پرانے وقتوں میں بارک زئی قبیلے کے دو بھائی سرکئے اور ابراہیم اراضی کی تقسیم سے ایک دوسرے سے بدظن ہوگئے دونوں ایک دوسرے کے سخت خلاف ہوگئے اور بات لڑائی جھگڑے اور خون خرابے تک جا پہنچی۔ دونوں بھائیوں نے ایک دوسرے کو نیچادکھانے کیلئے بنوں کے دیگر قبائل کو اپنے ساتھ ملایا۔ اور اسی طرح بنوں میں بنویان(بنوسیان) کے دو طاقتور گروہ بن گئے۔ جس کو گوند کا نام دیا گیا ایک کو سپین گوند اور دوسرے کو تور گوند ! گوند اصل میں گروپ کو کہتے ہیں۔ اس کے بعد بنویان دو گروپوں میں تقسیم ہو گئے۔ اور پھر ہر گوند مخالف گوند کے آدمی کو نیچا دکھانے کیلئے بھر پور کوشش کرتا حتیٰ کہ ایک دوسرے کو قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتاایک دوسرے کو دشمن سمجھتے۔تیر گوند (سیاہ گوند) کا اپنا علیحدہ سردار اور ملک ہوتا تھا جبکہ سپین گوند( سفید گوند) کا اپنا علیحدہ سردار اور ملک ہوتا تھا بنوں میں ایک جنگ شروع ہوگئی بنویان ایک دوسرے کے خلاف لڑ رہے تھے یہ ایک ایسی جنگ تھی جس کا کوئی مقصد نہ تھا۔ صرف اور صرف ایک دوسرے کو شکست اور نیچا دکھانے کی جنگ تھی کیونکہ انا اور ضد کی جنگ تھی سپین گوند میں بھی طاقتور لوگ موجود تھے لیکن تور گوند زیادہ طاقتور تھا۔ اس میں زیادہ طاقتور لوگ تھے۔ملک دکس خان آف بازار احمد خان تور گوند کے سردار تھے لیکن ان کی وفات کے بعد ملک بوزید خان آف سورانی تور گوند کے ملک بنے۔مگر جلد ہی علاقہ جھنڈوخیل کے تپہ کے سربراہ ملک شیر مست خان آف عَبید خیل نے بوزید خان کو شکست دیکر خود تور گوند کے سربراہ اور ملک بنے۔ملک شیر مست خان نے جب اپنے گوند کی سربراہی سنبھالی تو یہ گوند ترقی کی راہ پر گامزن ہوگیا۔سپین گوند کے بہت سے لوگ تور گوند میں شامل ہوگئے۔ملک شیرمست پر اپنے گوند کے تمام قبائل ، ملکوں اور لوگوں کا مکمل اعتماد تھا۔ ان کے زیر کمان تقریباً ۹ ہزاراسلحہ بند جوان ہر وقت تیار رہتے۔اس کے برعکس سپین گوند کے سربراہ ملک سینی خان تھے۔اس کے زیر کمان تقریباً ۶ ہزار اسلحہ بند نوجوان ہر وقت تیار رہتے ۔ایس۔ایس تھاربرن اپنی کتاب Bannu or our Afghan Frontier میں لکھتے ہیں کہ:
These fluctuations of power, had, at the times i speak of,ceased to be of any great consequence. The ambition violence, and influence of the few, and the requirments and endurance of the many , had mutually found their level in the distructed valley, and the result was, as already stated, tha several years had come and gone, and still seen the twenty rich Tappah,s (تپہ) of Bannu pretty equally divided among seventeen or eighteen chiefs (Maliks). But more securely to preserve this status,& cheek each others personal ambition, a political division was resorted to, still more remarkable than the territorial one already related. The chiefs of the twenty Tappa,s divided thenselves into two gunds(Groups) or factions, the leadres of which were the most influential men at the time on either side. When i went first to the Bannu Malik Sher Mast Khan jhandu Khel was at the head of one gund(Group) mustering nine thousand fighting men and Mr.Jafir Khan of Ghowriwala Bannu, at the head of the other with six thousand.
ان گوندوں کے سرداروں کے لا محدود اختیارات ہوتے ۔یہ جو بھی فیصلہ کرتے گوند میں شامل تمام قبائل اور ملک ان پر فوراًعمل کرتے گویا گوند کا سربراہ اپنے گوند اور متعلقہ علاقوں کا بادشاہ ہوتا تھا ۔متعلقہ علاقوں کے تمام مسائل گوند کے سربراہ حل کرتے۔ کوئی اس کے بغیر قدم اٹھانے کی جرأت نہیں کر سکتاتھا۔اگر چہ بہت سے مسائل گوندوں کے سردار حل کرتے لیکن اس کے علاوہ کبھی کبھی ظلم کی انتہا بھی کرتے قتل ایک فیشن بن چکا تھا۔ جو سب سے زیادہ قتل کرتا وہ سب سے زیادہ طاقتور ہوتا اسے علاقے کے لوگ بہادر کا خطاب دیتے جو شخص ۵۰ سے کم قتل کرتا وہ اپنے قبیلے کا ملک نہیں بن سکتاتھا۔بنوں میں جو پشتون قبائل ہیں جن کو بنوی زبان میں ہم پشتونہ ٔکہتے ہیں ان کو یہ چیز وراثت میں ملی ہے یہی وجہ ہے کہ آجکل بھی یہی جہالت کی روایت برقرار ہے اور اپنے ہی خاندان کے لوگ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے بہت کچھ کرتے ہیں چچا زاد بھائیوں کو (تربور) یعنی دشمن کہتے ہیں۔تربور پشتو میں چچازاد بھائی کو کہتے ہیں لیکن یہ ایک طرح کا دشمن ہوتاہے۔دونوں طرف سے اپنے ہی چچا زاد بھائی ایک دوسرے کو نیچادکھانے میں مصروف ِ عمل ہوتے ہیں۔آجکل بھی بنوں میں ستر فیصد لوگ خاندانی دشمنیوں میں اُلجھے ہوئے ہیں اور اپنے ہی خاندانوں کے لوگ ایک دوسرے کو قتل کررہے ہیں پتہ نہیں یہ جہالت بنوں میں کب ختم ہو گی۔Thorurn "Bannu
Or Our Afghan Frontier" میں گویا ہے کہ ۔The leaders of the Bannuzai,s raised their heads & each said in his heart, There is no ruler in the land, So, I Shall make myself chief ! And the people were perplexed,saying in their hearts, Whom shall we follow? So they divided themselves into two parties, the Balck & White & there was war in the land for many years .
ماضی میں تیر گوند اور سپین گوند کی نا اتفاقی سے دوسرے قبائل نے کافی فائدہ اٹھایا اگردونوں گوند اتفاق سے ایک ساتھ رہتے تو کوئی طاقت ان کا مقا بلہ نہ کرسکتی بلکہ آج خراسان سے ہند تک ان کی حکومت ہوتی۔ لیکن آپس کی نا اتفاقی کی وجہ سے یہ لوگ ختم ہو رہے تھے۔اور ان کی طاقت بھی کمزور ہوتی جا رہی تھی نااتفاقی کی وجہ سے علاقہ نارپر مروت قوم نے قبضہ کرلیا تھا عمر زئی اور بیزن خیل وزیر اسپرکہ وزیر کے ساتھ ملے ہوئے تھے اور ان کابہت زیادہ اتفاق تھا۔ انہوںنے بہت سارے بنوی علاقوں پر قبضہ کر دیا تھا۔ جس کے ساتھ ملک بوزید خان آف سورانی اور ملک شیر مست خان آف عبیدَخیل نبردِ آزما تھے اگر چہ یہ دونوں ملک پہلے ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے اور کئی مرتبہ ان دونوں اقوام کے درمیان دورِ سکھ میں پانی کے تنازعے پر جنگیں بھی ہو چکی تھیں اس کے بعد گوند کی سرداری پر بھی دونوں میں گھمسان کی لڑائی ہوئی تھی لیکن جب وزیر وں کی دست درازی کو دیکھا تو ان دو ملکوں نے ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔ اصل میں تیر گوند میں یہ دونوں بہت اہمیت رکھتے تھے ۔اور تیر گوند ان دو ملکوں کی وجہ سے ترقی یافتہ گوند تھا۔ سپین گوند کے مقابلے میں تیر گوند زیادہ مشہور تھا۔ اس کے علاوہ محمد خیل وزیر(مہمند خیل) نے علاقہ داؤد شاہ اور ممش خیل کے کچھ علاقوں پر قبضہ کرلیا تھا اس طرح علاقہ نورڑ کے عوام بھی اپنی اراضیات کو بچانے کیلئے جنگ لڑ رہے تھے۔ علاقہ سدروان موضع جھنڈوخیل پر خٹک قبیلے نے ناجائز قبضہ کیا تھا جس کو ملک شیر مست خان نے زیر کرکے ان کو وہا ں سے نکال دیا خٹک کا ایک فرد نواب آف ٹیرھی خٹک کے پاس فریاد لیکر گیا لیکن نواب آف ٹیرھی کو بنوں کے تور گوند( سیاہ گروپ) کی طاقت کا خوب اندازہ تھا اس لئے اس نے ان کو مشورہ دیا کہ یہاں پر رہو ۔ان کے ساتھ خٹک کے جتنے خاندان کرک گئے تھے انہوں نے وہاں سکونت اختیار کر لی جبکہ باقی خٹک نے عَبیدخیل قوم کی اطاعت قبول کی۔ اور ملک شیر مست آف جھنڈوخیل کی ملکی اور سرداری بھی قبول کی ۔ اس کے بعد انہوں نے ملک شیر مست خان کی گوند میں شمولیت اختیار کی تو شیر مست خان نے انہیں کچھ اراضی اور گھر بطور عطیہ دئیے۔بعد میں خٹکا ن نے ملک خواجہ گل آف عَبیدخیل سے زمینوں کی سیرابی کیلئے پانی مانگنے کی فریاد کی کہ اب ہمیں ان زمینوں کی سیرابی کیلئے پانی بھی بطورِ عطیہ دیا جائے جو زمینیں آپ لوگوں نے ہمیں مفت میں دی ہے تو ملک خواجہ گل اور ان کے خاندان والوں نے زبانی طور پران سے کہا کہ ٹھیک ہے آپ تب ہی پانی استعمال کریں گے جب آپ ہماری ساری زمینوں کو سیراب کریں گے اور اس کے ساتھ جب نہروں کی کھدائی کا وقت ہوگا تو اس کی کھدائی بھی آپ لوگوں کے ذمے ہوگی وہ کھدائی آپ لوگ کریں گے۔اس کے علاوہ پانی آپ اسی طرح استعمال کریں کاٖغذات میں پانی ہمار اہے آپ لوگ تب تک میری اجازت سے استعمال کریں گے جب تک میں چاہوں۔اور ساتھ ساتھ اس قوم ( عَبیدخیل) کے وفادار رہوگے ۔اور اگر آپ نے کوئی بھی غداری کی تو ہم لوگ مجبوراًآپ سے ساری ارضی واپس لینگے اور باقی آپ لوگوں کو پتہ ہے کہ اس کے بعد ہم لوگ آپ کے ساتھ کیا کریں گے۔ اس کے بعد اس وقت سے لیکرابھی تک یہ خٹکان اس علاقے میں رہائش پذیر ہیں اورپراَمن طریقے سے رہ رہے ہیں۔
اس وقت سارا بنوں ایک جنگ کا منظر پیش کر رہا تھا ہر طر ف انتشار تھا کیونکہ جو دو گوند بنے ہوئے تھے وہ ایک دوسرے سے بر سر پیکار تھے اور ان گوندوں کی اس باہمی جنگ سے وزیروں نے کافی فائدہ اٹھایا اور ہر طر ف سے بنویان کو دیمک کی طرح چاٹ رہے تھے۔لہٰذا یہ وقت تھا کہ بنویان آپسمیں ایک ہو جاتے لیکن یہاں پرتو سپین گوند نے انکار کر دیا تو تور گوند نے خود ملک شیرمست خان ، ملک بوزیدخان،علاقہ فاطمہ خیل اور علاقہ بازار احمد خان کے ملکان نے ملکر نار کے علاقے پر چڑھائی کی اور مروت قوم کو شکست دیکر انہیں علاقہ نار سے پیچھے دھکیل کر علاقہ نار پر دوبارہ قبضہ کرلیا۔بنویان کی اس کامیابی سے وزیروں کو خطرہ محسوس ہوا۔جب انہیں پتہ چلا کہ بنویان بیدار ہو گئے ہیں تو انہوںنے خوامخوا ہ عام جنگ کا اعلان کیا اور سارے وزیر قبائل ایک ساتھ ہو گئے۔ دوسری طرف ملک دکس خان ، ملک شیر مست خان اور ملک بوزید خان تور گوند کے لشکر کے ہمراہ کوٹکہ بہرام شاہ پہنچ گئے اور وہا ں پر پڑاو ٔڈالا۔اس وقت تور گوند کے لشکر کی تعداد تقریباْ ایک لاکھ تیس ہزار کے لگ بھگ تھی۔ لشکر کا کمان مندرج بالابنویان کے ملکان کر رہے تھے۔اس وقت سپین گوند وزیروں کا طرف دار تھا۔کیونکہ وہ تور گوند کو نیچاا دکھانے کی کوشش کرتا۔لیکن تور گوند میں اس وقت بہت بہادر ،بہادر انسان تھے۔جن کی کمان ملک شیرمست کر رہے تھے شیر مست کو لیڈر شپ کے تمام گُر معلوم تھے اور وہ ایک پر اعتماد شخصیت کے مالک بھی تھے۔تور گوند میں شامل تمام بڑے بڑے ملکوں کی ایک مشترکہ کمیٹی تشکیل دی گئی کہ وہ آگے کیلئے لائحہ عمل تیار کریں کہ کیا کیا جائے۔آپسمیں صلاح مشورے کے بعد وزیر قوم کی طرف ایک قاصد بازیدخان قوم مری کو بھیجا یہ بھی ایک بہادر انسان تھا بنا تلوار اور بندوق کے وزیروں کے جھنڈمیں داخل ہوا اور بڑی بہادری سے بنویان کو تین شرائط پیش کیں۔ پہلا یہ کہ آپ نے بنویان کے جو علاقے قبضہ کئے ہیں انہیں خود چھوڑدیں دوسرا یہ کہ جس اراضی پر آپ لوگوں نے ناجائز قبضہ کیا ہے اسے اپنی قیمت پر بنویان سے خرید لیں اور بنویان کے خلاف آئندہ پروپیگنڈہ نہ کریں یا پھر ایک زبردست جنگ کیلئے تیار ہو جائیں۔ یہ سن کر وزیر قبائل کے کچھ لوگوں نے انہیں خنجروں سے زخمی کردیا وہ زخمی حالت میں جب اپنے سرداروں کے پاس پہنچا تو تمام بنویان غصہ سے آگ بگولہ ہوگئے اورسرداروں سے کہا کہ وزیروں نے پشتون روایت کو پامال کیا ہے کیونکہ انہوں نے ایک قاصد کو زخمی کیا ہے ان سے اس کا بدلہ ہر حال میںلیا جائے گا۔اور یوں سب نے قسمیں کھائی اور بنویان نے عام جنگ کا اعلان کیا۔ادھر وزیر قبائل کو جب اس کا پتہ چلا تو انہوں نے بھی تمام وزیر قبائل کوڈول کی تھاپ پر اکٹھاکیا۔دو عظیم الشان لشکر اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو قتل کرنے کیلئے انا کی جنگ کی خاطر اُٹھ کھڑے ہوئے۔وزیروں کے تما م قبائل نے بھی اس جنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔نہر باران کے اوٹ میں ایک گھمسان کی لڑائی ہوئی جس میں دونوں اطراف سے زبردست جانی و مالی نقصان ہوا پہلے تو وزیر قبائل کا پلڑا بھاری رہا کیونکہ وہ بھی ایک لاکھ کے قریب تھے لیکن جلد ہی بنویان نے اپنے آپ کو سنبھالا اور وزیر قبائل کو شکست دی اور یوں بنویان کو فتح حاصل ہوئی۔ اس کے بعد وزیروں نے ہوش کے ناخن لئے ساتھ ہی ساتھ سپین گوندجو اس لڑائی میں در پردہ وزیروں کے ساتھ تھاکو بھی تور گوند کی طاقت کا اندازہ ہوا۔ اس سے پہلے ڈیرہ کے نواب اور مروت قبیلے کو بھی بنویان کے تور گوند نے شکستیں دی تھیں۔ نواب آف ڈیرہ بھی بنوں کو حاصل کرنے کیلئے پر تول رہا تھا لیکن شکست کے بعد جب اسے بنویان کی جنگجویانہ صلاحیتوں کا پتہ چلا تو زندگی بھر بنوں کا رُخ نہیں کیا۔ افسوس کہ آج بھی بنویان کاایسا اتفاق ہوتا تو بنوں کا نقشہ آج کچھ اور ہوتالیکن یہاں پر تو اب سب دولت کے پجاری بن چکے ہیں۔ دولت کو قومیت پر ترجیح دیتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ جو قوم اپنے اسلاف کو بھول جاتی ہے وہ قوم بالآخر یا تو مٹ جاتی ہے یا غلام بن جاتی ہے اور دوسری اقوام ان پر حکمرانی کرتی ہیں مجھے یہاں پر خوشحال خان خٹک کا ایک شعر یا د آیا۔
؎ اتفاق پۂ پختانو کے پیدا نہء شو
گنی ما بہ د مغل گریوان پارہ کہ
ترجمہ :۔ افسوس کہ پشتونوں میں اتفاق پیدا نہیں ہوا ورنہ میں مغل کے گریباںکو تار تار کردیتا۔
(بنوسیانو) ! خدا راہ اپنے اسلاف کو یار رکھیںکیونکہ زندہ قومیں اپنے اسلاف کو یا د رکھتی ہیں۔ ہمارے ایسے اسلاف تھے جن پر غیر قومیں بھی فخر کرتی ہیں لیکن افسوس کہ ہم خود سب کچھ بھول چکے ہیں یہ بات ہے کہ ہماری ماضی بہت درد ناک ہے بہت ظالم لوگ تھے وہ لیکن پھر بھی ان میں جو اتفاق تھا وہ دیکھنے کے لائق تھا۔ آج بھی بنویان کو اس اتفا ق کی ضرورت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔