ایک روایت کے مطابق دارا شکوہ جو مغل بادشاہ شاہجہان کا بیٹا تھا سیر و سیاخت کی غرض سے بنوں آیا تھا۔ شاہی مہمان کی حیثیت سے کافی وقت گزارا علاقہ سورانی میں شاہ جویہ نامی نہر نکالی۔یہ نہر دارا نے سادات خاندا ن کیلئے نکالی تھی تاکہ وہ اپنی زمینیں اس سے سیراب کر سکیں۔
خوشحال خان خٹک کے کہنے پر راجہ بیشن سنگھ کے ہمراہ شہزادہ معظم نے کابل کی طرف سے بنوں پر حملہ کیا اور جھنڈوخیل کے مقام پر ایک تاریخی قلعہ تعمیر کیا لیکن واپسی کا راستہ بھو ل گیا۔بنویان نے بعد میں اس قلعہ پر دوبارہ قبضہ کیااور مغل کے تعینات حاکم کو بھگا دیا۔
گل ایوب سیفی صاحب تاریخ بنوں میں لکھتے ہیں کہ ۱۳۹۸ ء میں امیر تیمور درہ کرم کے راستے بنوں داخل ہوا تھا یہاں سے بڑھتا ہوا پنجاب اور دہلی تک گیا۔بنوں کے مقامی لوگوں نے امیر تیمور پر کئی حملے کئے۔امیر تیمور نے یہاں کئی بستیاں تہ تیغ کیں حالانکہ مجھے بنوں میں کوئی ایسا مقام یا کوئی ایسی جگہ نہ ملی جس سے ثابت ہو سکے کہ امیر تیمور نے یہ بر باد کی ہو،سوائے آکرہ کے، جس کی بھی تاریخ ادھوری ہے۔ میرے خیال میں امیر تیمور بنوں آیا تھا لیکن یہاں کے لوگو ں کے ساتھ ان کی جنگ ہوئی ہی نہیں۔
گل ایوب سیفی کے مطابق مغل بادشاہ بابر کوہاٹ کے راستے سے ہنگو پھر ٹل سے بلند خیل کے راستے بنوں آیا تھا مقامی باشندوں کے سردار شادی خان نے جب معافی مانگی تو بنویان کی سرکشی معاف کر دی گئی ۔اس کا ذکر تو تزک بابری میں بھی موجود ہے لیکن اس وقت کے بادشاہ اپنے آپ کو تیس مار خان بنانے کیلئے اپنے دربار میں بیٹھ کر جو دل میں آتے کاتب کو بتاتے اور وہ لکھتا۔آگے ہمارے محقق کہتے ہیں کہ بابر کی ظالمانہ حکومت مقامی باشندے(بنویان) ابھی تک یاد کرتے ہیں حالانکہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے اگر کسی کی پاس ٹھوس ثبوت ہے تو پیش کرے۔
احمد شاہ ابدالی بابا،سلطان محمود غزنوی،شیر شاہ سوری اور غوری یہاں بنوں آتے تھے ابدالی بابا ۱۷۴۷ کو اپنے سپہ سالار جہان خان کے ہمراہ دریائے ٹوچی کے راستے بنوں آئے تھے۔
ایک انگریز لکھتے ہیں کہ In 1738 a portion of Nadir Shah,s army ,on its way to invade india, interd Bannu by the vallely of Dawar & by its atrocities so cowed the Bannuzai(Banyweyan) & Marwat as to extract a heavey tribute from them.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔