بنوں کی سرزمین نے مختلف ادوار دیکھے ہیں ۔یہ علاقہ ایک شورش زدہ علاقہ رہا اس لئے یہاں کے لوگ جھگڑالو ہیں۔سختی ان کی مزاج میں رچی بسی ہوئی ہے۔اس علاقے میں غوری دور، ابدالی دور۔ مغل دور، سکھ دور اور پھر فرنگی دورگزرے ہیں۔مغل، سکھ اور فرنگی کے خلاف یہاں کے لوگ لڑے ہیں اور ان تینوں میں سے کسی کی بھی اطاعت قبول کرنے کو تیار نہیں تھے۔ان کے خلاف یہاں کے لوگ لڑتے رہتے۔فرنگی دورمیں اس علاقے کے لوگوں نے ان کے خلاف گھیرا جب بہت ہی تنگ کیا تو فرنگیوں نے تشدد کا راستہ اپنایا لیکن اس کے باوجود بھی بنویان کو رام نہ کرسکے۔ایک طر ف انہوں نے وزیر قبائل کو جائیدادیں دیکر بنویان کے خلاف اکسایا تو دوسری طرف خود ان کو دبانے کی بھر پور کوشش کی لیکن واقعہ سپینہ تنگی کے وقت بنویان، مروت اور وزیر سب قبائل نے زبردست اتفاق و اتحاد کا مظاہر ہ کیا۔۲۴ اگست ۱۹۳۰ء کو ضلع بنوں کے غیور عوام نے گوروں کے خلاف سپینہ تنگی کے مقام پر ایک اعظیم الشان جلسے کا انعقاد کیا جس میں ضلع بنوں کے علاوہ لکی مروت،شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان، ڈومیل کے لوگوں نے بڑے جوش و خروش سے شرکت کی اگرچہ اس وقت گورو ں نے جلسوں پر مکمل پابندی لگائی تھی اور دفعہ 144 لگایا گیا تھا لیکن بنوں کے لوگوں نے جلسہ کرنے کا اٹل فیصلہ کیا تھا۔ چونکہ اس وقت تحریک ِآزادی زوروں پر تھی۔اسلیئے انگریز حکومت نے بنوں کے اہم اور سرکردہ راہنماوں کو جیل میں نظر بند کر دیا۔ جن کے نام یہ ہیں مقرب خان،خان ملنگ، شیخ حقنواز، یعقوب سالار، ملک اکبر علی خان، حاجی آزاد خان،قاضی حبیب اللہ، شیخ فاروق خان،محمد غلام، گل خوئیداد،حکیم عبدالرحیم،بیرسٹر محمدجان وغیرہ (اور بھی بہت زیادہ نام ہیں )۔تاکہ بنوں شہر میں کوئی ہنگامہ آرائی نہ ہو۔ بنوں کے شہر کو سیل کردیا گیا تھاجبکہ کچھ لوگوں کو اپنے علاقوں میں ہی نظر بند کردیا گیا۔ جب عوام ِ بنوں کو اس کا علم ہوا تو جلسے میںاور بھی گرمی پیدا ہوگئی ۔جب پانی سر سے گزرگیا اور عوام نے بغاوت کا راستہ اپنایا تو انگریز حکومت نے گولی چلانے کا فیصلہ کیا۔ ۲۴ اگست ۱۹۳۰ ء کو سپینہ تنگی جو بنوں شہر سے کچھ ہی فاصلے پر ہے یہ مقام جلسے کیلئے متعین کیا گیا۔ انگریز حکومت کو جب جلسے کا پتہ چلا تو اس نے جلسے کو روکنے کیلئے کافی تگ ودو کی لیکن ناکام رہے۔ بنوں کے عوام ہر قیمت پر یہ جلسہ کرانا چاہتے تھے۔ لہٰذا آزادی کی تحریک کو ماند کرنے کیلئے انگریز حکومت نے اس جلسے کو ناکام بنانے کیلئے بہت کوشش کی انگریز افسر سی۔ایچ گڈنی ڈپٹی کمشنر نے میرداد خان،ایوب خان اور فضل قادر کو اطلاع دی کہ وہ اپنے آپ کو گرفتاری کیلئے پیش کریں۔ اور جلسہ نہ کریں۔ تینوں نے جواب دیا کہ جلسے کے اختتام پر ہم اپنے آپ کو آپ کے حوالے کریں گے لیکن انگریز حکومت موقع کی تلاش میں تھی کیونکہ وہ انتقام لینا چاہتے تھے۔جب انگریز کو پتہ چلا کہ بنویان کوئی بھی بات ماننے کوتیارنہیں تو اس نے فوجی دستے کو حکم دیا کہ جلد از جلد سپینہ تنگی پہنچ جائیں اور اگردوران جلسہ کوئی حکومت مخالف بات کرے تو انہیں گرفتار کریں جونہی جلسہ شروع ہوا اور جناب فضل قادر صاحب ؒسٹیج پر آئے تو ایک انگریز افسر کیپٹن ایش کرافٹ نے آپ کو داڑھی مبارک سے پکڑ کر اسے سٹیج سے نیچے گرا دیا۔ ایک رضاکار نے مداخلت کی تو اسے گولی مار دی گئی۔ اس پر علاقہ ممش خیل کے محمد یوسف نے کیپٹن ایش کرافٹ کو درانتی (لور،فصل کا ٹنے کا آلہ)سے ہلاک کر دیا۔ اس کے بعد جلسہ گاہ میدانِ جنگ بن گیا۔ ہر طرف گولیاں برس رہی تھیں۔ سینکڑوں آزادی کے متوالوں کو بڑی بے دردی سے شہید کردیا گیا۔ جبکہ فضل قادر کی لاش انگریز حکومت نے اپنی تحویل میںلی اور انہیں بنوں جیل کے احاطے میں دفن کردیا۔اس طرح آزادی کے اس پروانے کو گوروں نے جیل میں دفن کرکے اس کے مزار کو بھی جیل میں ہی قید کر دیا۔جب بنوں جیل بنوں ٹاؤن شپ منتقل ہوئی تو آزادی کے اس پروانے کے مزارکو ازسر نو مزین کرکے وہاں پر ایک خوبصورت پارک فضل قادر شہید کے نام سے تعمیر کیاگیا۔ساتھ ہی اس پارک میں ایک عوامی پبلک لائبریری اور بڑے بڑے پروگراما ت کیلئے ایک خوبصورت آڈیٹوریم ہال بھی تعمیر کیا گیا۔
سانحہ ٔ سپینہ تنگی میں بہت سے لوگ شہید ہوئے لیکن اس کے بعد بھی بنوں کے عوام میں آزادی حاصل کرنے کا جذبہ ٹھنڈا نہیں ہوا کیونکہ ابھی تو باقاعدہ تحریک ِ آزادی صحیح معنوں میں شروع ہوئی تھی۔ دراصل انہی شہیدوں کا خون تھا جس نے رنگ لا کر ہمارے لئے اور آنے والی نسل کیلئے ایک آزاد ریاست کے قیام میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ سپینہ تنگی کے واقعہ میں بنوں کے ہرقبیلے کے لوگوں نے بھر پو ر شرکت کی تھی۔ یہ اور بات ہے کہ ہر کسی کا نام تاریخ میں محفوظ نہیں ہے۔ لیکن اتنا بڑا جلسہ اور اتنے زیادہ لوگوں کو اکٹھا کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ان شہیدوں نے آزادی کیلئے بہت کچھ کیا ہے لیکن افسوس کہ ہم لوگوں نے ان کے اصولوں اور قربانیوں کو فراموش کردیا ہے۔صرف ان کی قبروں پر پھول رکھ کر دنیا والوں کو یہ بتاتے ہیں کہ ہم ان شہیدوں کی قربانیوں کی لاج رکھتے ہیں۔