تنظیم صادق بارکزئی نے بنائی ہے۔ یہ ایک تعلیم یافتہ اور باہمت شاعر ہے۔ اس کے ساتھ اس تنظیم میں او ر بھی بہت سے شعرا کرام ادب کی ترویج کیلئے کوشاں ہیں۔
سیاسی لحاظ سے بھی یہاں بہت ہلچل ہوتی ہے۔جمعیت علماء اسلام، پشتونخوا میپ اور مسلم لیگ یہاں کی اہم سیاسی پارٹیاں ہیںلیکن موجودہ دور میں یہاں پر جمعیت کا راج ہے۔کبڈی ،والی بال اور کرکٹ یہاں کے اہم کھیل ہیں۔یہاں کے لوگ عام طور پر سادہ زندگی گزارتے ہیں زیادہ تر کھیتی باڑی اور بھٹہ خشت میں کام کرتے ہیں۔اس علاقے میں امن و امان زیادہ ہے۔اس علاقے کی نئی نسل اب تعلیم کی طرف راغب ہے ۔اورترقی کی طرف گامزن ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نورڑ
یہ علاقہ بھی بارکزئی کے بارڈر پر واقع ہے۔یہ ضلع بنوں میں جنوب کی طرف قوم میری کا علاقہ ہے جوبہت گنجان ہے۔ یہاں پر بھی مختلف قسم کے خیل رہائش پذیر ہیں جن کو میری کہلاتے ہیں۔ ان سب خیلوں کا ذکر یہاںپر ممکن نہیں ہے کیونکہ یہ تقریباً ۶خیلوں پر مشتمل ہیں نورڑ بھی اصل اولاد شیتک ہیں۔ باہمی اتفاق کی وجہ سے یہ علاقہ کافی مشہور ہے۔ اگر اس علاقے کی طرح ضلع بنوں کے سب علاقے آپس میں اتحاد و اتفاق سے رہتے تو کسی کو مجال کے بنوں کے حقوق پامال کرتے لیکن افسوس کہ پشتون تو اکثر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف عمل ہیں۔
علاقہ نورڑ میں زیادہ تر لوگ کھیتی باڑی اور مزدوری کرتے ہیں یہاں کے لوگ سیدھے سادھے پشتون ہیں۔ اس علاقے میں جرگہ سسٹم بھی ابھی تک قائم ہے۔ جب کبھی کوئی بیرونی آفت آتی ہے تو یہاں کے تمام خیل یکجا ہو جاتے ہیں۔ چاپڑ ملک، خوبان شاہ، ڈاکٹر صاحب زمان ،منیر شاہ،ڈاکٹر غنی اللہ خان اور ڈاکٹر شفیع اللہ خان نورڑ اس کی اہم شخصیات میں شامل ہیں ۔ آبادی کی گنجانیت کی وجہ سے اس علاقے میں ایک پولیس تھانہ ہے اس کے ساتھ ساتھ نورڑ کا ایک چھوٹا سا بازار بھی ہے جہاں پر ضروریات زندگی کی تمام چیزیں ملتی ہیں۔ اس علاقے میں اہم کردار ان شخصیات کا ہیں۔سیاسی ،ادبی، سماجی،معاشرتی اور ادبی لحاظ سے اس علاقے کا کردار نہایت جاندار رہے۔کرکٹ اور ولی بال یہاں کے اہم کھیل ہیں۔
سیاسی لحاظ سے یہ علاقہ مشہور ہے کیونکہ دوران انتخابات اس علاقے میں سخت مقابلہ ہوتا ہے ۔معاشرتی لحاظ سے بھی اس علاقے کے لوگ مہمان نواز اور اسلام پسند ہیں۔اس علاقے کی آبادی علاقہ ککی کی طرح بہت زیادہ ہے اس لئے احباب اختیار سے گزارش ہے کہ نورڑ کی آبادی زیادہ ہے۔ اس لئے اس کو تحصیل کا درجہ دیا جائے تا کہ یہاںکے لوگوںکو اپنا جائز حق مل جائے کیونکہ اس علاقے کے لوگ پٹوار کیلئے بنوں شہر آتے ہیں اور بہت زیادہ تکلیف اٹھاتے ہیں۔ پانی کم ہونے کی وجہ سے اس علاقے کی بہت ساری زمینیں بنجر پڑی ہیں اس طرف بھی توجہ کی ضرورت ہے۔یہاں کے لوگ خالص بنوی زبان بولتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ککی
ککی اصل بنویان(بنوسیان) ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ ککی یا ککے ہی سارے بنویان کا مورث اعلیٰ ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ کیونکہ ککی کا شجرہ نسب بابا شیتک سے ملتا ہے۔ جبکہ باقی بنویان کا شجرہ نسب ککی سے ملتا ہے۔ ککی میں قریش اور سید قومیں بھی آباد ہیں۔ لیکن ان کواراضیات اولاد شیتک نے مفت میں دی تھیں کیونکہ یہ لوگ بخارا سے آئے تھے۔ اور یہاں دین کی خدمت کرتے تھے اسی وجہ سے اولاد شیتک ککی نے انہیں کچھ اراضی مفت میں دے دی۔ککی میں ارسلا گاؤں سید کی گاؤں ہے۔اس گاوں میں قریش اور سید آباد ہیں اس کے علاوہ ککی خاص، کوٹکہ ظفر، کوٹکہ لونگ شاہ،کوٹکہ تائب، کوٹکہ سوالے، کوٹکہ نواب، کوٹکہ نیکم ککی، کوٹکہ عالم خان،کوٹکہ پائندہ خان، جندروالی، خواجہ عباس کلہ، مدک کلہ،کوٹکہ اعظم شاہ، منظر خان کلہ،ہوید وغیرہ ککی کے اہم گاؤں اور بستیاں ہیں۔ ککی کے نام پر ضلع بنوں میں ایک ایسا علاقہ ہے۔ جس کو تحصیل کا درجہ دیا گیاہے۔ یہ علاقہ ایک قدیم سرسبز و شاداب علاقہ ہے۔
اس علاقے کے لوگ مہمان نواز اور لڑاکو ہیں۔ زیادہ تر تعلیم یافتہ لوگ بھی اس علاقے میں ہیں یہاں کی اہم شخصیات میں پروفیسر اطلس خان کنٹرولر آف ایگزامینشن یونیو رسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی بنوں، پروفیسر محمد حکیم خان مرحوم)، ملک محمد یونس خان، فخر ککی شہاب خان، ملک شیر خان، مولوی ربان شاہ، مولوی صدیق خان، دلاور خان، محمد سبحان، نثار خان،مجاہد خان، اور جنید الرشید ناظم ککی،پیر مراد علی شاہ وغیرہ وغیرہ قابل ذکرہیں۔یہ علاقہ کافی مرد م خیز اور زرخیز رہا یہاں کے لوگ زیادہ تر تعلیم یافتہ ہیں اگر چہ لڑائیاں اور جھگڑے بھی یہاں پر ہوتے ہیں لیکن ان کے بستیوں میں تعلیم کی وجہ سے کچھ نا کچھ امن ہے۔کبڈی ،والی بال اور کرکٹ یہاںکے اہم کھیل ہیں۔ سیاسی لحاظ سے بھی اس علاقے میں دوران انتحابات کافی گرما گرمی ہوتی ہے۔ اس علاقے کے لئے اکرم خان درانی صاحب نے اپنا ایک علیحدہ بجلی کا فیڈر بنایا ہے۔پاکستان تحریک انصاف ،جمعیت علما ء اسلام اور پیپلز پارٹی یہاں کی بڑی سیاسی جماعتیں ہیں۔
ادبی لحاظ سے بھی یہ ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ آیاز پیر خیلوی صاحب اور فراز پیرزادہ ککی ادب کے دو ایسے تابندہ ستارے ہیں جنہوںنے اس علاقے کے لوگوں کو معیاری اور کتابی ادب کے ساتھ متعارف کرایا ۔ ککی ادبی رور ولی (ککی ادبی بھائی) کے نام سے ایک پشتو ادبی تنظیم بنائی گئی ہے جو پشتو ادب کے فروغ کیلئے اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔مذکورہ ادبی تنظیم کے شاعر اور ادیب جناب نقیب اللہ سالک نے پشتو شعر و شاعری کے اسلوب پر مشتمل ایک خوبصورت کتاب د پشتو شعر عروضی نظام(پشتو شعر کا عروضی نظام) شائع کی ہے جس کو صوبائی سطح پر اجمل خٹک ادبی ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مذکورہ ادبی تنظیم کا ایک تذکرہ بھی شائع ہو چکا ہے۔فراز پیرزادہ، دمساز شاہین، وہاب روان، نقیب اللہ سالک، وحیداللہ آساس، رستمال ظہیر اورمحمد آصف خان اس گلدستہ ادب کے خوبصورت پھول ہیں۔محترم آیاز پیر خیلی صاحب اب اس دار فانی میں نہیں ہے جو ایک بلند پایہ شاعر اور ادیب تھے۔
میتاخیل
یہ بھی ضلع بنوں کا ایک اہم اور خوبصورت علاقہ ہے۔ اس میں پشتون،اعوان،قریش اور سید قومیں آباد ہیں۔یہ علاقہ بنوں شہر سے کچھ مسافت پر واقع ہے۔ اس کا ایک سرا علاقہ بائیست خیل کے ساتھ جڑا ہوا ہے جبکہ دورے سرا علاقہ منڈان کے ساتھ ہے۔ یہ سر سبز علاقہ ہے ماضی میں بنوں کی تمام تر سبزیاں یہاں پر کاشت کی جاتی تھیں۔ اب بھی بعض جگہوں پر علاقہ میتا خیل میں سبزیاں کاشت کی جاتی ہے۔ ضلع بنوں کے دوسرے علاقوں کی نسبت یہاں کے لوگ کچھ زیادہ ہی جھگڑالو ہیں۔ اگر یہاں کے لوگ علاقے کی خوشحالی اور ترقی کیلئے یکجا ہو جائیں تو یہ علاقہ کافی ترقی کر سکتا ہے۔اس علاقہ میں اولاد شیتک نہ ہونے کے برابر ہے۔
یہاں کی اہم شخصیات میں ملک محمد ایوب خان جو ملک آن کا بیٹا ہے ملک آن بنوں کا ایک اہم شخص گزرا ہے۔ملک عبد الرحیم، ملک نعیم خان، غفور خان ماسٹر، مولانا نعمت اللہ خان اور ملک شعیب نیاز ریٹائرڈ قانونگو شامل ہیں۔ سیاسی اعتبار سے یہ علاقہ اہم رہا جمعیت علماء اسلام اور پاکستان تحریک انصاف یہاں کی اہم سیاسی پارٹیا ں ہیں۔ادبی لحاظ سے یہ علاقہ اتنا زرخیز نہیں ہے۔ البتہ برکت میتاخیل اور ماسٹر میتاخیل اس علاقے کے اہم شعرا ہیں۔ برکت میتا خیل طنز و مزاح اور بنوسوالہ لہجہ کی شاعری میں ایک منفرد مقام کا حامل شاعر ہے۔موصوف سپوگمئی تنقیدی ٹولنہ بنوں کے نائب صدر ہے پشتو ادب میں ممتاز علی خان ممتاز کا نعم البدل تصور کئے جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوثر فتح خیل
میتا خیل کے ساتھ کوثر فتح خیل کا علاقہ ہے جس میں مختلف قومیں اور مختلف قوموں کے لوگ رہائش پذیر ہیں۔یہاں کی زیادہ تر آبادی تعلیم یافتہ ہے۔فتح خیل، قریش آباد، زاہدآباد،نئی آبادی کوثر فتح خیل کو ٹکہ زاہد آباد، سپونی کلہ، صنم گل کلہ، آباد خیل، کوٹکہ اخوندان میر قلم دین، کوٹکہ اخوندان محمد اسلام، نصر فتح خیل اور بہادر مانک خیل کوثر فتح خیل یونین کونسل کے اہم علاقے ہیں۔یہاں کے اکثر اقوام یہاں کے مستقل رہائشی نہیں ہیں۔محکمہ مال کے ریکارڈ کے مطابق ۱۸۷۷ ء میں یہاں پر صرف فتح خیل(سپونی کلہ) کے چند گھرانے آباد تھے اس کے ساتھ ساتھ اس علاقے پر زیادہ تر سوکڑی اور بنوں سٹی کے لوگوں کا قبضہ تھا۔ امان خان فلمی اداکار اور بنوں سٹی اور نار شیرمست و نار جعفر خان کے دینی شیخان کی یہاں پر کافی اراضی تھی۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ چونکہ یہ علاقہ بنوں سٹی کے سب سے زیادہ نزدیک ہے اس لئے مختلف اقوام کے لوگوں نے اس علاقے کا رخ کر کے یہاں پر سکونت اختیار کی۔حتیٰ کہ ہری پور کے کچھ لوگ بھی یہاں پر رہائش پذیر ہیں۔
یہاں کی اہم شخصیات میںشیخ الحدیث حضرت مولانا بہرام خان المعروف سپونی کلی مولوی صاحبؒ،شیخ الحدیث حضرت مولانا مفتی محمد وسیم (مرحوم)شیخ الخدیث حضرت مولاناعظیم خان (مرحوم)مولانا اعزاز اللہ حقانی،مولانامفتی شیخ الحدیث امداد اللہ(قریش آباد) ملک کریم بخش خان (مرحوم) ملک معز اللہ خان (مرحوم)ملک انعام خان (مرحوم)، مفتی ظفر یاب خان، شادمان حائیل ایڈووکیٹ (عبیدخیل)،محمد اسلام خان چیئرمین کونسلر آخوندان اس علاقے کی اہم شخصیات ہیں واضح رہیں کہ اس میں شادمان حائیل ایڈووکیٹ کا تعلق علاقہ جھنڈو خیل میںملک عنایت اللہ ،ملک میر دراز اور ملک مائینل کے گھرانے سے ہے یہ گھرانہ نئی آبادی کوثر فتح خیل کو خاندانی دشمنیوں کی وجہ سے آئے ہیں اور یہاں پر مقیم ہیں۔
یہاں کے لوگ عام طور پر سخت مزاج ہیں لیکن اب مصالحتی کمیٹیوں کی وجہ سے امن و امان قائم ہے۔ کبڈی،والی بال اور کرکٹ یہاں کے اہم کھیل ہیں۔سیاسی اعتبار سے علاقہ کوثر فتح خیل کے تمام گاؤں میں سخت مقابلہ ہوتا ہے۔اس علاقے میں پہلے ANP اور پیپلز پارٹی دو اہم اور مضبوط سیاسی پارٹیاں تھیں لیکن اب موجودہ دور میں یہ سارا علاقہ جمعیت علما ء اسلام کا گڑھ ہے اگر چہ کچھ جگہوں پر پاکستان تحریک انصاف کا مورال بھی اچھا ہے۔
کالاخیل
ڈی ۔آئی ۔خان روڈ پر واقع یہ ایک گنجان آباد علاقہ ہے ضلع بنوں کے اہم علاقوں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ قوم ہنی و منگل کے خروج کے بعد علاقہ کالاخیل مسمی کرائی کے حصے میں آیا۔ کرائی کی وفات کے بعد نقرہ دین کے چھ بیٹوں کے درمیان تلخی ہوئی اسی وجہ سے اس میں علیحدگی ہوگئی۔ نقرہ دین خیل کی اولاد میں عبیدخیل، جھنڈوخیل، کالاخیل، اسمعٰیل خیل،سکندر خیل اہم ہیں۔نار ،جھنڈوخیل،آدھمی کا علاقہ ملک شیر مست خان کے حصے میں آیا۔ مسمی بدل کے حصے میں علاقہ اسمعٰیل خیل ،جبکہ کالا خان کے حصے میں کالا خیل کا علاقہ آیاچونکہ ان کے درمیان میں نفاق تھا اس لئے کالا خان نے اپنا علاقہ مستی خان نے اپنا علاقہ اور یر خان نے اپناعلاقہ خود کنٹرول میں لیا۔ ایک وقت میں خوجرم خیل اور موضع شکراللہ کے درمیان جھگڑا بھی ہو گیا تھا۔ جس کی وجہ سے کالا خان نے گاؤں سے باہرکچھ گھر بنائے اور اپنے ساتھ کچھ ہمسایہ گان بھی رہائش پذیر کر دئیے تاکہ حملہ اوروں کا مقابلہ کر سکیں۔ کالاخیل میں مستی خان اور امیرخان کلہ مشہور ہیںلیکن بنیادی طو پر ان کو کالا خیل کہا جاتا ہے۔ یہاں پر پشتون، قریش ،اعوان اور سید قومیں آباد ہیںشیخان بھی اس علاقے میں آباد ہیں۔سیاسی اور ادبی لحاظ سے یہ علاقہ اتنا زرخیز نہیں ہے نوشیر کمال، گل ایوب سیفی(مؤلف تاریخ بنوں وزیرستان) اس علاقے کے اہم شعراء کرام ہیں۔اقبال حسرت بھی یہاں کے شاعر ہے مگر بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان کے کلام سے استفادہ حاصل کرنے سے نئی نسل محروم ہے کیونکہ موصوف ابھی تک صاحب کتاب نہیں ہے۔ خدا کرے کہ نئی نسل کو اپنے کلام سے مستفید کرانے کیلئے دیوان چھاپنے کی توفیق حاصل ہو یا حکومت وقت کو ایسے شعراء و ادباء کی مالی مدد کرنے کی توجہ ہو جن کی اپنی توفیق نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیخان
اس قوم کا تعلق اصل میں اولاد شیتک نہیں ہیں یہ شیخ محمد روحانی کی اولاد سے ہیں ایک معزز ،عزت دار اور مہذب قوم ہے۔ امیر شاہ،غفار شاہاور جلندر شاہ یہاں کے اہم خیل ہیں۔ یہ ایک ہی باپ کی اولاد ہیں۔ ضلع بنوں میں ان لوگوں کو بہت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کیونکہ یہ شیوخ ہیں اور دین اسلام کی خدمت کرتے ہیں۔یہ شیوخ اولاد شیتک کے آنے سے پہلے ہی بنوں میں مقیم تھے لیکن اقوام ہنی و منگل ان پر ظلم کرتے تو اسی وجہ سے ان کے کہنے پر اولاد شیتک نے بنوں کا رخ کیا تو یہ شیوخ بھی ان کے ساتھ مل گئے اور یوں بنوں پر ایک عظیم لشکر حملہ اورہوا کالا خیل ،شہباز عظمت خیل اور بازاراحمد خان کے ساتھ شیخان کی سرحدیں ملتی ہیں یہ قوم بھی عیسکی میں شمار ہوتی ہے پیرشاہ صاحب،صراف علی شاہ پرنسپل،ناظم نصیب نواز اس علاقے کے اہم شخصیات ہیں۔ادبی لحاظ سے کئی اہم شعراء اس علاقے سے تعلق رکھتے ہیں جن میں شاہد خان شاہد جو ریڈیو پاکستان بنوں میں اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہیں ایک اہم اورقابل شاعر ہے۔حاجی سعید الرحمن صاحب امیر تبلیغی جماعت بھی شیخان کا رہنا والا ہے جو انتہائی متقی انسان ہے۔خدا اس کی عمر دراز فرمائیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ممہ خیل بنوسی
یہ ضلع بنوں کے جنوب مغرب کی طر ف ایک وسیع علاقہ ہے۔ اس علاقے میں پانی کی کمی کی وجہ سے بہت ساری اراضی غیرا ٓباد پڑی ہے اس علاقے کے لوگ زیادہ تر سادہ زندگی گزارتے ہیں۔یہاں کے لوگ بھی بنوں کے دیگر علاقوں کی طرح مہمان نواز اور لڑاکو ہیں۔ تعلیم کی کمی کی وجہ سے اس علاقے میں امن و امان کی کمی ہے۔ارباب اختیار کو چاہیے کہ اس کی ترقی کیلئے اپنی توانائیاں صر ف کریں تاکہ ان لوگوں کو اپنی بنیادی سہولیات ان کے علاقے میں ہی دستیاب ہو جائیں۔مولانا عبدالغنی (مرحوم) جو دیوبند سے فارغ التحصیل تھے ایک بلند پایہ کے عالم تھے اسی ممہ خیل بنوچی کے باسی تھے۔ مولانا محمد حسن المعروف لالا گل مولانا کا تعلق بھی اسی علاقے سے تھا ۔ ملک نواز خان(مرحوم) اور ملک دلاور خان ممہ خیل اہم شخصیات ہیں کھیل کے لحاظ سے اس علاقے سے تعلق رکھنے والے مراد جہان بھی ممہ خیل کا باسی ہے مراد جہان پاکستان کے والی بال ٹیم کے کھلاڑی ہے اور والی بال میںاپنے ملک و قوم کا نام روشن کر رہے ہیں۔اینڈا بنوں کا پرانا اور قدیم کھیل ہے اگر چہ اب یہ کھیل ختم ہو چکا ہے لیکن ماضی میں یہ بنوں کا سب سے اہم علاقائی کھیل تھا۔ اینڈا میں گل اختر کا نام کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔بنوں کے بزرگ لوگ گل اختر کے بارے میں کافی جان کاری رکھتے ہیں۔ادبی لحاظ سے بھی ممہ خیل بنوچی اہم علاقہ ہے غنچہ ادبی جرگہ اس علاقے کا اہم ادبی تنظیم ہے۔عمر گل غرسنئی(مرحوم) اس علاقے کا اہم شاعر گزرا ہے۔ عبدالسلام تابش،توقیر آبشار، مومین خان مومین اور جمیل خان غنچہ ادبی جرگہ ممہ خیل بنوں کے اہم اور سرکردہ ارکان ہیں۔جاویداحساؔس جوکہ ایک جدید شاعر، نقاداورادیب ہیںاس علاقے سے تعلق رکھتے ہیںموصوف آجکل درانی سکول اینڈ کالج میں لیکچرر ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسماعیل خیل
اسماعیل خیل قوم کے لوگ اس لحاظ سے بنوں کے باشندے ہیں ہوید اور جیلم بھائی تھے جو کہ نسل کے لحاظ سے کم تھے اس لیے کیوی کی اولاد میں ان کی شمار ہونے لگی ۔ بعض لوگوں نے اس مغالطے کی بنا پر انہیں بنگش کہا ہے کہ یہ اسماعیل خیل دراصل اسماعیل خان خیل ہے چونکہ بنگشوں کا مورث اعلیٰ اسماعیل تھا اورپھر اسماعیل کی اولاد اسماعیل خیل کہلائی جو کہ کوہاٹ، پشاور اور خوست میں آباد ہے مگر یہ اسماعیل خیل بنگش کے مورث اعلیٰ اسماعیل کی اولاد نہیں بلکہ ہوید کی اولاد میں سے ہیں جو کہ شیتک ہیں۔سابق صدر پاکستان غلام اسحاق خان ،غلام ابراہیم خان سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس صوبہ خیبرپختونخوا، انعام اللہ خان اس علاقے کی اہم شخصیات ہیں۔
قوم وزیری
قوم وزیری کے مورث اعلیٰ کا نام وزیر تھا۔ جو سلیمان بن کرلانڑ کا فرزند تھا۔ وزیر کے دو لڑکے تھے ایک کا نام خضری یا خذری اور دوسرے کا نام لالائی تھا۔زمانہ سابقہ میں اولاد وزیراور اولاد شیتک علاقہ برمل میں کوہ سلیمان میں رہائش پذیر تھا۔اتفاقا وزیروںنے شیتک کی اولاد کے ایک شخص کو قتل کر دیا چنانچہ لالائی انتقام کے خوف سے وہاں سے بھاگ کر ننگر ہار گیا۔ وہاں شادی کی اور آج کل اس کی اولاد لیلا یا وزیر کوہ سفید کے آس پاس آباد ہیں۔ وزیر کے پہلے بیٹے خضری یا خذری کے تین بیٹے تھے۔موسی ٰ عرف درویش،مخمود ! موسیٰ درویش کے دو بیٹے تھے ایک اتمان جس کی اولاد اتمان زائی کہلاتی ہیں جبکہ دوسرا احمد خان جس کی اولاد احمد زئی کہلاتی ہے۔
وزیر وہ واحد قبیلہ ہے جس میں بہترین اتحاد و اتفاق ہے یہ قبیلہ بیک وقت ہر قبیلے سے دست گریباں رہا اگر ان میں یہ بات ختم ہو جائیںاور تعلیم کی طر ف متوجہ ہو ئے تو کرلانڑقبائل میں یہ سب سے زیادہ ترقی یافتہ قبیلہ بن سکتا ہے۔ اتمان زائی وزیر درہ گومل اور ٹوچی کے دونوں اطراف میں پہاڑی علاقوں پر قابض ہیں جبکہ احمد زئی وزیر زیادہ تر تھل کے علاقے میں آباد ہیں۔
1848ء کے ریکارڈکے مطابق ،وزیروں کے محسن اعظم ملک سوان خان جنرل کارٹ لینڈ کے خیمے میں آئے اور مالیہ دینے سے صاف انکاری ہوا۔ لیکن ایڈورڈ نے صاف بتادیا کہ یا تو آپ مالیہ ادا کریںیا پھر تھل کا علاقہ چھوڑ یںتاکہ ہم اسے اس کے حق داروں بنوسیان کو دوبارہ دیدیںان کی باتیں سن کر ملک سوان خان نے حامی بھر لی اور پھر باقاعدگی سے مالیہ دیتے رہے لیکن مسئلہ اسی طرح حل نہیں ہوا ۔کوئی تور گوند اور بنوسیان کے سربراہ ملک شیر مست خان جھنڈوخیل کو ملامت کررہا تھا توکوئی ملک سوان خان کو۔ آخر میں فیصلہ ہواکہ زمین کی پیمائش کی جائے لیکن جب وزیروں کو اس بات کا علم ہو ا تو سب ایڈورڈ کے پاس گئے اور ان کو آمادہ کیا۔ اس جرگے میں ہاتھی خیل،بیزن خیل، عمر زئی،سرکی خیل،مہمند خیل،سوان خیل،بکا خیل اور جانی خیل وزیر کے مشران شامل تھے۔یہاں پر ایک شرائط نامہ تحریر کیا گیا جس کا متن کچھ یوں ہے۔
ایڈورڈ نے خو د کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ 25/30 سال گزر گئے کہ بنوں کا علاقہ حکومت خراسان سے جدا ہو اہے۔ بنوسیان کی بے اتفاقی اور آپس کی دشمنی سے فائدہ اٹھا کر وزیروں نے اس زرخیز وادی پر قبضہ کیا اور آگے بڑھتے رہے۔ اب یہاں پر مقیم تمام اقوام مالیہ ادا کریں اور اگر آپ نے مالیہ ادا نہیں کیا تو آ پ کی زمینیں دوبارہ بنوسیان کے حوالے کی جائے گی۔ دراصل انگریزوں نے شروع سے ہی یہی کوشش کی کہ بنوں کے تمام اقوام کو آپس میں لڑائیں تاکہ وہ کمزور رہیں انگریز کا فارمولا تھا Devide & Rules اگر وزیر اور بنوسیان میں اتفاق ہو تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ایڈورڈ وزیروں کو شرائط پر آمادگی کیلئے دھمکیاں دیتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہمندخیل وزیر
احمد زئی وزیر کی یہ شاخ علاقہ مہمند خیل میںداودشاہ کے علاقے کے ساتھ آباد ہے۔یہ اصل میں محمد خیل ہے لیکن کچھ لوگ ان کو مہمند خیل کہتے ہیں۔مہمند خیل کی آٹھ شاخیں ہیں۔ گرونی خیل، کالوت خیل، میرزا خیل، فاطمہ خیل وزیر، لولیا خیل، کوزی خیل،کوادہ خیل، اور شودیہ خیل وزیر ۔شودیہ خیل اصل مہمند خیل نہیں ہے اس کو مہمندخیل وزیر نے اٹھواں حصہ دیا اور اب یہ بھی مہمند خیل وزیر میں ہی شما ر ہوتا ہے۔ یہ علاقہ آج سے تقریباً ۶۰۰ سال پہلے ان اقوام نے آباد کیا تھا ۔مہمند خیل وزیر دو حصوں میں تقسیم ہے ایک کو پٹونہ محمد خیل کہتے ہیں جو علاقہ داود شاہ میں باران ڈیم کے شمال مشرق کی جانب واقع ہے واضح رہے کہ اس علاقے پر FCRاور FIRدونوں قانون لاگو ہیں۔دوسرے کو خدری محمد خیل کہتے ہیں جو بکا خیل کی سرحد کے ساتھ مروت کنا ل کے قریب بنوں ائر پورٹ کے ساتھ آزاد منڈی کے ساتھ واقع ہے۔
مہمند خیل یا محمد خیل وزیر کے تما م خیلوں نے عوامی جرگوں،بنوں بجلی گھر، باران ڈیم اور ہیڈ کی دیکھ بھال اور حفا ظت کیلئے ۱۲ رکنی کمیٹی بنائی ہے جس کو وہ اپنی زبان میں بدرگہ کہتے ہیں جبکہ اپنے علاقے کی حفاظت کیلئے بھی ۶۰ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی(بدرگہ ) بنائی ہے۔ان تمام افراد کو باقاعدہ سرکار ی تنخواہیں دی جاتی ہیں۔مہمند خیل وزیر کو ابھی تک سرکار کی طرف سے خان بہادری کا وظیفہ دیا جاتا ہے۔جو380/= روپے ماہانہ ہے۔ اس کے علاوہ مہمند خیل وزیر کے تما م خیلوں کی بھی ایک کمیٹی (بدرگہ) بنائی گئی ہے جس میںمہمند خیل کے تمام خیلوں کے افراد شامل ہیںیہ کمیٹی مہمندخیل قوم کی تعمیر و ترقی کیلئے فیصلے کرتی ہے۔اور ہر کوئی اس پر بخوشی عمل کرتا ہے۔اس کمیٹی میں گرونی خیل شاخ کے حاجی ملک شیر علی خان، امیر گلاب خان، کوادی خیل شاخ کے حاجی قادر خان، ملک محمد رقیب خان، کالوت خیل شاخ کے ملک عمر گل اور ملک سعید خان، میرزاخیل شاخ کے ملک خون بت خان،ملک شیر عجم خان، لولیا خیل شاخ کے ملک گل ولی خان اور ملک اول نو رخان،کوازہ خیل شاخ کے ملک میر شمد خان اور جمیر قادر خان جبکہ شودیہ کائی شاخ کے شاہ ولی خان اور حاجی خانواز خان شامل ہیں۔ملک آیاز خان(مرحوم)ملک محمد سبحان،ملک رحما ن اللہ خان (مرحوم)مہمند خیل کی اہم شخصیات تھیں۔موجودہ دور میں گرونی خیل شاخ کے زاہد خان سول جج ، شاکر اللہ خان جو ہیڈ کے سیکورٹی انچارج ہیں،ملک ثنا ء اللہ خان اہم شخصیات ہیں۔
علاقہ مہمند خیل کی پہاڑیوں میں علی شو بابا کی پہا ڑیوں میں گیس و تیل دریافت ہوئے ہیں۔اس طرف توجہ کی ضرورت ہے۔یہاں پر کیلے اور سبزیاں خوب کاشت کی جاتی ہیں۔ تعلیم کی کمی کی وجہ سے یہاں پر دشمنیاں زیادہ ہیں۔ ادبی لحاظ سے دلنواز محب(مرحوم) اہم ادبی شخص گزرا ہے۔جس کا پشتو شعری مجموعہ د زڑونو تڑون شائع ہو چکا ہے۔سیاسی لحاظ سے پیپلز پارٹی،تحریک انصاف ،عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علماء اسلام اہم سیاسی پارٹیاں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جانی خیل وزیر
جانی خیل اصل میں اتمان زئی وزیر ہیں یہ علاقہ ضلع بنوں کے جنوب میں علاقہ نورڑ کے قریب واقع ہے۔جانی خیل کا محل واقع کچھ اس طرح سے ہے کہ اس کے مشرق میں ضلع لکی مروت کے علاقہ زندی اور ایف ۔آر لکی مروت ہے۔مغرب کی جانب شمالی وزیرستان ایجنسی ہے شمال کی جانب ایف ۔آر بکا خیل واقع ہے جبکہ جنوب کی طرف بیٹنی قبائل ،سیو غر(سیو کی پہاڑی) اور ایف۔آر لکی مروت واقع ہے۔
قوم جانی خیل وزیر کی ۳ بڑی شاخیں ہیں۔عیدیا خیل،طور،ملک شاہی !اسی طرح پھر ان تین شاخو ں کی کئی شاخیں ہیں مثلاً قوم عیدیا خیل وزیر کی پھر ۵ شاخیں ہیں مالی خیل، علی خیل، مچی خیل،خوجدر خیل او وڑنیکائی ! اسی طرح قوم طور کی ۴ شاخیں ہیں ہندی خیل ، بچکی، ممتین خیل اور نصری خیل وزیر ۔ملک شاہی کی بھی ۴ شاخیں ہیں مینا خیل، میاں خیل، ماموں خیل اور براخا نخیل۔
جانی خیل وزیر کی یہ تمام شاخیں مہمان نواز اور پشتو رسم و رواج کے پابند قبائل ہیں۔ اسلام سے محبت اور اپنے وطن سے عقیدت رکھنے والے یہ پشتون وزیر قبائل کبھی بھی اپنی غیرت پر آنچ نہیں آنے دیتے۔ان میں ہر خیل کے کچھ بااثر افراد ان کے مشر اور ملک ہیںجو اپنے خیل کے ہر مسئلے کو حل کرنے کیلئے اپنی کوششیں کرتے ہیں۔انگریز دور میں خان بہادر زرغون شاہ عیدیا خیل( مالی خیل) جانی خیل کے مشر خان بہادر اور ملک تھے۔تما م جانی خیل کی شاخیں موصوف پر اعتماد کرتے اور وہ بھی پوری ایمانداری سے ہر مسئلے کو حل کرتے۔مذہبی لحاظ سے عبد الحنان ملک شاہی(ماموں خیل) اہم مذہبی راہنما تھے۔جانی خیل کی تمام شاخیں موصوف کی بہت عزت کرتی تھیں۔متقی اور پرہیزگار انسان تھے۔ادبی لحاظ سے شاکر جانی خیل یہاں کے ادبی گلستان ہیں۔شاکر جانی خیل ایک پشتو شاعر و ادیب ہے۔موصوف کے کلام میں انقلابی رنگ نمایاں ہے۔شاعر فدا وزیر بھی اس علاقے کا ایک اہم شاعر و ادیب ہے۔
بکا خیل وزیر
بکا خیل وزیر کی بھی کئی شاخیں ہیں۔بکا خیل کے مشرق میں ضلع بنوں، شمال میں مہمند خیل وزیر، مغرب میں شمالی وزیرستان ایجنسی اور جنوب میں جانی خیل کے علاقے واقع ہے۔ بکاخیل کی تین بڑی شاخیں ہیں۔ تختی خیل، سردی خیل، نرمی خیل ان کی بڑی بڑی شاخیں ہیں۔ پھر ان کی کئی شاخیں ہیں جیسا کہ عثمان خیل اور خونی خیل تختی خیل کی شاخیں ہیں۔ پھر اسی طرح جونائی اور موریپ خیل عثمان خیل کی شاخیں ہیں۔ جلال خیل اور تتر خیل خونی خیل کی شاخیں ہیں۔تختی خیل ، نر می خیل اور سردی خیل کی ان گنت شاخیں ہیں۔چھوٹی چھوٹی شاخوں میں شوکی خیل، موسیٰ خیل، سنی خیل، شخا لائی، جنگی خیل،لالاخیل، گلی خیل، پکے خیل، خوجہ خیل، منگر خیل،سانے خیل، شوبہ خیل، لدی خیل، کالی خیل، سکندی خیل، کا کا خیل، مدی خیل، بزم خیل، غیبی خیل، والہ خیل، دریا خیل،شاخ پودین خیل، سور ، تور، ابراہیم خیل،منڈک خیل اور موئک خیل بکا خیل وزیر شامل ہیں۔
انگریز دور میں خان بہادر گابڑکائی اور خان بہادر اکبر جان بکاخیل وزیر کے اہم مشران اور سردار تھے۔اس کے علاوہ سرداری اور ملکی کے لحاظ سے وزیروں کا یہ خیل بہت مردم خیز رہا۔ ملک صورت خان، ملک غازی خان، سائر معتبر، پڑ ممبر، حکیم خان معتبر، غازی مر جان جونائی،ترامائی، ملک اسماعیل خان موریب خیل، ملک نواب خان، ملک اکبر علی خان، گل احمد خان ملک بکا خیل کے مختلف خیلوں کی اہم شخصیات میں شما ر ہوتے ہیں۔مذہبی لحاظ سے مولناٰ نور جنت گل عرف گوٹے دیوبندی،مولانازرکیم دین اور مولانا عبدالوہاب دیوبندی اہم شخصیات ہیں۔ادبی لحاظ سے علاقہ بکا خیل میں امان اللہ مائینل وزیر ایک اہم ادبی شخصیت گزرے ہیں ۔قلندر مومند جیسی ادبی شخصیت بھی آپ سے متاثر تھے ۔ قلندر صاحب نے اکثر غزلیات میں آپ کے اثر کو اپنایا ہے مائینل وزیر کا پشتو شعری مجموعہ للمی گلونہ شائع ہو چکا ہے لیکن مارکیٹ میں نایاب ہے۔ اس کے علاوہ معین اللہ خان، نواب رحمن شاعر اور مائینل وزیر کے فرزند شاہ محمد خان بھی شعر و شاعری کرتے اور ادبی محفلوں کو گرماتے رہے۔ موجودہ دور میں علاقہ بکا خیل میں گوہر وزیر اور پروفیسر ڈاکٹر محب وزیر ادبی گلستان کی حیثیت رکھتے ہیں۔دونوں نہایت قابل اور پشتو ادب کے اُستادوں میں شمار ہوتے ہیں۔کئی کتابوں کے خالق ہیں۔ گوہر وزیر مختلف ریڈیو اور ٹی وی چینلز کی نمائندگی بھی کرکے ادبی،ثقافتی اور سماجی خدمات کر رہے ہیں۔
سیاسی لحاظ سے موجودہ دور میں جمعیت علما ء اسلام ، قومی وطن پارٹی اورتحریک انصاف بکا خیل کی اہم سیاسی پارٹیاں ہیں۔ملک شاہ محمد خان وزیر،ٹرانسپورٹ منسٹر(تحریک انصاف پاکستان) اور ملک شیرین مالک سابقہ چیئر مین کنٹونمنٹ بورڈ بنوں(تحریک انصاف پاکستان) بکاخیل کی اہم سیاسی شخصیات میں شمار ہوتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علاقہ گریڑہ
لفظ گریڑہ گُریڑ سے نکلا ہے بنوسوالہ اور وزیروالہ لہجہ میں اس کے معنی ہے ٹیلے،کھنڈر اورایسی زمین جوکاشت کے قابل نہ ہو۔ کہتے ہیں کہ علاقہ گریڑہ کا سارا علاقہ ایسی اراضی پر مشتمل تھا جو کاشت کے قابل نہیں تھی اس لیے اس علاقے کا نام گریڑ سے گریڑہ پڑ گیا۔علاقہ گریڑہ کے حدود مشرق کی جانب علاقہ قمر کلہ کے سَنگارئی ندی سے شروع ہوکر مغرب کی طرف بکا خیل وزیر اور شمال کی جانب علاقہ ممش خیل تک پھیلا ہواہے۔واضح رہے کہ سنگاریئی ندی کے اِس پار یعنی مشرق کی جانب سیٹل علاقہ شروع ہوتا ہے جبکہ اُس پار مغرب کی جانب ایف ۔آر بنوںکا علاقہ ہے۔گویا یہ ندی ایک طرح کی سرحد ہے۔
گریڑہ کو سب سے پہلے ملک لُول خان وزیر نے آباد کیا تھا۔موصوف کا تعلق دریوبہ گمبتی کے احمد زئی وزیر کے قبیلے اسپرکہ(بھرت خیل) سے تھا۔انگریز دور میں یہ علاقہ غیر آباد اور بنجر تھا موصوف نے گمبتی سے ہجرت کر کے اس علاقے پر قبضہ کیااور باقاعدہ اس علاقے کا لگان حکومت وقت کو دیتا رہا۔موصوف نے اپنی محنت سے اس سارے علاقے کو قابل کاشت بنایا ۔انگریز دور میںملک لول خان وزیر اس علاقے کا سردار اور ملک تھا۔وقت کے ساتھ ساتھ گریڑہ کی آبادی بڑھتی رہی اور گریڑہ میں مختلف چھوٹی چھوٹی بستیاں آباد ہونا شروع ہوئی۔ان بستیوں میں گریڑہ کلاں، گریڑہ بابر،گریڑہ شاہ جہان،گریڑہ امام شاہ،گریڑہ کوٹکہ نیظم خان ۔ ان پانچ بستیوں میں گریڑہ کلاں سب سے بڑی بستی ہے۔
ملک مشرف خان ریٹائرڈ ڈائریکٹر ایجنسی سکولز،ملک گل دار خان مرحوم، میر اکبر خان مرحوم، ملک گل بت خان مرحوم، ثمر خان مرحوم، ملک شربت خان مرحوم، ملک غلا سرور مرحوم، ملک شیر نواز مرحوم اور ملک سلطان خان مرحوم گریڑہ کی اہم شخصیات گزری ہیں۔ان سب میں مہمان نوازی کی صفات موجود تھیں۔ان کی مہمان نوازی کے بارے میں مجھے میرے والد محترم نے خود بتا یا ہے۔علاقے کے دوسرے سفید ریش لوگ بھی ان لوگوں کی مہمان نوازی کے بارے میں باتیں کرتے ہیں۔ موجودہ دور میںمحمد عثمان ، جمشید خان،کرنل ریٹائرڈ ہمایون خان، دلنواز خان ریٹائرڈ پرنسپل، اختر علی خان ریٹائرڈسپرنٹنڈنٹ کسٹم پولیس،اشرف خان ریٹائرڈ کسٹم انسپکٹر گریڑہ کی اہم شخصیات میںشامل ہیں۔ادبی لحاظ سے رجب خان رجب اس علاقے کے استاد شاعر،ادیب اور تنقید نگار ہے۔موصوف تنقیدی ٹولنہ بنوں کے بانی ارکان میں ہے۔اصلاحی ادبی ٹولنہ بنوں اس علاقے کی اہم پشتو ادبی تنظیم ہے۔منیب راحل،اسد علی اسد،سید جما ل مخلص، فریزاد مجبور،ماسٹر عزیز خان اس ادبی تنظیم کے بانی ارکان ہیں۔واضح ہو کہ ان ادبی تنظیم میں گریڑہ کے وزیر کی نسبت بنوسیان اور ارمڑکے ارکان زیادہ ہیں۔سیاسی لحاظ سے جمعیت علما ء اسلام، پختونخوا میپ اس علاقے کی اہم سیاسی پارٹیاں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔