فرنگی راج سے آزادی حاصل کرنے کیلئے برصغیر کے اکثر علاقوں میں جہاد بھی جاری تھا جہاد ی گروپوں سے فرنگی یہاں سے بھاگنے پر مجبور ہوگیا تھا۔دراصل انہی لوگوں نے دینِ اسلام اور قیام پاکستان میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔ ایسے لوگوں میں فقیر ایپی ( حاجی میرزاعلی خان) کا نام سر فہرست ہے۔ آپ کے والد کا نام ارسلاخان تھا دادا جان کانام محمد ایاز تھا۔ فقیر ایپی ۱۸۹۷ء کو شمالی وزیرستان کے قریب کھجوری گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ (واضح رہے کہ فقیر ایپی کی تاریخ پیدائش میںاختلاف ہے کیونکہ مختلف مؤرخین ومحققین نے آپ کی تاریخ پیدائش مختلف لکھی ہے) آپ اتمانزئی وزیری قبیلہ طوری خیل سے تعلق رکھتے تھے ۔آپ نے مزید تعلیم حاصل کرنے کیلئے بنوں کا رُ خ کیا ایک یورپی مؤرخ میلن ہاونر اپنے مقالےOne man agaisnt brithish Epmire میں لکھتے ہیں کہ سلطنت ِ برطانیہ کے مخالفوں میں فقیر ایپی کی شخصیت بے مثال تھی آپ نے بنوں کے فاطمہ خیل نامی ایک گاؤں کے قاضی حیات عرف شیرزاد قاضی کی پاکدامن بیٹی سے نکاح کیا۔ کچھ مدت بعد وزیرستان چلے گئے اور علاقہ داوڑ کے ایپی کلے میں رہائش اختیار کی۔ اس علاقے کے جید عالم دین مولانا عالم جان سے بیعت کرلی ۔ ۱۹۲۸ ء میں آپ نے حج ِ بیت اللہ کی سعادت حاصل کی۔ حج سے واپسی کے بعد درس و تدریس اور عبادات میں مشغول رہے ۔ایک اور انگریز فقیر ایپی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ Mirzali khan the faqir of Eppi, was born in 1901 in a hamlet called Kurta,one kilometer from khajuri post at the western end of the tochi valley,s shinki defile. His father , sheikh Arslah Khan and grandfather were both local relegious figures and owned land in the area. Mirza Ali khan family belonged to the Bangal khel clan of the Madda khel and Haibati subsections of the Tori Khel tribe of the utmanzai wazirs. Arsala khan died when Mirz Ali khan was twelve and left a large family behind. still funds sufficed to allow Mirza Ali Khan to read to fourth primary standard at the Govt school at idak, and later to pursue independent religious studies among the Daurs and in Bannu Tahsil
مارچ 1936ء کو اسلام بی بی (رام کوری) نے ایک مسلمان شخص امیر نورعلی شاہ کے ساتھ شرعی نکاح کیا اور مسلمان ہو گئی۔ امیر نور علی شاہ علاقہ جھنڈوخیل کا باسی تھا ۔جب ہندؤوں کو اس نکاح کا پتہ چلا تو انہوں نے اس کو اپنی اَنا کا مسئلہ قرار دیا ۔ رام کوری جو اب اسلام بی بی بن گئی تھی میوہ رام کی بیٹی، گلاب چند المعروف لاچی رام کی پوتی اور ہرنام داس کی بھتیجی تھی۔ رام کوری کی ماں کا نام منسہ دیوی تھا ۔ رام کوری کے قبولیت اسلام سے سارے ہندو متحد ہو گئے ۔بنوں کے لوگوں نے جلسوں ،جلوسوں کا راستہ اپنایا لیکن انگریز پسِ پردہ مکمل طور پر ہندو کے ساتھ تھے۔ اسی لئے معاملہ جوں کا توں تھا۔ بعد میں معاملہ عدالت تک جا پہنچا کیونکہ اس کے بغیر کوئی چارہ بھی تو نہیں تھا۔ انگریز تو پہلے سے ہی ہندو بنئے کے طرفدار تھے۔لہٰذا اسلام بی بی کو مختلف حیلوں بہانوں سے ہندؤوں کے حوالے کیا گیا۔اس کے بعد بغاوت شروع ہوگئی اس خبر کی اطلاع جب فقیر ایپی کو پہنچی تو اس نے سب سے پہلے جھنڈوخیل کے گاؤں میں اس مقام پر ایک خفیہ اجلاس بلایا جہاں پر آج کل آدھمی رسول خان اور آدھمی ایوب خان کا چھوٹا سا تانگے کا اڈہ ہے۔ اس اجلاس میں بنوں کے کئی قبیلوں کے لوگوں نے خفیہ شرکت کی۔ اور مشورہ کرنے کے بعد یہاں اسی جگہ سے باقاعدہ فقیر ایپی نے تحریک جہاد کا آغاز کیا۔انگریزوں کو ایک پیغام بھیجا کہ اسلام بی بی کو مسلمانوں کے حوالے کرو نہیں تو جہاد کیلئے تیار ہو جاؤ ۔ انگریز تو اپنے طاقت میں مست تھے انہیں فقیر ایپی کی کرامات ، اور پشتونوں کی بہادری کا اچھی طرح اندازہ نہیں تھا انگریز نے جواب بھیجوایا کہ آپ ایک فقیر آدمی ہیں جو کرنا ہے وہ کرو۔ اس کے بعد فقیر ایپی نے علم جہاد بلند کیا اور گورویک کو اپنا مرکز بنایا جہاد کے اعلان کے سا تھ بنوں کے علاقوں سے لوگ گرویک کی جانب روانہ ہوئے اور فقیر ایپی کے مشن میں شامل ہوگئے۔ اس طویل جنگ میں پٹھانوں کے دوسرے قبائل کی طرح بنویان (بنوسیان) کا کردار روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ سب نے زبردست جوش و خروش سے اس تحریک میں حصہ لیا اور انگریز کو اپنی اوقات یاد دلادی۔ ساتھ ہی ساتھ یہ کہاوت بھی بنویان نے سچ کردی کہ : "پٹھان پر حکومت کرنا یا انہیں زیرکرنا مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے۔علاقہ منڈان کا رہنا والا ایک بہادر شخص جو ماسٹر کے نام سے مشہور تھا خود کہتاہے کہ میں گورنمنٹ ہائی سکول نمبر ۱ بنوں سٹی میں استاد تھا میری تنخوہ ۱۹ روپے ماہانہ تھی میں اس میں سے ۹ روپے تحریک جہاد کیلئے جمع کرتابعد میں جب فرنگیوں کو اس بات کا پتہ چلا تو مجھ پر انکوائری مقرر کی لیکن میں باز نہ آیا اور اسی طرح مجاہدین کی مالی مدد کرتا رہا۔
حاجی میرزاعلی خان (فقیر ایپی) کی جنگی کاروائیوں نے ضلع بنوں اور شمالی وزیر ستان میں انگریزوں کے خلاف کئی خفیہ محاذ کھول دئیے اور کامیابیاں حاصل کرتے رہے وہ شب و روز فوجی دستوں پر شب خون مارتے اور گوریلا جنگ کا آغاز کرکے سرکار کو سخت نقصان پہچاتے رہے ۔
پٹھان ایک غیرت مند قوم ہے اس کے جتنے بھی قبیلے ہیں ان سب میں یہ خوبیاں بدرجہ اتم مو جود ہوتی ہیں۔ کیونکہ ان کے کسی بھی قبیلے کے کسی بھی فر د میں یہ خوبیاں موجود نہ ہو تو لوگ ان کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے اور اس کے خاندان والوں کو لوگ طعنے دیتے ہیں اسی لئے تو اس کے متعلق کیپٹن فریڈلے کہتے ہیں کہ مجھے ایک کمانڈر افسر دوست نے کہلوایا کہ پٹھان عورتیں ان کی مردوں کی طرح بہادر اور جفاکش ہوتی ہیں اپنی عزت کی خاطر اپنی اولاد اور اپنی جانوں کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتی۔
فقیر ایپی نے اسلام کی سربلندی اور قیام ِ پاکستان کیلئے انگریز حکومت کو ناکوںچنے چبوا ئے اور بالآخر انگریز حکومت نے شکست تسلیم کرہی لی ۔ سر اولف کیرو اپنی کتابThe Pathan میں لکھتے ہیں کہ جہاں تک وزیر ستان کا تعلق ہے تو اس بات کاکوئی ثبوت نہیں ہے کہ وزیرستان پر کسی نے حکومت کی ہے انگریز واحد قوم ہے جس نے وزیر ستان میں قلعے بنائے اور ان کی حکومت بھی انہی قلعوں تک محدود تھی۔ ایک اور جگہ ایک انگریز مورخ کیپٹن فریڈی گیسٹ اپنی کتب انڈین کیولری مین میں لکھتے ہیں کہ ہمیں حکم دیا گیا کہ نشانہ بازی کی مشق خوب کرو کیونکہ آپ لوگ دنیا کے بہترین نشانہ بازوں سے جنگ لڑنے جا رہے ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ فقیر ایپی کے ساتھ جتنے غازی تھے وہ سب بہترین نشانہ باز بھی تھے۔این ڈبلیو فرنٹیئر ۱۹۳۷ تا ۱۹۳۶ کے دوسرے صفحے پر لکھتے ہیںکہ یہ لوگ(پٹھان) محنت کش دہقان ہیں اور اپنی زرخیز زمینوں کو بچانے کیلئے ہم سے زبردست مقابلے کرتے ہیں۔میجر جنرل جے۔جی۔ایلٹ اپنی کتاب دی فرنٹیئر میں لکھتے ہیں کہ اس علاقے میں صرف ایک ایسا انسان تھا جس نے ہماری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربات کی ہو اور وہ فقیر ایپی تھے۔ جنرل ہولڈر ورتھ اپنی کتاب دی پٹھان بارڈر لینڈ میں کچھ اس طرح گویا ہے کہ ۱۹۳۷ ء کو حکومت نے فقیر ایپی کی گرفتاری کیلئے تین ہزار زمینی فوج بھیجی لیکن ناکام رہی۔ (دی پٹھان سر اولف کیرو)
پروفیسر شمشیر علی نے اپنی کتاب بن باس میں کیپٹن فریڈلی کا اقتباس نقل کیا ہے جس کی تفصیل کچھ یوں ہے غروب سورج سے ذرا پہلے سکھ رجمنٹ کے ۲۲ فوجی جوان قلعہ سے باہر پانی کی تلاش میں نکلے تھے چند لمحے بعد ۱۶ جوان سہمے ہوئے واپس آگئے ان سے اسلحہ چھین لیا گیا تھا۔ ان کی آوازیں بالکل بیٹھ گئی تھی۔ بصد مشکل گویا ہوئے کہ ان پر پشت سے اچانک حملہ ہوا اور آن کی آن میں حملہ آور ہمارے صف میں گھس گئے ۔دیکھا سب خواتین ہیں ہر ایک کے ہاتھ میں خطرناک ہتھیار پیش قبض یعنی خنجر تھے۔ ہمارے ۶ جوان ہلاک ہوئے اور ہم مشکل سے جان بچانے میںکامیاب ہوئے۔میں نمونے کے طور پر خیسور کی پہلی جنگ کی طرف متوجہ ہوتا ہوں ۲۴ نومبر ۱۹۳۶ ء میں بنوں سے میر علی کیمپ تک اور رزمک سے ڈمڈیل کیمپ کیلئے ایک ایک بریگیڈ فوج بلائی گئی۔ تاکہ یہ دونوں دستے بیک وقت خیسور کیلئے روانہ ہوں میسور کیمپ میرعلی سے ۱۴ میل اور ڈمڈیل سے ۱۲ میل کے فاصلے پر تھا۔فوجی دستوں کے عقب میںقوم کے مشران ساتھ دے رہے تھے دونوں فوجوں کے ٹینک،توپ، مشین گنیں، گھوڑے تھے۔ مقامی آبادی ابھی عبور کررہے تھے کہ ان پر پہاڑوں کی بلند چوٹیوں سے اچانک مجاہدین نے حملہ کردیا۔اور پھر باقاعدہ جنگ شروع ہو گئی۔ ان فوجی دستوں پر پشت کی طرف سے مذکورہ مشران نے بھی حملہ کردیا۔ان کی تعداد قلیل تھی مگر وہ بھی اس جہاد میں شریک ہو گئے۔ رزمک اور خیسور کے درمیان رابطہ منقطع کردیا گیا۔ اس طرح بنوں اور رزمک کا رابطہ بھی کٹ چکا تھا اور فوج بیچ میں پھنس کر رہ گئی۔ اب مجاہدین فوج کے اندر گھس گئے دست بدست لڑائی شروع ہوئی اسی کشمکش میں میجر ننڈال اور کیپٹن بائڈ ہلاک ہو گئے۔ اور مزید۷۰ فوجی مارے گئے ۔ مجاہدین میں بھی صلابت خان،گلہ خان اور عالم خان شہید ہوئے۔ اس طرح ڈمڈیل کے فوجی دستے پر مجاہدین نے راستے ہی میں حملہ کردیا ۔ جس میں ۷ غازی شہید ہوئے جن میں سید خون میر اور سیئل خان شامل مشہور تھے۔ دشمن کے بہت سے لوگ ہلاک ہوئے۔میجر سکوپ اور اس کے چند دیگر ساتھی بھی ہلاک ہوئے اس کے بعد انگریز فوج تتر بتر ہوگئی اور بھاگنے پر مجبور ہو گئی۔ اور شکست کھا گئی۔فقیر ایپی کو بنوں کے لوگ اب بھی بہت عزت اور احترام سے یاد کرتے ہیں ۔ بالاخر یہ مرد ِ مجاہداور اسلام کا شیدائی فقیر ایپی (حاجی میرزاعلی خان) قیام ِ پاکستان کے بعد صدر ایوب خان کے دورِ حکومت میں اپریل ۱۹۶۰ میں فوت ہوئے اور گورویک میں دفن ہوئے۔ خدا ان کی قبر مبارک پر نورِ برسات فرمائیں (آمین)