شاہ شجاع نے بنوں کو رنجیت سنگھ کے حوالے کیا رنجیت سنگھ ۱۸۲۴ ء میں لاہور سے عیسیٰ خیل کے راستے بنوں آیا۔تیسری مرتبہ ۱۸۳۰ ء میں کنور سنگھ،کڑک سنگھ اور فتح سنگھ اسی راستے سے بنوں آئے اور انہیں لگان کی وصولی میں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ لہٰذا ناکام و نامراد ہوکر پشاور چلے گئے کیونکہ بنویان میں اس وقت بہت زیادہ اتفاق تھا اور وہ ہر کسی کا مشترکہ طور پر مقا بلہ کرتے۔ چوتھی دفعہ تارا سنگھ ۱۸۳۳ ء کو بنوں آیا علاقہ مروت یعنی لکی مروت کوخوب لوٹا اور غازی دلاسہ خان اور ان کے ساتھیوں نے انہیں زبردست نقصان پہنچایا اور اسے شکست دی ۔ تارا سنگھ لاہور گیا اور رنجیت سنگھ سے فریاد کی کہ سارا بنوں باغی ہوگیا ہے کوئی لگان دینے کو تیار نہیں۔رنجیت سنگھ ایک زیرک انسان تھا اُسے معلوم تھا کہ اگر بنویان کے ساتھ جنگ کی جائے تو انھیں زیر نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ بنوں میں اتنے فوجی نہیں رکھ سکتے جو بنویان اور خاص کر غازی دلاسہ خان بابا کا مقابلہ کرسکتے اس لئے انہوں نے مصلحت کا راستہ اپنایااوربنوںکے تمام ملکوں کی ملکی بھی انہوں نے تسلیم کرلی کیونکہ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں تھا۔ اس لئے وہ خود بنویان کے کچھ ملکوں سے ملا اور قصوروار تارا سنگھ کو ہی گردانا لیکن کچھ ہی عرصہ بعد بنویان نے پھر بغاو ت کا راستہ اختیار کیا ۔ایک انگریز محقق لکھتے ہیں:
In 1823 the singh crossed the indus at the head of a large force, marched through Isakhel & Marwat without opposition & pushed on to the outskirts of Bannu.
٭٭٭٭٭