ماضی کے اوراق سے پتہ چلتا ہے کہ پٹھان قبائل یا تو ہمیشہ خود ایک دوسرے کے ساتھ یا پھر کسی اور کے ساتھ دست و گریباں رہتے تھے۔ کیونکہ یہ وہ قوم ہیں جو بالکل کسی کی غلامی قبول نہیں کرتی ۔ ان کی مزاج میںغصے کاعنصر غالب ہے ناجائز بات پر کسی کو معاف نہیں کرتا حتیٰ کہ اپنے سگے بیٹے کو بھی گولی سے اڑا دیتا ہے۔جب ضد پر اتر آئے تو صفحہء ہستی پر اس سے زیادہ خطرناک انسان ہو ہی نہیں سکتا۔اسی لئے تو انگریز کہتے ہیں کہ پٹھان کو دوستی کے ذریعے تو زیرکیا جا سکتا ہے لیکن دشمنی میں انہیں زیر کرنا مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے۔پٹھانوں میں جتنے بھی قبائل ہیں ہر قبیلے کا ایک سردار یا ملک یا سربراہ ہوتا ہے جس طرح گھرکا ہر فرد اور عورت اپنے والد کی بات مانتے ہیں اسی طرح گاؤں کے سب لوگ ملک کی بات مانتے ہیں گویا ملک ایک خطاب ہے بادشاہ کا ۔فرنگیوں کے وارد ہونے کے بعدبھی یہاں پر ہر علاقے کا اپنا ملک ہوتا تھا۔ علاقے کا ملک بڑا طاقتور شخص ہوتا تھا۔ خاندانی لحاظ سے بھی وہ ایک معزز اور عزت دار گھرانے کا فر د ہوتا تھا۔ضلع بنوں میں۱۵۰۰ ء سے لیکر ابھی تک اکثر علاقوں کے ملک اور سردار اولادِشیتک ہی ہیں۔کیونکہ یہ لوگ خاندانی لحاظ سے عزت دار بھی ہیں اور ساتھ ساتھ بڑے جنگجو اور بہادر بھی ! اگر چہ کچھ ملکان اور خاندانوں سے بھی تعلق رکھتے تھے لیکن زیادہ تر حصہ اولاد شیتک کا ہی ہے۔موجودہ دور میں بھی بنوں کے اکثر علاقوں میں وہی ملک اِزم کا نظام ہے۔ ملکی کرنا ہر قوم اور ہر فرد کے بس کی بات نہیں کیونکہ جوشخص اپنے گھر کے اندر کے حالات نہیں سنوار سکتا وہ بھلاپورے گاؤں اور محلہ کے مسئلے خاک حل کرے گا۔پٹھانوں میں برسوں سے روایت چلی آرہی ہے کہ’’ ملکی‘‘ طاقتور اور عزت دار قوم کے فرد کو سونپی جاتی ہے۔روایت بھی ہے کہ جو نسب اور حسب میں اعلیٰ ہو تو وہ غلط کام کرنے سے کتراتا ہے کیونکہ وہ اس بات سے ڈرتا ہے کہ کہیںکوئی ایسا نہ کہیں کہ فلاں پشتون ملک بھی ہے اور ایسا کام بھی کرتا ہے۔ اسی وجہ سے وہ درست کام کرتا ہے۔وہ اپنے آپ کو تو اذیت دیتا ہے لیکن اپنے خاندان کو کسی کی نظروں میںنہیں گِراتا ۔حضو ؐ کا ارشاد بھی ہے ۔وخیار ُکم فی السلام و خیارُکم فی الجاہلیہترجمہ :۔ آپ میں سے جو قومیں دور جاہلیت میںغیرت مند تھی وہ اسلام میں بھی غیرت مند ہوںگی۔غیرت مند قوم کے لوگ غیرت مند فیصلے کرتے ہیں۔یہاں پر مجھے ایک واقعہ یاد آیا ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک جنگل میں ایک شیرنی اپنے بچوں کی پیدائش کے بعد مر گئی اتفاق سے اسی جنگل میں ایک بکری بھی تھی جس نے ایک بچے کوجنم دیا لیکن بدقسمتی سے اس بکری کا بچہ مر گیا۔ بکری نے سوچا کہ کیوں نہ میں اپنا دودھ شیرنی کے بچوں کو پلاؤں ۔اس نے ایسا ہی کیا جب شیرنی کے بچے بڑے ہوگئے تو بکری پاؤں سے معذور ہوگئی اب چونکہ شیرنی کے بچے بڑے ہو چکے تھے اور جنگل کے بادشاہ بن چکے تھے اس لیے انہوں نے ایک اونٹ سے کہا کہ آ ج سے تمہاری یہ ڈیوٹی ہے کہ ہماری بڑی بی کو اپنی پیٹھ پر گھماو ٔگے اور جہاں سے جس درخت سے وہ پتے کھانا چاہے تم اسے اسی درخت سے پتے کھلانے کیلئے لے جاو گے ۔اونٹ روزانہ ایسا ہی کرتا او ر جنگل کے بادشاہ کے حکم کی تعمیل کرتا۔ایک دن ایک باز نے یہ ماجرا دیکھا تو بکری سے بولا کہ بڑی بی آپ نے یہ کونسا کارنامہ سرانجام دیا ہے جس کی وجہ سے اونٹ آپ کو اتنا عزت دے رہا ہے توبکری نے سارا ماجرا بیان کیا ۔باز کے دل میں بھی بھلائی کی خواہش پیدا ہو گئی ۔ایک دن باز شکار پہ نکلا تھا کیا دیکھتا ہے کہ پانی کے ایک ڈھنڈ میں ایک چوہا پھنسا ہوا ہے باز نے فوراًچوہے کو پانی سے نکالا اور اپنے گھونسلے میں لے آیا چونکہ سردی کا موسم تھا اس لئے باز نے چوہے پر اپنے پر پھیلا دئیے تا کہ چوہے کو آرام ملے لیکن جیسے ہی چوہے کو تھوڑی سی گرمائش ملی اس نے باز کے پر کترانے شروع کردئیے۔باز کو پتہ ہی نہ چلا اور چوہے نے اس کے سارے پر کاٹ لئے اور باز ، باز سے مرغ بن گیا تھا۔باز کو جب اپنے آپ کا پتہ چلا تو پانی سر سے گزر چکا تھا۔ اب وہ پر نکلنے کا انتظار کررہا تھا جب اس کے نئے پر نکلے تو ایک دن اس نے دوبارہ اس بکری اور اونٹ کو دیکھا اس نے بکری سے شکوہ کیا کہ بڑی بی آپ نے تو مجھ سے کہا تھا کہ بھلا کرو گے تو بھلا پاو گے میں نے شیرنی کے بچوں کو دودھ پلایا تھا اس لیئے مجھے یہ اعزاز ملا ہے لیکن میں نے تو ایک چوہے کے ساتھ بھلائی کرکے خود کو مروا دیا تھا اللہ نے بچایا ۔پھر باز نے سارا واقعہ سنایا بکری نے مسکرا کر جواب دیا کہ میں نے شیرنی کے بچوں کو دودھ پلایا تھا جو نسب کے لحاظ سے ایک اعلیٰ جانور ہے اور آپ نے چوہے کی جان بچائی تھی جو ایک کم اصل جانور ہے۔ میرے اس اقتباس سے مراد یہ ہے کہ نسب کے لحاظ سے جو اعلیٰ ہوتا ہے ان سے ایسا کام سرزد نہیں ہوتا جو معیوب ہو اگر چہ ہم سب آدم کی اولاد ہیںاور اللہ کے سب سے زیادہ نزدیک وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو۔لیکن قومیں اورحسب و نسب بھی اللہ تعالیٰ نے پہچان کیلئے بنائی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔