اس علاقے کی سب سے بڑی اور طاقتور قوم عَبیدخیل ہے۔ اور ابھی بھی ان کی نگرانی میں سب کچھ ہوتا ہے اگر چہ پیران اور قریش بھی ہیں لیکن ان کی تعداد کم ہے اوریہ علاقہ پشتوں سے عبید خیل قوم کا ہے۔اس علاقے میں خٹک بھی آباد ہیں وہ بھی یہاں پر ہمسایہ ہیں ان کو کچھ اراضی اسی قوم نے عطیہ کے طور پر دی تھی اب کچھ اراضی خٹک نے خریدی بھی ہے۔خٹک اب بھی عبیدخیل قوم کے پانی سے اپنی زمینیں سیراب کرتی ہیںاور قوم عبیدخیل بطور ِ ثواب اسے پانی دیتی ہے۔ کیونکہ پانی سکھا شاہی سے ہی صرف اور صرف قوم عبیدخیل کا ہے۔اس علاقے میں پیران اور قریش بھی دو بڑی قومیں ہیں ان میں امیر حمزہ خان قابل قدر شخص گزرے ہیں۔
علاقہ جھنڈوخیل ایک سر سبز اور شاداب علاقہ ہے۔دریائے کرم اور کھجور کے درختوں اور باغات نے اس کے حسن میں اضافہ کیا ہے۔ دور دور تک کھلی فضا اور فصلیں ہی فصلیں ہیں۔ سیاسی لحاظ سے بھی یہ علاقہ اہم رہا ہے۔یہاں پر عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علماء اسلام ،اور پیپلز پارٹی مضبوط سیاسی پارٹیاں ہیں۔یہاں کے لوگ کبڈی،ولی بال،نشانہ بازی اور کرکٹ شوق سے کھیلتے ہیں۔شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں پہلے یہ لوگ دریائے کرم میں نشانہ بازی کرتے تھے۔ ادب کے لحاظ سے بھی یہ علاقہ کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ اردو اَدب میں تو اس علاقے نے ایسے ایسے سپوت پیدا کئے ہیں جن کو کبھی فراموش نہیںکیا جا سکتا۔ پشتو زبان میںبھی یہاں کے لوگ شعر و شاعری کرتے رہتے ہیں۔ ۲۰۱۱ میں ناچیز (عاقل عبیدخیلوی)نے عبیدخیل ادبی جرگہ کے نام سے ایک ادبی تنظیم بنائی تھی۔لیکن خاندانی دشمنی کی وجہ سے راقم اپنے علاقے سے آیا تو وہ ادبی تنظیم بھی ختم ہو گئی۔
اُردو کے عظیم شاعرمقبول حسین عامر (مرحوم) جن کی غزلیں پشاور یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی بنوں کے ایم۔اے کے نصاب میں شامل ہیں اسی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ دئیے کی آنکھ ان کا شعری مجموعہ ہے۔ جس کو پورے ملک میں بہت سراہا گیا مرحوم کی غزلوں میں پروین شاکر اور احمد فراز کی غزلوں سے زیادہ مٹھاس ہے۔مرحوم کے فن اور شخصیت پر مختلف یونیویورسٹیوں سے مختلف طالبعلموں نے ایم۔فل اور پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں ہیں۔موجودہ دور میں اردو کے شعراء کرام و ادباء کرام انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ ان میں ایک نام ناچیز(عاقل عبیدخیلوی) کا بھی ہے۔تقریباً ۸ اردو اور پشتو کتابیں سنگار د غزل، سڑیکے او لفظونہ پشتو شعری مجموعہ، ایوارڈیافتہ،سپوگمئی تذکرہ رنڑا د سپوگمئی تذکرہ، گلشن فسانہ اردو افسانوی تذکرہ، تم کبھی تنہا نہیں دوسرا اردو شعری مجموعہ ،تاریخ بنوں جلد اول و دوم ،تاریخ بنوں جلد سوئم ساتھ ناچیز نے شائع کی ہیں جبکہ جنوری ۲۰۱۶ ء میں اپنا پہلا اردو شعری مجموعہ ’’شہر ِ ویراں‘‘ کے نام سے شائع کرکے ضلع بنوں کے سب سے کم عمر اور تیسرے اُردوکے صاحبِ کتاب ہونے کا شرف ناچیز کو حاصل ہوا۔ ناچیز کو اس اردو شعری مجموعہ کلام پر الحمراء آرٹ کونسل پنجاب کی طرف سے ادبی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے۔موجودہ دور میں ضلع بنوں میں اردو ادب کے فروغ کیلئے کوئی ادبی تنظیم نہیں ہے سوائے انجمن ِ اردو بنوں کے ! اور یہ تنظیم بھی ناچیز نے بنائی ہے جو ادب کے فروغ کیلئے اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔اس کے علاوہ سڑیکے او لفظونہ پشتو شعری مجموعہ،تم کبھی تنہا نہیں اردو شعری مجموعہ،گلشن فسانہ اردو افسانوی تذکرہ اور تاریخ بنوں تینوں جلدیں ایک ساتھ بھی راقم الحروف کی تصنیفات و تخلیقات ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔