یہ ایک بہادر اور طاقتور خیل ہے۔ اس کے بارے میں مختلف محققین نے مختلف نظرئیے پیش کئے ہیں ۔ایڈورڈ کہتا ہے کہ
The Mughal Khel of Ghoriwala are the finest, and till show in speech and appearance their Yousaf Zai descent, but as arule all bannuchis (Banweeyan) look ,speech and act much like
ایک قیاس کے مطابق مغل خان غور افغانستان میں سردار کی حیثیت سے رہ رہے تھے جب میرزا اللہ بیگ افغانستان کے بادشاہ کے ساتھ یوسف زئی قبیلے کے تعلقات خراب ہوئے تو آپ نے غور سے بنوں ہجرت کی اور یہاں غوریوالہ بنوں میں آباد ہوئے یہاں آکر وہ یہاں کے علاقائی فوج کے سردار غیرت خان کے فوج میں بھرتی ہوئے مغل خان ایک بہادر اور نڈر سپہ سالار ثابت ہوئے اور جلد ہی غوریوالہ کے فوج کے سالار بن گئے۔ان کی اولاد میں محمد حسن خان،جعفر خان، قاسم خان اور پرہیز خان کافی مشہور ہوئے۔محمد حسن ایک جنگجو تھے جبکہ جعفر خان فن سرداری میں مہارت رکھتے تھے۔انگریزوں کے آنے کے بعد انگریزوں نے انہیں رائیسی دیدی۔انگریز دورمیں رئیس احمد خان یوسف زئی کافی مشہور وہوئے۔علاقہ غوریوالہ بنوں کے چار یونین کونسلوں غوریوالہ، کوٹ قلندر، شمشی خیل اور جعفر خیل پر مشتمل ہے۔
ایڈورڈ نے ٹھیک ہی کہا ہے یہ اصل اولاد شیتک نہیں ہیںبلکہ یوسف زئی کی ایک شاخ ہے۔ ملک مغل خان جس کی وجہ سے یہ قوم مشہور ہوئی قابل اور اہم فرد تھا۔ اگر چہ وہ بنوی نہیں تھا لیکن اپنی دانشمندی کی وجہ سے بہت مشہور ہوا تھا۔ اور اسی بنا پر سپین گوند کا سردار اور ملک بھی بنا تھا۔ مغل خان ایک طاقتور انسان تھا۔ ان کی وفات کے بعد ان کا بیٹا دراز خان ملک بنالیکن اس میں والد کی صفات موجود نہیں تھیں۔ جب فوت ہواتو ملک قاسم خان اس خیل کا ملک اور سردار بنا۔ مغل خان نے کئی شادیاں کی تھیں۔ اس لئے اس کے بیٹے زیادہ تھے۔اس کے بیٹوں کے درمیان غلط فہمیاں تھیں جن کی وجہ سے وہ ایک دوسرے پر شک کرتے تھے۔ اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف ِ عمل ہوتے تھے۔سینی خان جو اس خیل کا سب سے اہم اور بہادر انسان تھا اس وقت افغانستان چلا گیا۔ اور وہا ں افغانستان کے حاکمان کا مہمان رہا۔اس کے چلے جانے کے بعد ملک قاسم نے علاقے کے عوام کا جینا محال کردیا اور عوام پر ہر طرح کے ظلم کرتارہا۔ان کے مظالم سے تنگ آکرعلاقے کے کچھ لوگوں نے سینی خان کو افغانستا ن سے واپس بلایالیکن بازید خان آف مری کی سازش سے ملک سینی خان کو راستے میںہی قتل کر دیا گیا۔ اس کے بعد ملک جعفر خان پسر سینی خان نے بزور طاقت ملک قاسم خان سے ملکی اور سرداری چھین لی اور اپنے علاقے کا ملک بنا۔جعفر خان غالباً۱۸۵۸ء میں فوت ہوا ان کی وفات کے بعد اس کا بیٹا سردار بنا۔
مغل خیل اگر چہ اصل بنویان نہیں ہیں لیکن ماحو ل کی وجہ سے اس قوم نے بنویان کے عادات و اطورا اپنائے ہیں۔اس خیل کے لوگ خوش گفتار اور خوش اخلاق ہونے کے ساتھ ساتھ تعلیم یافتہ بھی ہیں۔ ماسٹر عزیز خان اور ان کے بھائی مجید خان دونوں کی مہمان نوازی مشہور ہے۔ حاجی نظیف خان سابقہ MPA اسی علاقے کا باسی ہے۔ماضی میں ملک سینی خان، ملک جعفر خان، ملک یعقوب خان ملک ایوب خان مغل خیل، اور چیئر میں ملک قدوس خان،ملک قاسم خان اور ملک سردار خان اس خیل کی اہم شخصیات گزری ہیں ۔اس کے علاوہ مولنا سید نصیب علی شاہ (سابقہ ایم این اے)جو اس خیل کا تو نہیں ہے لیکن اس علاقے کا باسی ہے بھی کافی مشہور ہوئے ۔ جبکہ اس کے فرزند مولاناسیدنسیم علی شاہ (ممبراسلامی نظریاتی کونسل)نے ابھی ابھی سیاست کے میدان میں قدم رکھ دیاہے موصوف ایک باکردار اور عالم وفاضل شخصیت ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علاقہ غوریوالہ کی مجموعی صورت حال
یہ ایک زرخیز اور مرد م خیز علاقہ ہے۔ یہاں کے لوگ زیادہ تر کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ تعلیم کی وجہ سے یہ علاقہ اب ترقی کی جانب گامزن ہے یہاں کے ۷۰ فیصد لوگ سرکاری ملازمین ہیں۔ اور اپنے ملک و قوم کی خدمت کر رہے ہیں۔یہاں پر ایک ایلیمنٹری کالج اور ایک ڈگری کالج ہے جبکہ دو ہائر سکینڈری گرلزسکولز بھی ہیں۔ جن سے اس علاقے کے علاوہ آس پاس کے علاقوں کے لوگ بھی زیور علم سے آراستہ ہو رہے ہیں۔مہمان نوازی اور خاطر مدارت ان لوگوں کو وراثت میں ملی ہے۔ کھیلوں میں کرکٹ،والی بال اور کبڈی یہاں کے اہم کھیل ہیں۔ اس کے علاوہ یہ علاقہ دینی لحاظ سے بھی بہت اہم ہے دینی علوم کا مرکز ہے۔مولاناسیدنصیب علی شاہؒکاقائم کردہ المرکز اسلامی پاکستان کے نام سے یہاں ایک بہت بڑا دینی درسگاہ ہے جس میں بنوں کے علاوہ دوسرے ضلعوں کے لوگ بھی اپنے بچوں کو داخل کراتے ہیں سالانہ سینکڑوں علما ء کرام اور حفاظ کرام اس سے فارغ التحصیل ہوکر دین کی خدمت کررہے ہیںعلاقہ غوریوالہ میں سید خاندان (جو علاقہ ترخیوالہ میں آباد ہے)بہت زیادہ مشہور ہے جس میں اکثر افرادحفاظ کرام ہیں۔اور لوگ عقیدت کے طور پر ان سے دم وغیرہ کرواتے ہیں۔ ان سب دم کرنے والو ں میں سید گل استاد اور نور بشر علی شاہ قابل ذکر ہیں۔
ادبی لحاظ سے یہ علاقہ کسی سے پیچھے نہیں ہے رحمان ادبی جرگہ اور میراخیل ادبی جرگہ کے علاوہ ۱۹۷۰ میں یہاں پر کاروان ادبی ٹولنہ غوریوالہ کے نام سے بھی ایک ادبی تنظیم تھی جو ادب کی ترویج کیلئے کام کررہی تھی۔لیکن اب یہ ادبی تنظیم تو ختم ہے البتہ رحمان ادبی جرگہ اور میراخیل ادبی جرگہ ابھی بھی قائم ہیں اور ادبی خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔جناب اسلام الدین دلگیر صاحب(ریٹائرڈ پرنسپل) اسی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ جس کی کئی تصنیفات ہیں۔ایک بلند پایہ شاعر اور ادیب ہیں۔ یہاں کے جدید شعراء میں شیراز ساغر، ،حسن داد محسن، سیف اللہ آتش اور وارث خان وارث،اسیر غوریوال قابل ذکر ہیں۔پیر غلام شاعر جو ایک میدانی شاعر اور گلوکار تھا اسی علاقے کا باسی تھا۔یہ علاقہ بڑا مرد م خیز ہے۔ ماضی کی طرح آ ج بھی اس علاقے میں اہم شخصیات موجود ہیں جن میںملک عبدالعزیز خان ،ملک عبدالمجید خان،حاجی سیف اللہ خان، حاجی عطااللہ خان ریٹائرڈ ACOضلع بنوں،حاجی سعداللہ خان ریٹائرڈ اسسٹنٹ ڈائریکٹر پشاور ائر پورٹ ،حاجی فریداللہ خان ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن افیسر، ملک عمر خیام خان ناظم اعلیٰ غوریوالہ ٹو، ملک عمران خان ناظم غوریوالہ ون، ملک عبیداللہ خان، حاجی زرین خان اور ملک شاد محمدخان اہم شخصیات ہیں۔ ان میںیہ صفت بھی پائی جاتی ہیں کہ ان میں سے بعض ادب دوست بھی ہیں۔
خوجڑی یا خوزاڑی
خوجڑی جسے خوزاڑی بھی کہتے ہیں اصل اولاد شیتک ہیں۔ خوجڑی قوم بنوںکی ایک اہم اور باعزت قوم ہے۔ ان کی اولاد میں اہم اولاد کلی خان ہے۔ کلی خان کی تین بیویاں تھیں کلی خان نے اپنی حیات میں اپنے وارثان کو جائیداد تقسیم کرائی آپ کی اولاد میں بابر زیادہ مشہور تھا یہ شخص بہت دلیر اور بہادر تھا۔ اس نے اپنی اراضی اپنے لئے علیحدہ کر کے اس پر ایک علیحدہ گاؤں تعمیر کیا جسے آجکل خوجڑی بابر کا نام دیاگیا ہے۔ اولاد نوراز خان اولاد ضیاء نے بھی علیحدہ علیحدہ بستیاں تعمیر کرائیں۔
خوجڑی میں کئی قومیں آباد ہیں۔ لیکن بنیادی طور پر یہاں پر خوجڑی قوم ہی ہے۔ دوسرے علاقوں سے آئے ہوئے لوگ یہاں پر اقلیت میں ہیںیہاں کے لوگ عام طور پر جنگجو اور بہادر ہیں۔ شہر سے دوری کی وجہ سے یہاں تعلیم کی کمی ہے شائد اس وجہ سے یہاں پر لڑائیاں ہوتی رہتی ہیں بات بات پر یہ لوگ اپنوں میں ہی ایک دوسرے کو قتل کر تے ہیں۔یہ لوگ مہمانوں کی عزت اپنے اوپر فرض نماز کی طرح سمجھتے ہیں۔دراصل بنوں کی تمام اقوام اور قبیلے مہمان نواز اور جنگجو ہیں یہ دو چیزیں ان کو وراثت میں ملی ہیں۔
علاقہ خوجڑی زیادہ تر خشک علاقہ ہے۔ماضی میں یہ خیل بڑا مردم خیز رہا لیکن اب اس خیل میں بھی قحط الرجال آیا ہے۔لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے اس خیل کے بہت سے لوگوں نے بچوں کی تعلیم و تربیت کیلئے بنوں شہر یا کسی اور شہر کا رُخ کیا ہے اور اپنے علاقے سے باہر نکل چکے ہیں۔ سیاسی لحاظ سے بنوں کا یہ علاقہ زیادہ اہم ہے ۔یہاں کے اہم کھیل کرکٹ، ولی بال اور فٹ بال ہے۔ ادبی لحاظ سے اس علاقے میں کوئی ادبی تنظیم نہیںہے لیکن جناب ممتاز علی خان ممتاز (ریٹائرڈ پرنسپل) اس علاقے کا اہم ادبی فر دہے جو اپنے اند ر ایک مکمل ادبی گلستان کی اہمیت رکھتا ہے۔پشتو ادب میں طنز و مزاح کے بادشاہ کاخطاب پانے والے اس بزرگ کے کلام میں بلا کی تاثیر پائی جاتی ہے۔ ان کے سنجیدہ کلام میںبھی ایک منفرد معیار ہے جس نے اسے اپنے ہم عصروں میں بھی ایک منفرد مقام بخش دیا ہے موصوف آج کل پشاور میں مقیم ہیں۔آپ کا کلام مختلف کتابوں اور رسائل میں شائع ہوتا رہتا ہے۔ایک پشتو طنز و مزاح کا شاہکار ، رازئی چے اوخاندو پہ چغو چغو (آو کہ ہنس ہنس کے چیخیں) نے پشتو ادب میں کافی پذیرائی سمیٹی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔