زندہ قومیں ہمیشہ غیرت مند، اسلام پسند اور محب وطن لوگ پیدا کرتی ہیں۔ بنوں میں غازی دلاسہ خان ایک نہایت بہادر،جنگجو اور با ہمت ملک گزرے ہیں وہ صوم و صلوٰۃ کے پابند انسان تھے۔غازی دلاسہ خان ۱۷۷۷ء کو کشر داؤد شاہ علاقہ سورنگی میں پیدا ہوئے تھے۔ داؤد شاہ غازی دلاسہ خان بابا کا جدامجد تھا کشر چھوٹا ( احمد خان) کے بیٹے کا نام گلہ خان تھا جس کے ساتھ غازی دلاسہ خان کا سلسلہ نسب ملتا ہے۔ اس حوالے سے دلاسہ خان کے قبیلے کا نام گلا خیل مشہور ہوگیا۔ غازی دلاسہ خان بابا جیسے لوگ صدیوں میں ایک بار پیدا ہوتے ہیں۔ آپ انتہائی فرض شناس اور مجاہدانہ زندگی کے حامل انسان تھے۔ اسلام کی سربلندی اپنے اوپر فرض سمجھتے تھے اور اس فرض کو نبھانے کیلئے آپ سکھ اور پھر فرنگی راج سے آخری دم تک لڑتے رہے۔کبھی سرنڈر نہیں ہوئے۔آپ نے کبھی بھی دنیا کو دین پر فوقیت نہیں دی۔ تاریخ گواہ ہے کہ غازی دلاسہ خان نے کبھی غلامی کو قبول نہیںکیا۔ان کی مجاہدانہ کاوشوں کی وجہ سے پہلے سکھ اور پھر گورے سخت پریشان تھے ۔سارے برصغیر پر گوروں نے حکومت کی لیکن بنوں میں وہ اتنے ڈرتے تھے کہ بنوں چھاؤنی سے وہ سوچ سمجھ کر باہر نکلتے۔جس طرح علاقہ درہ آدم خیل میں عجب خان آفریدی نے گوروں کا جینا محال کیا تھا اسی طرح بنوں میں دلاسہ خان بابا نے کردار ادا کیاہے۔لیڈر شپ کی تمام خوبیاں موصوف میں موجود تھیں۔غازی دلاسہ خان کے بارے میں ایڈورڈ کہتے ہیں کہ میں نے زندگی بھر میں ایسا انسان نہیں دیکھا ان کے نام سے ہی سکھ لرزتے تھے ۔سکھوں کیلئے خوف کی علامت اور موت کا پیغام تھا ایک دفعہ تارا سنگھ ۸ ہزار سکھ فوج جن کے پاس ۱۲ توپیں تھیں غازی دلاسہ خان کے مقابلے کیلئے گئے اور غازی کے گاؤںکو یرغمال بنایا لیکن اس شیر نے محاصرہ توڑ کر ۲۰۰ سکھوں کو قتل جبکہ ۵۰۰ سے زائدکو گرفتا ر کیا جس کی وجہ سے سکھا شاہی نے مصلحت سے کام لیا۔راجہ سوچیت سنگھ جو خود ایک بہادر جرنیل تھے ،نے دس ہزار فوج کے ساتھ علاقہ داؤد شاہ پر حملہ کیا لیکن بہادر غازی دلاسہ خان نے قلیل فوج کے ساتھ سکھوں کو ناکوں چنے چبوا دئیے۔ایڈورڈ آگے لکھتے ہیں کہ مجھے غازی دلاسہ خان سے ملنے کا انتہائی شوق تھا اسے خط بھیجا میرا خیال تھا کہ وہ کبھی ڈر کی وجہ سے نہیں ملے گا لیکن ایک دن گھوڑے پر سوار خود ملنے آئے مجھے اپنی آنکھوں پر بھروسہ ہی نہیںآیا، بے فکر اور بے خوف میرے کیمپ میں داخل ہوا ۔اس کی آنکھوں میں ایک خاص قسم کی چمک تھی اگر چہ وہ اس وقت تقریباً ۷۰ سالوں سے اوپر تھے لیکن جسمانی لحاظ سے بہت ہی مضبو ط انسان تھے۔ ایڈورڈ لکھتے ہیں کہ میرے ساتھ کچھ سکھ سپاہی تھے وہ اسے ایسے دیکھتے جسے شیر اپنے پنجرے سے باہر آیا ہو۔لیکن غازی دلاسہ خان کے دل میں کوئی خوف نہیں تھا کیونکہ ان کے چہرے سے صاف پتہ چلتا تھا اگر وہ ڈرپوک انسان ہوتے تو کبھی اکیلے ملنے نہ آتے۔
؎ آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے