بنوں میں کانگرس کا کردار بہت جاندار رہا ۔ چونکہ یہاں لوگ غلامی قبول کرنے سے پہلے ہی اپنی موت کو ترجیح دیتے ہیں اس وقت انگریز کے دور ِ حکومت نے کانگرس کی مقبولیت اور لوگوں کے جذبوں کو دیکھ کر بنوں کے بہت سے لوگوں کو جیل میں نظربند کردیا تھا۔ جن میں بنوں کے ہر قبیلے کے ارکان شامل تھے ان میں سے چند اہم ارکان کا ذکر کرتا ہوں، ملک شاہ دراز خان سوکڑی،ملک اکبر علی خان سوکڑی، عبدالرحیم عیسکی،ٹینگ نسور بنوسی، نظردین وزیر، گڈ رمضان بنوی ،قاضی جناب دین فاطمہ خیل، ملک حمید اللہ جان میرزعلی خیل،خوبان داؤد شاہ،صالح خان منڈان ،جان گل ککی، مختیار میراخیل،جنیدی بنوسئی، شیر افگن، سالار یعقوب، خان ممش خیل، ملک میر صاحب خان، خان ملنگ، شیخ حق نواز خان وغیرہ جن کی فہرست بہت طویل ہے۔ اس کے بعد حالات سنگین ہوگئے بنوں کے سارے شہر میں مارشل لاء لگایا گیا۔ سیاسی نعرہ لگانا ایک جرم تھا سرخ لباس پہننا بھی جرم تھا لیکن لوگوں میں شدید جذبہ تھا لوگ بڑے بڑے اور اونچے درختوں پر سرخ جھنڈے لگاتے خود میرے والد محترم فرماتے ہیں کہ ہمارے علاقہ نورملی جھنڈوخیل میںہمارے چچا زاد بھائی ربنواز خان نے پیپل کے درخت پر سرخ جھنڈا لگایا تھا۔انگریز نے بہت کوشش کی کہ کانگرس کا زور توڑ سکیں لیکن ہر بار ناکام رہے۔ملک دمساز خان بنوں میں مسلم لیگ کے ضلعی صدر تھے۔ جب قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم بنوں کے دورے پر آئے تو ملک دمساز خان نے قائد سے کہا کہ پاکستان کے خزانے کیلئے ٹوٹل کتنا چندہ جمع ہو چکا ہے قائد نے کہا کہ ۷۵ ہزار روپے ملک دمساز خان نے کہا کہ میں اپنی طر ف سے پاکستان کے خزانے میںاکیلے ۷۵ ہزار روپے بطورِ چندہ دینے کا اعلان کرتا ہوں اور اسی وقت قائد کو ۷۵ ہزار روپے نقد پیش کئے قائداعظم ملک دمسازکے اس عمل سے انتہائی خوش ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد بھی اس خطے کے لوگوں نے پاکستان کیلئے بہت کچھ کیا ہے جن کی شہادت تاریخ خود دیتی ہے۔ حتیٰ کہ ابھی تک یہ لوگ اپنے دین اور اپنے ملک کیلئے قربانیاں دے رہے ہیں۔