بنوں اور اس کے ملحقہ علاقوں میں کھبی بھی انگریزوں او سکھوں نے سکون سے حکومت نہیں کی ہے سکھ دور میں سکھوں کے لیے غازی دلاسہ خان خوف و دہشت نام تھا جبکہ انگریز حکومت تو اس سے بھی بدتر تھی کوئی بھی انگریز افیسر بغیر کسی عذر کے چھاونی سے باہر نہیں نکلتا تھا کیونکہ جو باہر نکلتا ان کا سر چھاونی بھیج دیا جاتا تھا۔ اسی خوف کی وجہ سے انگریزوں نے کبھی بھی یہاں پر سکھ کا سانس نہیں لیا ۔سکھ اور انگریز کے ساتھ بنوسیان نے جو لڑائیاں لڑی ہیں ان کے تفصیل مشکل ہے کیونکہ وہ بہت طویل ہیں لیکن یہاں پر جو بڑی بڑی کاروائیاں ہوہیں ہیں ان کی نفصیل ذیل ہیں۔
۱۔سکھوں اور بنوسیان کی پہلی لڑائی بمقام شھمال نیکہ قبرستان مائک خیل منڈان بنوں
۲۔سکھوں اور بنوسیان کی دوسری لڑائی بمقام قلعہ جھنڈوخیل بنوں
۳۔سکھوں اور بنوسیان کی تیسری لڑائی بمقام دواد شاہ ممش خیل
۴۔سکھوں اور بنوسیان کی چوتھی لڑائی بمقام کرم گڑھی غازی عبداللہ شاہ بابا قبرستان
۵۔ سکھوں او ربنوسیان کی پانچویں لڑائی بمقام داود شاہ ممش خیل بنوں
۶۔ سکھوں اور بنوسیان کی چھٹی لڑائی بمقام تلگائی سورانی بنوں
۷۔سکھوں اور بنوسیان کی ساتویں لڑائی بمقام ٹپی کلہ نزد بنوں چھاونی
ان تمام لڑائیوں میں بنوسیان کے سردار اور سربراہ غازی دلاسہ خان تھے ان کی کمان میں سکھوں نے کبھی بھی سکھ کا سانس نہیں لیا ہے غازی دلاسہ خان نے ساری عمر سکھوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا۔
اب آتے ہیں ان لڑائیوں کے بارے میں جو صرف بنوں میں انگریزوں کے خلاف لڑی گئی تھیں ان کی تفصیل بھی لمبی ہے لیکن یہاں پر جو اہم معرکے ہوئے ہیں وہ یہ ہیں:
۱۔سپری اور گڑانگ کی لڑائی (ایف آر بنوں)
۲۔سپری اور گڑانگ کی دوسری لڑائی(ایف آر بنوں)
۳۔قلعہ باران ڈیم پر حملہ (مہند خیل بنوں)
۴۔قلعہ باران ڈیم پر دوبارہ حملہ(مہمند خیل بنوں)
۵۔اسلام چوکی قلعہ پر حملہ (بنوں)
۶۔عمر زئی وزیروں کی لڑائی(بنوں)
۷۔گمبتی کی پہلی لڑائی(ایف آر بنوں)
۸۔گمبتی کی دوسری لڑائی(ایف آر بنوں)
۹۔باران قلعہ پر دوبارہ حملہ (مہمند خیل بنوں)
۱۰۔گمبتی کی تیسری لڑائی(ایف آر بنوں)
۱۱۔ہاتھی خیل وزیر وں پر فوج کشی(ڈومیل بنوں)
۱۲۔بنوں اسلام چوکی ہوائی اڈے پر حملہ(بنوں)
۱۳۔سیدگی کی لڑائی (ایف آر بنوں)
۱۴۔چشمے کی لڑائی (ایف آر بنوں)
یہ تفصیل صرف ان لڑائیوں اور حملوں کی ہے جو صرف بنوں کی سرزمین پر سکھوں اور انگریزوں کی خلاف بنوسیان اور ددیگر پشتون قبائل نے لڑئی ہیں ان کے علاوہ اور بھی چھوٹے چھوٹے حملے ہوئے ہیں جن کا ذکر تاریخی کتب میںموجود ہیں لیکن یہاں پر ان کا ذکر کرنا مشکل ہے کیونکہ ان کی تفصیل پھر بہت زیادہ لمبی ہوجائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔