سرزمینِ بنوں صرف اولاد ِ شیتک کی تھی جس نے منگل و ہنی کو یہاں سے نکال کر خود اس علاقے پر قابض ہوگئے او یہاں پر نہروں کو کھود کر اس زمین کو قابل ِ کاشت بنایا۔بنوں کو حقیقی بنوں گل بنانے کیلئے انہی لوگوں نے محنت کی ہے۔ ۱۷۵۰ء میں کوہ سفید کی جانب سے احمد زائی وزیر پہاڑوں سے اتر کر بنوں کے شمال سرحد پر آباد ہوگئے ۔وقت گزرتا جا رہا تھا بنویان آپسمیں دست و گریباں تھے ان کی اس نا اتفاقی سے فائدہ اٹھاکر ۱۷۷۵ء میں اتمان زئی وزیر قبیلے نے بنوں میں علاقہ میریان کے ساتھ رہنا شروع کردیا۔ بنوسیان کی باہمی خانہ جنگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وزیر قبائل نے بنوسیان کی زمینوں پر قبضے کرناشروع کردیئے۔ یہ بنویان کیلئے بہت آزمائش کن وقت تھا۔ ایک طرف سکھا شاہی کا مقابلہ کرنا تھا تو دوسری طرف وزیروں نے ان کی زمینوں پر قبضہ جمانا شروع کردیاتھا۔انگریز دور تک یہ سلسلہ چلتا رہا ۔ فرنگی دور میں مختلف علاقوں میں وزیروں نے آہستہ آہستہ قدم جمانے شروع کردئیے۔علاقہ جھنڈوخیل کی طرف پر وزیروں کے ملک ساوان خان اور تور گوند کے سربراہ ملک شیر مست خان آف جھنڈوخیل کے درمیان جائیداد کے تنازعے پر کافی گرما گرمی بھی ہوئی تھی۔اور ان کے درمیان ایک طرح سے جنگ چھڑ گئی تھی۔اصل میں محکمہ مال کے کاغذات کے مطابق شیرمست خان عبیدخیل اس علاقے کا سکھ دور سے بھی پہلے کا خاندانی مشر تھا۔ لیکن انگریز نے تور گوند کے سربراہ کو نیچا دکھانے کیلئے اس کی جائیداد میں ساون خان کو بھی حصہ دیا۔ اسی لئے شیرمست خان اورساون خان وزیر مرنے تک ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔