یہ ایک وسیع اور زرخیز علاقہ ہے ۔جس میں کئی خیل اور قوموں کے لوگ رہائش پذیر ہیں۔ظالم منڈان،بنگش خیل،شکراللہ حسین،صابو خیل منڈان اور میر عالم منڈان بھی یہاں کے بڑے بڑے قصبے ہیں۔
علاقہ منڈان ترنگ قبرستان جو بنوں کا مشہور قبر ستان ہے،سے شروع ہوکر جنوب مشرق میں علاقہ اسمیٰعل خیل اور ککی تک پھیلا ہواہے۔ یہاں کے بعض گاؤں میں باغات بھی پائے جاتے ہیں خاص کار ظالم کلہ امرود کے باغات کیلئے کافی مشہور ہے۔سیاسی اعتبار سے بھی علاقہ منڈان کسی سے پیچھے نہیں ہے۔دوران ِ انتخابات یہاں سخت مقابلہ ہوتاہے۔ ملک خلیفہ (کفشی خیل) ملک نیکوبار خان(مرحوم)، فیض طلب عباس منڈان،قدآیاز خان بنگش خیل، ملک نیئتل خان خواجہ مد، ڈاکٹر ظفر حیات خان عنایت میتاخیل، مولانا عبد الرزاق مجددی(مرحوم)، ملک میر شاہد خان مائک خیل، ملک سوداد خان، ملک سردار خان سکندری جبکہ نوجوانوں میں اقبال جدون ،ملک خوشدل خان سکندری، اور ملک احسان اللہ خان وغیرہ قابل ذکر شخصیات ہیں۔حاجی گل داؤد خان(اکاونٹس آفیسر) حاجی زاہد اللہ خان (پرنسپل) پسران حاجی سحر گل میانخیل بھی اسی علاقے کے باسی تھے۔ملک خانک ، ملک نقیب اللہ خان(مرحوم) اور ملک ریاض خان (سابقہ ایم پی اے) کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے۔
ادبی لحاظ سے یہ علاقہ کافی زرخیز رہا۔ صدارتی ایوارڈیافتہ شاعر،ادیب اور نقادغازی سیال ، تنقیدی ٹولنے بنوں کا تاحیات سرپرست اعلیٰ ماسٹر جمال ، رشید جوہر ، عبدالقدیر شاہ خاکی، غلام غفار،نزیر اللہ نیردوش ، طارق محمود دانش ، پروفیسر محمد رحمان ساحل (حال ایبٹ آباد) ،ارشد منڈان،عبداالرحمن سکندر خان سکندر ،راؤف منڈان اس علاقے کے بزرگ شعراء و ادباء ہیں جبکہ نو جوانوں میں الیاس صابوخیل مرحوم،نثار خان سید، اور صدیق خان صدیق قابل ذکر شعراء و ادباء میں شمار ہوتے ہیں۔اس علاقے کا اپنا ایک مخصوص ادبی اسلوب ہے پشتو گیت اس علاقے کی مرہون منت ہے۔اسی لئے یہ علاقہ ادب کے حوالے سے اپنے لئے ایک خاص مقام ر کھتا ہے۔
سیاحتی لحاظ سے یہ علاقہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ کیونکہ اس علاقے میں ضلع بنوں کے عوام کیلئے ایک خوبصورت سیاحتی پارک تعمیر کیا گیا ہے۔ جس کی سیر کیلئے بنوں کے عوام کے علاوہ لکی مروت، ڈیرہ اسمعٰیل خان، نورنگ، شمالی وزیرستان، پشاور اور کوہاٹ سے لوگ آتے ہیں اور یہاں کے نظاروں سے لطف اٹھاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملک شیر مست خان آف عَبیدخیل
بنوں کی زیادہ تر تاریخ خون آلود ہے۔ یقیناًپٹھان لوگ بہت ہی سخت، دلیر ، جنگجو، اَنا پرست اور ضدی قوم ہیں۔ بنوں کے لوگ بہت ہی سخت اور سر کش ہیں۔ موجودہ دور میں تو تعلیم کی وجہ سے کچھ مثبت تبدیلیاں آئی ہیں۔ لیکن کہیں کہیں اب بھی وہی حالات ہیں ۔ پٹھانوں کی ساری روایات اسلامی اقدار سے مناسبت رکھتی ہیں مگر اس قوم میں جہاں بہت ساری خوبیاں موجود ہیں وہاں اس میں ایک آدھ خامیاں بھی ہیں۔سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ یہ قوم ہمیشہ سے ایک دوسرے کاخون بہاتی رہی ہے۔ ماضی میں اُسے بہادر سمجھا جاتا تھا جو کم ازکم ۵۰ خون کرتا تھا۔
سکھا شاہی سے پہلے علاقہ جھنڈوخیل کا علاقہ مشہور علاقہ تھا یہاں پر ایک مضبوط قلعہ ہوا کرتا تھا۔ جو ناقابل تسخیر تھا۔ اس قلعے اور علاقے پر ملک شیرمست خان آف جھنڈوخیل کا قبضہ تھا۔ یہ ایک طاقتور شخص تھا۔ تھاربرن اپنی کتاب میں کہتا ہے کہ اس کے ساتھ ہر وقت ۹ ہزار اسلحہ بند نوجوان تیار رہتے تھے۔ملک شیرمست خان کا پر دادا ملک عبیدخان ایک مشہور اور عزت دار شخص تھا اس لئے اس خیل کو بھی عَبیدخیل کا نام دیا گیا۔سکھا شاہی کے بعد انگریز دور میں اور ابھی تک علاقہ جھنڈوخیل ، تتر خیل، علاقہ نار شیرمست ،ادھمی ،نارملی ،علاقہ کالا خیل میں عبیدخیل قوم آباد ہے۔ لیکن زیادہ تر یہ قوم جھنڈوخیل ، نارملی اور نار شیر مست میں آباد ہے۔ دور ِ انگریز میں جب تور گوند کا سردار ملک دکس بوزیدخان آف سورانی بنا تو اس کے ساتھ دریائے کرم کے پانی کا مسئلہ پیش آیا ۔ ملک شیرمست خان نے کافی کوشش کی کہ بات لڑائی تک نہ پہنچ جائے اور یہ مسئلہ اسی طرح حل ہو جائے لیکن ملک بوزید خان ایک ضدی ملک تھا۔جب بات صلاح مشورے کے بعد بھی بگڑی ہی رہی تو ملک شیرمست خان نے اپنی قوم کے ساتھ ملک بوزید خان پر حملہ کیا اور اسے شکست دیکر خود تور گوند کے سردار بنے۔
ملک شیر مست خان عَبیدخیل تقریباً۲۵ سال تور گوند کا سردار رہا اس کی سربراہی میں تور گوند نے کافی ترقی کی اور کسی بھی وقت کسی بھی مسئلے سے نمٹنے کیلئے یہ ایک بھر پور لشکر تشکیل دے سکتا۔جس کی تعداد تقریباْ ۱ یک لاکھ لگ بھگ ہوتی۔
سکھا شاہی سے پہلے تک علاقہ جھنڈوخیل ملک شیر مست خان آف عبیدخیل کے پر دادا کا تھا اس طرح ہوتے ہوتے ملکی شیرمست خان تک آگیا اور وہ علاقے کا ملک اور سردار بنا۔ انگریز دور میں وزیروں نے یہاں پاؤں جمانے شروع کئے۔کیونکہ وزیروں کا محسن ساوان خان انگریزوں کا وفادار تھا۔ اسی بنا پر انگریزوںنے بھی ساوان خان کا ساتھ دیا۔انگریزوں کی سازش کی وجہ سے وزیروں اور عَبیدخیل قوم کے درمیان محاذ کھل گیا انگریز تماشا دیکھتے رہے اور یہ دونوں آپس میں لڑ تے رہے۔
ملک شیر مست خان آف جھنڈوخیل ایک بہادر اور نڈر انسان تھا ۔ اس کی مہمان نوازی اس وقت سارے علاقے میں مشہور تھی۔ ایک بار عیسک خیل کے نواب نے جب سکھا شاہی میں خٹک کے پہاڑویوں میں پناہ لی تو سکھوں نے ان کا پیچھا کیااور وہ وہاں سے بھاگ کر سیدھا ملک شیر مست خان کے پاس چلا ا ٓیاوہاں پناہ لی اور پھر مرتے دم تک وہا ں رہا۔ ملک شیرمست خان سے جب سکھوں نے استفسار کیا تو آپ نے جواب دیا کہ میں ایک پشتون قوم کا لیڈر ہوں اور اپنے گوند کا سربراہ ہوں ۔بحیثیت پشتون میں نواب صاحب کو آپ کے حوالے نہیں کر سکتا کیونکہ یہ میری غیرت گوارا نہیں کر سکتی۔
ملک شیر مست خان کی وفات کے بعد اس کا بھتیجا ملک ظفر خان عَبیدخیل اپنی قوم اور تور گوند کا سردار بنا لیکن ان میں اہلیت نہ تھی اس لئے جلد ہی ملک دوست محمد خان عبیدخیل نے ان کی جگہ لی اور ملک بنے۔ کچھ مدت بعد مقدمہ بازی اور خاندانی دشمنی کی وجہ سے ملک دوست محمد کی حالت خراب ہوگئی۔ان دونوں کے بعد ملک خوجہ گل عبیدخیل اس تپے کا سرادر اور ملک بنا۔ان میں ملک شیرمست خان کی خوبیا ں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ملک خوجہ گل کی وفات کے بعد اس کا بیٹا ملک محمد جان عبیدخیل اپنے تپے کا ملک بنا۔اس کی وفات کے بعد ملک رسول خاں (آدھمی) ملک ایوب خان(آدھمی) اور ملک گلزار خان اس قوم کے تین بڑے ملک بنے ۔ا ن کی وفات کے بعد ملک دراز خان آف جھنڈوخیل، ملک سر بلند خان،ملک محمد دراز خان آف نارملی اس قوم کے سردار بنے۔
یہ ایک مردم خیز خیل رہا ہے۔ اس کی اہم شخصیات میں ملک دراز خان جھنڈوخیل، ملک نقشبند خان، ملک میر شاہ جہان، ملک محمد جان ، ملک ممہ جان ، ملک کریم خان، ملک نظیف خان، ملک قمر زمان،ملک نبی اللہ خان ، ملک محمد دراز خان،،ملک عنایت اللہ خان ، ملک زائن اللہ خان، ملک محمود خان، ملک میر دراز خان، ملک،، ملک ایوب خان ، ملک رسول خان آدھمی، ملک شیر افضل خان ، ملک سیر ل خان، ملک مائینل خان، ملک سر بلند خان، ملک اسحاق خان، ملک شیر دراز خان ماسٹر، ملک سلطان علی خان( آدھمی)، ملک شیر بہادر خان، ملک فرید اللہ خان ، ملک سیف اللہ خان، ملک صدیق خان(نار شیرمست خان)، ملک شیرمحمد خان ،ملک داود خان اور ملک آزاد خان (کوٹکہ بہرام شاہ)اس خیل کے اہم اور سر کردہ شخصیات ہیں۔ جن میں اکثراس دار فانی سے رخصت ہوچکی ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭