بنوں گزیٹئر میںلکھا ہے The founder of this family was Ahmad Khan an Issuki
اس شخص احمد خان نے سوکڑی اور ہنجل سے کافی زمین قبضہ کی اور ان پر ایک گاؤں تعمیر کیا۔ احمدخان ۱۷۴۰ء میں فوت ہوئے۔ شاہ بزرگ ان کا پوتا تھاجس نے خود اپنوں کو قتل کرکے اپنے علاقے اور اپنے خیل کا ملک بنا۔ سکھاشاہی میں اس کا پوتا دکس خان بھی اسی طریقے سے ملک بنے سکھوں کی دوسری لڑائی میں اس کے بھائی دراب خان نے غیر معمولی کارنامہ سر انجام دیا جس کی بدولت کچھ وقت کیلئے وہ اس علاقے کے سردار بنے۔
یہ خیل ایک پرانا خیل ہے۔ اس خیل میں بھی کافی قتل و مقاتلے ہو چکے ہیں۔بنوں گزیٹئر میں درج ہے کہ:
There were only four Families leading in Bannu. Thirty years ago the leading Bannuchis were Lal Baz Khan of Bazar Ahmad Khan, Malik Bozid Khan of Surrani, Malik Sher Mati (Malik Sher Mast Khan of Jhandu Khel and Jafar Khan of Ghoriwala. (Bannu Gazetteer, 1887) .شاہ بزرگ ،دراب خان اور دکس خان دراصل میں ایک ہی خیل اور ایک ہی با پ کی اولاد ہیںشاہ بزرگ اور دکس خان اس خیل میں اہم شخصیات گزرے ہیں ۔ان کے دور میں یہ خیل بڑا مردم خیز اورترقی یافتہ رہا۔ یہ دو پیدائشی جرنیل تھے۔بہت ہی بہادر اور نڈر انسان تھے۔انہوں نے بنویان میں جو اتفاق و اتحاد پیدا کیا تھا ان کی مثال بنوں کی تاریخ میں بہت کم ملتی ہے۔دونوں غیر معمولی صلاحیت کے حامل لیڈر گزرے ہیں۔شاہ بزرگ نے بھی اپنے چچا وں کو قتل کرکے خود علاقے کے ملک بنے تھے حالات کو بھانپنے کا ماہر شخص تھا۔ان کی وفات کے بعد اس کا بیٹا شرافت خان اپنے علاقے کا ملک بنا لیکن ان میں اپنے والد کی صفات موجود نہیں تھیں اور کچھ گھریلو نا اتفاقی تھی جس کی وجہ سے وہ ناکام رہے۔ شاہ بزرگ بابا کے دو اور بیٹے بھی تھے ایک کا نام ران مست خان اور دوسرے کے نام سرمست خان تھا ۔شاہ بزرگ خاندان میں ملک لعل باز خان بھی ایک قابل اور اہم شخص گزر ا ہے۔خاندانی صفات ،عادات و اطورا ملک لعل باز خان میں بدرجہ اتم موجود تھیں۔
خاندان شاہ بزرگ خیل اب کئی خیلوں میں بٹ چکے ہیں۔ اولاد لال بازخا ن کو لا لبازخیل ،دراب خان کی اولاد کو دراب خیل اور دکس خان کے اولاد کو دکس خیل کہا جاتا ہے۔ ان میں لا لباز خیل میں ملک تاج علی خان،ملک جانباز خان اہم شخصیات گزری ہیں۔دکس خیل شاخ میںسالار یعقوب اور اسلم خان اہم افراد تھے۔جبکہ دراب خیل شاخ میں ملک سرفرازخان اور منور خان ایڈووکیٹ اورملک بدیع الزمان اور ملک دمساز خان اہم شخصیات تھیں۔ دکس خیل شاخ کا ملک اصغر علی خان،ملک غوث علی خان،ملک نعیم خان اور ملک آفتاب خان ریٹائرڈ پرنسپل بھی اس علاقے کی اہم شخصیات میں شامل ہیں۔ ملک اصغر علی خان اور ملک غوث علی خان فوت ہوچکے ہیں۔دراب خیل شاخ میں ملک نعمت علی خان اور ملک حشمت علی خان موجودہ دور میں اہم افراد ہیں۔ملک اقبال خان بھی اس شاخ کا اہم فرد ہے اب ان کے فرزند ملک مصطفی سیاست میں داخل ہوچکے ہیں۔ دراصل شاہ بزرگ کے جتنے بھی خیل ہیں سب میں کہیں نہ کہیں اہم اور سرکردہ شخصیات گزر ی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اخوندزادہ خاندان
بنوں کااخوندزادہ خاندان جوکہ اخوندان منڈان، فیض طلب عباس منڈان،کوٹکہ حبیبان زیریں وبالاممش خیل ،خدی کلہ مش خیل اورحیدرخیل میرعلی میں آبادہے۔اس کے جد امجد غیرت باباجوکہ ایک خدارسیدہ بزرگ گزرے ہیں افغانستان سے وزیرقوم (وولی)کی دعوت پر شوال وزیرستان آئے۔یہاں کے لوگوں نے آپ کی بیعت کی اورآپ کوزمینوں کی آمدن اورپانی میں حصہ داربنایااس طرح ممش خیل میں آپ کے مریدوں نے آپ کیلئے گھربنایا۔آپ سوکڑی کے انبارقبرستان میں مدفون ہیں۔جہاں آپ کے عقیدت مندآپ کے مزارکی زیارت کیلئے جوق درجوق آتے رہتے ہیں۔اخوندغیرت باباکے دوبیٹے تھے ۔ محموداخوندزادہ علاقہ منڈان کے مذہبی پیشوارہے جبکہ دوسرے بیٹے میراحمدشاہ اخوندزادہ علاقہ ممش خیل میں رہ گئے۔آپ کاقلمی نسخہ ’’دیوان مجیب ‘‘کے نام سے پشتواکیڈمی میں محفوظ ہے۔نعیم اخوندزادہ کے نام سے ایک صاحب کمال بزرگ بھی اس خاندان میں گزرے ہیں علاقہ نورڑمیں آپ کامزارآج بھی مرجع خلائق ہے زمانۂ قریب میں ایک جیدعالم دین ملافاروق اخوندزادہ کے نام سے اس خاندان کانام روشن کرچکاہے۔دارلعلوم دیوبندسے فارغ التحصیل ملاغلام حیدر اخوندزادہ بھی اپنے وقت کے جیدعالم دین اورخطیب تھے۔ ماسٹرامیرحمزہ اخوندزادہ بنوں میں خدائی خدمت گارتحریک کے سرگرم رکن تھے۔انگریزوں کی مخالفت کے سلسلے میں آپ کوقیدوبندکی صعوبتوںکا سامناکرنا پڑا۔ پشتو شعر وادب کے ایک معتبراورمعروف نام غازی سیال (2019-1933) بھی اسی خاندان کاایک درخشاں ستارہ تھے ۔آپ کی پوری زندگی ادب اورادبی سرگرمیوں کیلئے وقف تھی۔ آپ کی سولہ کتابیں چھپ چکی ہیں اورچھ اشاعت کے انتظارمیں ہیں۔آپ کی کچھ کتابیں مختلف یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل ہیں ادبی دنیانے آپ کوبابائے سندرہ یعنی بابائے گیت کاخطاب دیا ہے ۔ 2006ء میں آپ کوپاکستان کاسب سے بڑاصدارتی ادبی ایوارڈ (پرائڈآف پرفارمنس) سے نوازاگیا۔ ماسٹرجمال مرحوم بھی اخوندزادہ خاندان کی چشم وچراغ تھے جن کی پوری زندگی شعرو ادب کے گردگھومتی رہی۔بنوں کے شاعروادیب آپ کواپناگرواورمرشد مانتے تھے۔بلندپایہ اخلاق،مہمان نوازی اورپختون ولی کاجیتاجاگتانمونہ تھے۔ جماعت اسلامی بنوں کے جنرل سیکرٹری کے طورپربھی کچھ عرصہ کام کرتے رہے۔اس خانوادے کے لوگ شعبۂ تعلیم سے بھی زیادہ وابستہ ہیںجن میں سے نمایاںحسن علی شاہ مرحوم، لطیف زمان اورماسٹرعبدالعزیزجیسے اساتذہ اور ماہرین تعلیم شامل ہیں۔موجودہ دورمیں اس خاندان کے لوگ کاروبارپیشہ اورملازمت پیشہ ہیں۔ نوجوان نسل میں جلال شاہ اخوندزادہ ایڈووکیٹ سیاسی وسماجی طورپربہت متحرک ہیں جماعت اسلامی کی الخدمت فاونڈیشن ضلع بنوں کے صدربھی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علاقہ بازار احمد خان کی مجموعی صورت حال
تاریخی اعتبار سے اس علاقے کو آکرہ کی طرح اہم حیثیت حاصل ہے بنوں کا دوسرا با زار یہاں ہوا کرتا تھاجب کے پہلا بازار آکرہ میں ہوا کرتا تھا۔ معمولی قسم کے لڑائی جھگڑے یہاں پر حل ہوتے تھے کیونکہ یہاں پر مقامی عدالت تھی۔برصغیر پاک و ہند کی تقسیم سے پہلے یہ علاقہ بہت اہمیت کا حامل تھا۔یہاں پر ہندوکی عبادات کیلئے مندر تعمیر تھا۔جس کے اثرات اب بھی بازاراحمد خان میں موجود ہیں ۔یہاں پر ہندو جوگی اور پنڈت دوسرے علاقوں کی نسبت زیادہ آباد تھے۔یہ علاقہ تحریک پاکستا ن کے حوالے سے بھی اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ سالار یعقوب خان اسی علاقے کا باسی تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک دمسازخان جو پاکستان مسلم لیگ کا ضلعی صدر تھا بھی اسی علاقے کا باشندہ تھا۔
بازاراحمد خان میں آج بھی وہ عمارت موجود ہے جہاں پر قائد اعظم آئے تھے اور بنویان نے اس کا شاندار استقبال کیا تھا۔ یہ علاقہ ادب کے اور فن کے لحاظ سے اتنا زیادہ زرخیز نہیں ہے لیکن ادب کے حوالے سے اس علاقے کی ساری کمی ہمارے دوست روئیدادعلی روئیداد اور محترم جمشید علی خان جمشید نے پوری کی ہے اور ابھی تک پوری کر رہاہے۔ جمشید علی خان جمشید شاہ بزرگ خیل کے دکس خیل شاخ سے تعلق رکھتے ہیں۔ بہت ہی ہنس مکھ اور ادب ذوق دوست ہیں۔۱۹۸۴ء میں اس نے اپنا پہلا پشتو شعری مجموعہ ژوند او سلگئی(زندگی اور فریاد) کے نام سے شائع کرکے ـخوب داد وصول کی۔ اس کی مقبولیت دیکھ کر موصوف نے اپنا دوسرا شعری مجموعہ مزل پہ ء اَزغو(کانٹوں پہ سفر) ۱۹۹۴ ء میں شائع کیا پشتو ادب کے شائقین نے اس مجموعہ کلام کو پہلے سے زیادہ پزیرائی دی۔ اور موصوف کو اتنا زیادہ حوصلہ ملاکہ ۲۰۰۰ ء میں آپ نے اپنا تیسرا پشتو شعری مجموعہ کلام رسمونہ ، زنجیرونہ(رسمیں اور زنجیریں)،پل صراط کے نام سے ایک اورشعری مجموعہ زیورطباعت سے آراستہ کیا۔موصوف ایک اورمجموعہ کلام مسافرے سلگئی (مسافرہچکیاں)کے نام سے شائع کرنے کاارادہ رکھتے ہیں۔ اللہ موصوف کو ادب کی ترقی کی توفیق دے۔ میرے خیال میں جمشید علی جمشید نے تن تنہا بہت زیاد ہ کام کیا ہے اور ادب کے حوالے سے بازار احمد خان کا نام روشن کیا ہے۔آپ کرم ادبی جرگہ بنوں کے سرپرست اعلیٰ بھی ہیں۔
علاقہ بازار احمدخان گڑھی شیر احمد سے شروع ہوکر علاقہ گنڈلی تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ خیل ایک بڑا خیل ہے۔یہاں کے لوگ عام طور پر مہمان نواز اور قدر دان ہیں۔کبڈی ،ولی بال اور کرکٹ یہاں کے اہم کھیل ہیں۔ یہاں کی اہم کھیل کی گراونڈ کو ترنگئی کہتے ہیں جس میں عصر کے وقت نوجوان اپنی تھکاوٹ دور کرنے کیلئے کھیل کود میں مصروف رہتے ہیں۔یہاں پر مشہور ولی اور بزرگ اخوند شیر محمد بنوی کی قبر مبارک بھی ہے۔ یہ ایک اعلیٰ پایہ کا ولی اور بزرگ آدمی گزرے ہیں۔اخوند شیر محمد بنوی صاحب اور جمال الدین افغانی بھی اسی علاقے کے باسی تھے اور دونوں پشتو زبان کے بہترین شاعر تھے ۔حوالے کیلئے عبدالحلیم اثر ؔکی کتاب روحانی تڑون دیکھی جا سکتی ہے۔سیاسی لحاظ سے یہ عوامی نیشنل پارٹی کی گڑھ سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس علاقے میں اس پارٹی کے بہت سے سرگرم ارکان موجود ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قوم آمندی
قوم آمندی اور علاقہ آمندی ایک وسیع علاقہ ہے یہاں کے لوگ مہمان نواز، نر م دل اور تعلیم یافتہ ہیں ان لوگوں کا مورث اعلیٰ پہاڑوں سے اتر کر اس علاقے میں آباد ہوا تھا۔ یہ اصل میں سوران کی اولاد میںسے ہیں۔ان لوگوں کے ماضی کے حالات محکمہ مال میں درج نہیں ہیں ۔ کیونکہ یہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ ہم کو اپنا سلسلہ نسب اچھی طرح یاد نہیں ۔بہر حال یہ ایک بڑی قوم ہے۔ اور ان کا مورث اعلیٰ صاحب کرامت، نیک اور پرہیزگار انسان تھے۔ آمندی میں زیادہ تر بنگش آباد ہیںلیکن پشتون ،اعوان، سید ،قریش اور دوسری اقوام کے لوگ بھی یہاں پر آباد ہیں۔
کثرت ِ آبادی کی وجہ سے آمندی قوم مختلف دیہاتوںمیں بٹ گئی۔ گل حسن آمندی، قمر دین آمندی، شاہ جہان شاہ آمندی،حنیف آمندی اور عمر خان آمندی ان کے بستیوں کے نام ہیں۔اسی طرح پوری آمندی قوم اس علاقے میں پھیل گئی۔آمندی بنوں کی اہم قوم ہے اس خیل میںماضی میں قحط الرجال تھا۔ ان میں سے دلاسہ خان داؤد شاہ کی کچھ اولاد بھی رہائش پذیر ہیں۔
موجودہ دورمیں حاجی سلیم خان بنگش، حاجی ملک عصمت اللہ خان، ڈاکٹر عزیز اللہ خان،نمبی خان اور حاجی دل نیاز خان اس خیل کی اہم شخصیات ہیں۔ اس کے علاوہ موجودہ دور میں اور بھی شخصیات بھی ہیں۔سیاسی لحاظ سے یہ علاقہ ایک اہم علاقہ ہے۔ دوران انتخابات یہاں کافی گہماگہمی دکھائی دیتی ہے۔چونکہ یہاں کی اکثریتی آبادی تعلیم یافتہ ہے اس لئے یہاں پر لڑائی جھگڑے بنوں کی دیگر قوموں کی نسبت کم ہیں۔ لیکن بنوں کے ماحول کی وجہ سے کہیں کہیں پر لڑائیا ںوغیرہ اس علاقے میں بھی ہوتی ہیں۔
ادبی لحاظ سے یہ علاقہ کافی پسماندہ رہا ہمارے ایک دوست یوسف حیران اس علاقے کا ایک ایسا تابندہ ستارا ہے جو اکیلا اس اُفق پر چمکتا ہے۔ یوسف حیران نے پشتو ادب کے حوالے سے کافی کام کیا ہے اور ابھی بھی کر رہا ہے۔ موصوف ایک درویش صٖفت انسان ہیں۔اس علاقے میں کوئی ادبی تنظیم بھی نہیں ہے۔د مینے ملغلرے(محبت کے موتی)، تندہ ( پیاس) اورتاؤ (تپش) موصوف کے تین پشتو شعری مجموعے ہیں۔میرے خیال میں موصوف نے بھی جمشید علی جمشید کی طرح اکیلے ادب کیلئے بہت کام کیا ہے اور ادبی لحاظ سے اس علاقے کانام روشن کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ ماضی میں اختر امندیؔ اور مد علی ممبر بھی امندے کے اہم شعراء گزرے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھرت
علاقہ بھرت میں بھرت قوم آباد ہے۔ یہ علاقہ ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ یہ آکرہ کے قریب واقع ہے۔ آکرہ کا شہر بہت قدیم اور پرانا شہر ہے اس شہر میں سکندر اعظم کے زمانے کے بہت سے اثرات بھی ملے ہیں۔تمام مسلم فاتحین سلطان محمود غزنوی،امیر تیمور وغیرہ بھی اسی شہر سے گزرے ہیں۔یہ شہر تاریخی اہمیت کا حامل شہر ہے۔ اگر چہ آکرہ سرکار کی پراپرٹی ہے لیکن اس کے ساتھ علاقہ بھرت پر بھرت قوم آباد ہے۔یہاں کے لوگ ضلع بنوں کے دوسرے قبائل کی طرح بہادر اور جنگجو ہیں۔جغرافیائی لحاظ سے یہ ایک خوبصورت علاقہ ہے۔دور دور تک سر سبز فصلیں ہی دکھائی دیتی ہیں۔یہاں پر زمینوں کو سیراب کرنے کیلئے بہترین نہری نظام موجود ہے۔
علاقہ بھرت میں بھرت آبادی کلاں،ناصر خان کلہ، کوٹکہ ممبر زمان، کوٹکہ طور کمند، کوٹکہ رضا خان، کوٹکہ حکیم خان، کوٹکہ شاہ مری وغیرہ اس کے چھوٹے چھوٹے گاؤں ہیں۔کھیل ، ادب اور سیاسی لحاظ سے یہ علاقہ کافی حد تک پیچھے ہے۔تاریخی اعتبار سے اس کا ایک خاص مقام ہے۔ یہ علاقہ آجکل قحط الرجا ل کا شکار ہے۔ماضی میں اس قوم میں بہت اہم شخصیات گزری ہیں۔مہمان نوازی ان لوگوں کا اہم شیوہ ہے۔تقسیم ہند سے پہلے اس علاقے میں کافی ہندو گھرانے آباد تھے ہندوستان کا نام بھی بھارت ہے چونکہ اس علاقے میں ہندوآباد تھے اور ابھی بھی کچھ ہندو گھرانے آباد ہیں اسی بنا پر اس کو بھرت کہتے ہیں۔
کچھ ہندو گھرانوں نے کئی سال پہلے اپنوں کے ساتھ رہنے کیلئے ہندوستان ہجرت کی اور وہاں پر مقیم ہوگئے۔یہاں کے لوگ عام طور پر امن پسند اور تعلیم یافتہ ہیں۔یہاں پر لڑائیاں زیاہ نہیں ہوتیں۔کرکٹ یہاں کااہم کھیل ہے۔یہاںپر پشتون کے علاوہ اعوان، قریش اور سید کی قومیں آبادہیںلیکن زیادہ تر سید اور قریش ہیں ۔یہاں پر روحانی طریقے سے یرقان کا علاج بھی کیا جاتا ہے۔ایک وسیع و عریض ر قبے پر مشتمل یہ علاقے تحصیل ککی ضلع بنوں کے ساتھ ہی ہے۔ اس کے ایک جانب آکرہ کے کھنڈرات ہیں جبکہ دوسری طرف علاقہ بڈا میرعباس ہے۔اوراس کے جنوب کی طرف علاقہ ککی واقع ہے۔
شہر سے دوری کی بنا پر ماضی میں یہاں پر سہولیات کا فقدان تھا۔لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہاں پر ابتدائی سہولیات معرض ِوجود میں آتی گئیں اور موجودہ دور میں یہاں کے لوگوں کو ابتدائی سہولیات میسر ہیں۔یہاں کے لوگ بنوں کے دوسرے لوگوں کی طرح مہمان نواز اور بہادر ہیں۔ جسمانی لحاظ سے قدآور ، صحت مند اور تندرست ہیں۔سادہ زندگی گزارتے ہیں زیادہ تر لوگ سرکاری ملازمین ہیں کچھ لوگ کھیتی باڑی کا کام کرتے ہیں اور اپنے کھیتوں میں محنت ومشقت کرکے روزی کماتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔